قبر اقبال پر
پھول لیکر گیا، آیا روتا ہوا، بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آ رہی تھی صدا، یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
قبر پر قوم ساری تھی نوحہ کناں، آنکھ کے آبگینے تھے پھوٹے ہوئے
چند ہاتھوں میں گلشن کی تصویر تھی، چند ہاتھوں میں آئینے ٹوٹے ہوئے
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی، روحِ قائد بھی تھی سرجھکائے ہوئے
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر، کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن
چاند تارے کے پرچم میں لپٹے ہوئے چاند تاروں کے لاشے بھی موجود تھے
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی، ایک شاہین تھا میں ذہن اقبال کا
ایک تھے جو کبھی، آج دو گئے، ٹکڑے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے
تم نے روکے محبت کے خود راستے، اس طرح ہم میں ہوتی گئیں دُوریاں
آج شاخ و شجر، بوئے صحن چمن، باغبانوں سے ہیں خوف کھائے ہوئے
قوم کی ماؤں بہنوں کی جو آبرو نقشہِ ایشیا میں سجائی گئی
قبر اقبال سے آ رہی تھی صدا، یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
قبر پر قوم ساری تھی نوحہ کناں، آنکھ کے آبگینے تھے پھوٹے ہوئے
چند ہاتھوں میں گلشن کی تصویر تھی، چند ہاتھوں میں آئینے ٹوٹے ہوئے
سب کے دل چُور تھے، سب ہی مجبور تھے، بیکسی وہ کہ تابِ نظارا نہیںشہرِ ماتم تھا اقبال کا مقبرہ، تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی، روحِ قائد بھی تھی سرجھکائے ہوئے
کہہ رہے تھے سبھی، کیا غضب ہو گیا، یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیںسرنگوں قبر پر تھا منارِ وطن، کہہ رہا تھا کہ اے تاجدارِ وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر، کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن
جس کی خاطر کٹے قوم کے مردوزن، ان کی تصویر ہے یہ منارا نہیںکچھ اسیرانِ گلشن تھے حاضر وہاں، کچھ سیاسی مہاشے بھی موجود تھے
چاند تارے کے پرچم میں لپٹے ہوئے چاند تاروں کے لاشے بھی موجود تھے
میرا ہنسنا تو پہلے ہی اک جرم تھا، میرا رونا بھی ان کو گوارا نہیںکیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا، شیر تھا ایک میں ارض بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی، ایک شاہین تھا میں ذہن اقبال کا
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آجکل، دوسرا دشمنوں کو گوارا نہیںیوں تو ہونے کو گھر ہے، سلامت رہے، کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی، آج دو گئے، ٹکڑے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے
گھر بھی دو ہو گئے، در بھی دو ہو گئے، جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیںکچھ تمھاری نزاکت کی مجبوریاں، کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے، اس طرح ہم میں ہوتی گئیں دُوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر، تیری رسوائیاں بھی گوارا نہیںاِس چمن کے بلبل بھی ستائے ہوئے، اُس چمن کے بلبل بھی ستائے ہوئے
آج شاخ و شجر، بوئے صحن چمن، باغبانوں سے ہیں خوف کھائے ہوئے
وہ نہ زندوں میں ہیں اور نہ مُردوں میں ہیں، ایسی موجیں ہیں جن کا کنارا نہیںوہ جو تصویر مجھ کو دکھائی گئی، میرے خون جگر سے نہائی گئی
قوم کی ماؤں بہنوں کی جو آبرو نقشہِ ایشیا میں سجائی گئی
موڑ دو آبرو، یا وہ تصویر دو، ہم کو حصوں میں بٹنا گوارا نہیں
مشیر کاظمی مرحوم
2 comments:
[...] قبر اقبال پر [...]
11/12/2007 05:12:00 PM9 نومبر پر 113واں اقبال ڈے مبارک کو سب کو
11/10/2009 02:07:00 AMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔