21 September, 2008

صدر مملکت کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا مکمل متن

صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے بروز ہفتہ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنا پہلا خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے پاکستان درپیش چیلنجوں، اقتصادی اور معاشی اور دیگر تمام مشکلات کا تفصیل سے ذکر کیا۔ اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے دہشت گردی، انتہا پسندی  کشمیر اور بھارت سے متعلق حکمت عملی کے بارے میں بھی اراکین پارلیمنٹ کو آگاہ کیا۔
صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کے پارلیمنٹ سے خطاب کا مکمل متن درج ذیل ہے۔


میڈم سپیکر
معزز اراکین پارلیمنٹ
السلام علیکم
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے میں سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھے یہ اعزاز بخشا۔ میں اراکین پارلیمنٹ اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کا شکر گذار ہوں جنہوں نے اس اعلٰی ترین منصب کے لئے میرا انتخاب کیا اور مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا۔ میں جانتا ہوں کہ مجھے یہ منفرد اعزاز اور پذیرائی صرف اور صرف شہید محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے نام پر حاصل ہوئی ہے۔ آج میں پاکستان کی جمہوری قوت کے سامنے نہایت عاجزی کے ساتھ حاضر ہوا ہوں۔ آج کے دن کی اہمیت کے حوالے سے ہمارا خیال بار بار محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرف جاتا ہے۔ جو کہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں اور دو مرتبہ پاکستان کی منتخب وزیر اعظم رہیں۔ ان کی بے مثال جرآت اور قربانیوں کے طفیل پاکستان کو جمہوریت حاصل ہوئی۔ آج اس پارلیمنٹ کا وجود اور ہماری یہاں موجودگی سب کچھ محترمہ کے تاریخی کردار کی وجہ سے ممکن ہوا۔ درحقیقت آج یوم بے نظیر ہے۔کاش میرے بجائے آج وہ اس ایوان سے خطاب فرماتیں۔ آج کے دن ہم شہدائے کار ساز کو نہیں بھول سکتے۔ ہم ٢٧ دسمبر کے شہدائے لیاقت باغ۔ ١٧جولائی کے شہدائے اسلام آباد ۔اور ١٢ مئی کے شہدائے کراچی کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں اور وہ بھی جو ان واقعات میں زخمی ہوئے جمہوریت کے اصل ہیرو ہیں ۔ وہ ہمارے ہیرو ہیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں بھی اشکوں اور خون کا دریا پار کر کے اس منزل تک پہنچا ہوں ۔ میں ضمیر کا قیدی رہا ہوں، لیکن کوئی مجھے تاریخ کا قیدی نہیں بنا سکتا۔ کیونکہ میں تاریخ سے سیکھتا ہوں اور یہ سبق کبھی نہیں بھلا سکتا۔ میں اپنے فیصلوں کو تلخ یادوں اور انتقامی رویوں سے آلودہ نہیں کروں گا۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم آگے بڑھیں، اللہ تعالی نے ہمیں کچھ کر دکھانے کا موقع دیا ہے ہم اسے ضائع نہیں کریں گے۔ میں تمام منتخب اراکین پارلیمنٹ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، میں جناب وزیر اعظم، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی ذمہ داریاں سنبھالنے پر مبارکباد پیش کر تا ہوں۔ آپ کو جو مینڈیٹ حاصل ہوا ہے وہ ایک اعلٰی اعزاز ہے اور ایک بھاری ذمہ داری بھی ہے ۔

طرز حکمرانی
میڈم سپیکر
صدر منتخب ہونے کے بعد صرف دو ہفتوں کے اندر اندر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے میرا خطاب کرنا ظاہر کرتا ہے کہ میرے لئے پارلیمنٹ کی کتنی زیادہ اہمیت ہے۔ صدر کی حیثیت میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لئے میں پارلیمنٹ، آئین اور قانون کو ترجیح دیتا ہوں۔
دورِ آمریت میں پارلیمنٹ کے اختیارات سلب کر لئے گئے تھے اور اسے جائز مقام اور احترام بھی حاصل نہیں تھا۔ آئین کا تقاضا ہے کہ انتخابات کے بعد اور ہر پارلیمانی سال کے آغاز میں صدر مملکت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں۔ لیکن گذشتہ ٨ سال کے دوران سربراہ مملکت نے صرف ایک بار مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا ۔ لیکن اب میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ قومی اہمیت کے معاملات پر فیصلہ سازی کرتے ہوئے آئین سے رو گردانی اور پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنے کا دور قصہ ماضی بن چکا ہے۔ سربراہ مملکت کی حیثیت سے میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ صدر اور حکومت اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے ہمیشہ پارلیمنٹ سے راہنمائی حاصل کریں گے، کیونکہ ہم نے آئین کے تقدس ، پارلیمنٹ کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی قائم رکھنے کا عہد کیا ہے۔ ہمارے طرز حکمرانی کا بنیادی ستون ١٨ فروری کو عوام کی طرف سے دیئے گئے مینڈیٹ کا احترام کرنا ہے۔

ایجنڈا
میڈم سپیکر اور معزز اراکین پارلیمنٹ
پاکستان کے لئے میرا ایک تصور ایک خواب ہے کہ میں وطن عزیز کو افلاس، بھوک، دہشت گردی اور تفرقے سے پاک دیکھنا چاہتا ہوں۔ اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ قانون ساز ہوتے ہوئے آپ لوگ بھی میرے اس خواب اور اس تصور کے شراکت دار ہیں۔ ہر امید کو بر لانے کیلئے ہمیں کچھ سوچنا ہوگا۔ کوئی پلان بنانا ہوگا اور پلان کے لئے کوئی لائحہ عمل کوئی ایجنڈا مرتب کرنا ہو گا۔ بلاشبہ، آپ کی حکومت کے سامنے چیلنجز سے نمٹنے کا ایک بھاری قومی ایجنڈا ہے۔ اس ایجنڈے کا تقاضا ہے کہ بغیر کسی تاخیر کے ماضی کے زخم بھرے جائیں اور وفاق پر اعتماد کو بحال کیا جائے۔ بلوچستان کے عوام سے معافی طلب کرنا اصلاح احوال کے لئے پہلا قدم تھا۔ حالانکہ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیئے تھا۔ سابق وزیر اعلٰی بلوچستان کی رہائی بھی ایسا ہی اقدام تھا بلوچستان کے لئے طویل عرصے سے متنازعہ ادائیگیوں کی مد میں جو کئی ارب روپے رکے ہوئے تھے ان کی ادائیگی بھی ایک مثبت قدم ہے لیکن ابھی ہمیں اس ضمن میں اور بہت کچھ کرنا ہے ۔ پے در پے ہونے والی ناانصافیوں نے وفاق کو کمزور کر دیا ہمیں ان کا ازالہ کر کے وفاق کو مضبوط بنانا ہے ۔ ہمیں ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر قومی یکجہتی، مفاہمت اور ہم آہنگی کو فروغ دینا ہوگا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ١٩٧٣ کا آئین واحد ایسی متفقہ دستاویز ہے جس کی بنیاد پر ایک نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیا جا سکتا ہے ۔ ہمارے سامنے عرصہ دراز سے نظر انداز کئے جانے والے معاشرتی، معاشی اور ادارہ جاتی مسائل کا انبار ہے۔ جنہیں فوری حل کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے فتنے کو سر اٹھانے سے پہلے ہی کچلنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ قبائلی علاقوں میں دیرپا اصلاحات کر کے انہیں قومی دھارے میں لانے کی کوششوں کو بھی زیادہ موثر اور تیز کرنا ہو گا۔ تاکہ ہمارے وہ بھائی بھی تمام پاکستانی بھائیوں کے ہم پلہ ہوکر زندگی گذار سکیں۔ شمالی علاقوں میں بھی بنیادی حقوق اور ضرورتوں کی فراہمی ایک اہم ذمہ داری ہے وہاں نمائندہ حکومت اور آزاد عدلیہ کا قیام بھی ضروری ہے۔ ہم عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں اور اس حوالے سے تمام معاملات کو آئین اور قانون کی روشنی میں طے کیا جائے گا۔ آپ حضرات پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آئین کو مسخ کرنے والی تمام ایسی شقوں کو ختم کردیں جو یکے بعد دیگرے آنے والے آمروں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے آئین میں شامل کر دیں تھیں۔ پاکستان کے جمہوری طور پر منتخب ہونے والے صدر کی حیثیت سے میں پارلیمنٹ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ایک کل جماعتی کمیٹی تشکیل دیں جو ١٧ ویں ترمیم اور ٥٨ ٹو بی کے خاتمے کے لیے آئینی ترامیم پیش کریں۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی صدر نے اپنے اختیارات چھوڑنے کی بات نہیں کی ہوگی جیسا کہ آج میں کر رہا ہوں۔

قومی سلامتی
میڈیم سپیکر اور معزز ارکان پارلیمنٹ
پاکستان سلامتی کے حوالے سے بڑی نازک صورتحال سے دو چار ہے۔ ہمارے قبائلی علاقوں اور ان سے ملحقہ خطوں میں انتہا پسندوں اور دہشت گرد عناصر نے جو مسائل پیدا کر دیئے ہیں ان سے نمٹنے کے لیے حکومت نے ایک سہہ نکاتی حکمت عملی طے کی ہے۔
١۔ جو لوگ امن کے خواہش مند ہیں اور قانون شکنی ترک کرنا چاہتے ہیں ہم ان کے لیے امن کا قیام ممکن بنائیں گے۔
٢۔ ان علاقوں میں معاشرتی ترقی اور لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری کی جائے گی ۔
٣۔ طاقت کا استعمال آخری حربہ ہوگا۔لیکن صرف ان لوگوں کے خلاف جو ہتھیار پھیکنے سے انکار کریں گے، قانون اپنے ہاتھ میں لیں گے، جو حکومت کی عمل داری کو چلینج کریں گے اور جو سیکورٹی فورسز پر حملہ آور ہوں گے۔
میں چاہتا ہوں کہ تمام متعلقہ افراد اور ادارے اس پالیسی کو اپنائیں۔ میں حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ قومی سلامتی کے امور پر بریفنگ کے لیے پارلیمنٹ کا ایک اِن کیمرہ مشترکہ اجلاس منعقدکرے، تاکہ قوم کے نمائندہ افراد کو تمام معلومات کی روشنی میں فیصلہ کرنے کی سہولت حاصل ہو۔ اور وہ جان سکیں کہ ہمارے پیارے وطن کو کون کون سے خطرات درپیش ہیں۔ اور ہم ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے ایک واضح سمت کا تعین کر سکیں۔ میں حکومت سے یہ تقاضا کرتا ہوں کہ وہ ایسا بندوبست کریں کہ ہماری دھرتی ملک کے اندر یا کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیوں کے لیے استعمال نہ ہوسکے۔ ہم یہ برداشت نہیں کریں گے کہ کوئی دہشت گردوں کی سرکوبی کا بہانہ کر کے ہماری خود مختاری اور علاقائی حدود کی خلاف ورزی کرے۔

علاقائی سلامتی
میڈیم سپیکر اور معزز ارکان پارلیمنٹ
میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ ایسے ملک اور ایسی قومیں جنہیں اپنی سرحدوں پر شورش اور تنازعات کا سامنا ہو، دنیا میں ان کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے اس لیے ہمیں نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ اپنے ہمسائے میں بھی امن وامان کو یقینی بنانا ہے اسی سے ہمارے ملک و قوم کا مفاد وابستہ ہے۔ ہمیں تنازعات کی کیفیت کو سمجھنا چاہیئے اسی حکمت عملی  کے تحت میں نے تقریب حلف برداری میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی کو خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی تاکہ افغانستان کے ساتھ حالات کو معمول پر لانے اور بردارانہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کو نمایاں کیا جائے۔ بھارت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات ہمارے لیے اہمیت کے حامل ہیں ان پر ہمیں نئی جہت سے پیش رفت کرنا ہوگی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے یہ کہا تھا ''وقت آچکا ہے کہ نئی سوچ پیدا کریں۔ وقت آچکا ہے واضح طرز عمل اختیار کریں اور یہ وقت ہے کہ خلوص اور دیانتداری لوگوں کے مابین فروغ پائیں ہم بہت سی مصیبتیں جھیل چکے ہیں اب وقت آچکا ہے کہ مفاہمت کی راہ اختیار کی جائے''۔ ایسی ہی سوچوں کے ساتھ اس خطے میں پر امن تعلقات کی خواہش رکھنے پر ہمارے ناقدین نے ہمیں ''سیکورٹی رسک'' قرار دیا تھا مگر سوچوں کو قتل نہیں کیا جاسکتا۔ میثاق جمہوریت ہماری حکومت کو پابند کرتا ہے کہ پاکستان کے عوام کو امن و انصاف کی فراہمی کے لیے طے شدہ لائحہ عمل کو یقینی بنائے بھارت کے ساتھ امن اور دوستی کو آگے بڑھائے۔ پاکستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات کا عمل جاری رکھا جائے اور دوطرفہ تجارت کے ذریعے تعلقات کو بڑھایا جائے۔ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے بنیادی حقوق کی بحالی کیلئے کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جموں کشمیر سمیت تمام تنازعات طے ہوجائیں تاکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور امن قائم کرنے کی راہ میں جو رکاوٹیں جو حائل ہیں وہ دور ہوجائیں۔ کشمیر کے حوالے سے اعتماد سازی کو بڑھانے کے لیے ہم لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت کو بڑھانے کے لیے تیار ہیں ہم اپنی ویزا پالیسی کو مزید آسان اور آزادانہ بنا رہے ہیں تاکہ دونوں طرف کی عوام کو رابطہ کرنے میں مشکل پیش نہ آئے ان کی دوستیوں میں اضافہ ہو ہم ہندو اور سکھ یاتریوں کو بھی  زیادہ سہولتیں پیش کریں گے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک اور پہل قدمی کر رہے ہیں میں چاہتا ہوں کہ پارلیمنٹ دوطرفہ منتخب نمائندوں پر مشتمل ایک ایساگروپ تشکیل دے جو کشمیر اور انڈس واٹر ہیڈ ورکس جیسے متنازع مسائل کو حل کرنے کے لیے رہنمائی فراہم کرے اس گروپ میں تمام سیاسی پارٹیوں کو نمائندگی دی جائے تاکہ اہم معاملات پر پوری قوم یک جان اور یک زبان ہوسکے۔

غربت
میڈیم سپیکراور معزز ارکان پارلیمنٹ
حکومت کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ معاشی صورتحال ہے کوئی بھی منتخب حکومت اپنے لوگوں کو بھوکا مار کر زندہ نہیں رہ سکتی گورنمنٹ کے سامنے فوری حل طلب مسئلہ مہنگائی کے ستائے ہوئے عام آدمی کو غذائی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ عالمی سطح پر تیل اور غذائی اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہمارے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔ دوسری طرف ہمارا اپنا پیدا کردہ مسئلہ بھی ہے، کہ گذشتہ ٩ سال سے زرعی شعبہ مسلسل نظر انداز ہو تا رہا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے لوگوں کی غربت میں اضافہ ہوا، حکومت نے غریبوں کو فوری طور پر ریلیف دینے کے لیے ملک بھر میں ایک فلاحی سکیم کا فیصلہ کیا ہے، ہر قسم کی سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر غریب خاندان اس سکیم سے مستفید ہوسکے گا۔ بے نظیر انکم سپورٹ سکیم پر عملدرآمد کے لیے موجودہ مالی سال کے بجٹ میں ٣٤ ارب روپے رکھے گئے ہیں، جس سے ضرورت مندوں کو براہ راست مالی امداد فراہم کی جائے گی۔ ٹریڈ یونین سے پابندی کا خاتمہ کیا جاچکا ہے اور مزدوروں کی کم از کم اجرت میں بھی اضافہ ہوچکاہے۔

معیشت
میڈیم سپیکر اور ارکان پارلیمنٹ
میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ بھی کیا جارہا ہے یہ کافی نہیں ہے لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ حکومت کو ایک ایسی معیشت ورثے میں ملی ہے جس کی بنیاد صارفیت پر تھی۔ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی کے ٹیرف اور تعیشات کی درآمدت کے ضمن میں واجبات اور غیر ادا شدہ امدادی رقومات کا بارِگراں سابقہ حکومت نے اس حکومت کو منتقل کیا ہے، تیل اور گیس پر دی جانے والی سبسڈی کو ختم کرنے کا ناگوار فیصلہ موجودہ سیاسی حکومت کو کرنا پڑا، اگر ہم یہ کڑوی گولی نہ نگلتے تو روز مرہ کے اخراجات میں بھی مشکل پیش آتی۔ میں ایک نئی معیشت کا آغاز دیکھ رہا ہوں جس میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا، بیرونی سرمایہ کاری بحال ہوگی، زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج اضافہ ہوگا، زرمبادلہ کے نرخوں میں بہتری آئے گی اور انشاءاللہ ایک دیرپا ایک مسلسل بڑھوتری کا عمل شروع ہوجائے گا۔

توانائی
میڈم سپیکر!
میں اس تلخ حقیقت سے بھی آگاہ ہوں کہ پاکستان کو اس وقت توانائی اور بجلی کے شدید بحران کا سامنا ہے مگر کیا کریں کہ گزشتہ ٧ سال کے دوران ١ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی بھی کوشش نہیں کی گئی۔ ہم نے قلیل المدت اور طویل المیعاد منصوبے شروع کر دیئے ہیں۔ ہم ایک ماہ میں تو شاید یہ اندھیرے دور نہیں کر سکیں گے مگر ایک سال کے اندر اندر پاکستان ایک بار پھر روشن اور درخشاں ہوگا۔ انشاءاللہ

زراعت
میڈیم سپیکر اور ارکان پارلیمنٹ
حکومت کوچند بنیادی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ زرعی شعبے پر بھر پور توجہ دے کر اس قابل بنایا جاسکتا ہے کہ دیہاتوں میں آباد سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد غربت کے چنگل سے نکل سکتے ہیں۔ زرعی بنیاد پر ترقی کا عمل کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کریگا، غذائی اجناس کی قیمتیں کم ہونگی بلکہ اضافی پیداوار کو برآمد بھی کیا جا سکے گا اس لیے زراعت کو اپنی ترجیحات میں اولیت دی جائے تو دیرپا غذائی تحفظ حاصل ہوسکتا ہے۔ روزگار اور آمدنی کے ذرائع میں اضافہ ہونے سے ہمارے لوگ، ہمارے دیہات بلکہ ہمارا پورا ملک ترقی کرے گا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سرکاری سطح پر فصلوں کی انشورنس کا پروگرام بنایا جا رہا ہے۔

خواتین
میڈیم سپیکر!   
خواتین کو انصاف کی فراہمی ممکن بنائے بغیر کوئی ترقی مکمل نہیں ہو سکتی۔ میں انتہائی دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ قوانین کے ہوتے ہوئے بھی خواتین کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اس عظیم قوم کی عورتیں آج بھی جبر اور ظلم کا شکار ہیں۔ میں حکومت کو ہدایت کرتا ہوں کہ خواتین کا تحفظ یقینی بنایا جائے، خواتین کے معاشرتی مقام کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں تاکہ انہیں یہ احساس ہو کہ ان کے حقوق کی پاسداری کی جا رہی ہے اور وہ اس مملکت کی ایک معزز شہری ہیں۔ ہم معاشرتی پسماندگی کو بیک جنبش قلم ختم نہیں کر سکتے لیکن یقیناً بتدریج اسے دُور کرسکتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے پہلی بار یہ فیصلہ کیاگیا ہے کہ سرکار کی طرف سے دی جانے والی کوئی بھی الاٹ منٹ، مالی امداد یا اراضی صرف اور صر ف خواتین کے نام پر دی جائے میری مرحومہ رفیقِ حیات بے نظیر بھٹو شہید عورت کو طاقتور بنانے کے لیے ایسا کرنا چاہتی تھیں سو ہم اس پر عمل کر رہے ہیں یہ اس طویل سفر کا آغاز ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان کی عورت بہت جلد ہمارے برابر کھڑی ہوگی۔ پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لیے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی بھائیو ں کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، لیکن بڑے دُکھ کی بات ہے، کہ انہیں معاشرتی اور سیاسی حوالے سے وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ حقدار ہیں، مگر ہم اس محرومی کو ختم کریں گے اور قومی زندگی میں ان کے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کریں گے ،تاکہ ان کی صلاحتیں ملک وقوم کے کام آسکیں۔

میڈیا
میڈیم سپیکر ارکان پارلیمنٹ
پیپلز پارٹی کی حکومت تشکیل پاتے ہی میڈیا دوستی کا اظہار کیا گیا اور تمام نجی نیٹ ورکس کو نشریاتی آزادی فراہم کی گئی سابق حکومت نے پیمرا اور پرنٹ میڈیا آرڈیننس کی صورت میں جو جابرانہ ڈھانچہ کھڑا کیا تھا ہم نے اسے ختم کردیا اور میڈیا کے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار توڑ ڈالی، جلد ہی بنیادی قانون سازی کی جائےگی جس سے معلومات کے حصول کی آزادی اور خبر رسانی کی فضا حکومتی مداخلت کے بغیر پھل پھول سکے میں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ صحافیوں کو آمدنی میں اضافے کے لیے سہولیات اور کم قیمت رہائشی مکانات فراہم کرنے پر توجہ دے ۔

قانون سازی
میڈیم سپیکر!
اس نئے سیٹ اپ میں پارلیمنٹ ایک خود مختار ادارے کی حیثیت سے اپنا کردار ادا  کر رہی ہے ۔ ٤٤ سال میں پہلی بار دفاعی بجٹ اسمبلی میں بحث کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ مکمل طور پر شفاف احتسابی عمل کی بنیاد اچھے طرز حکومت کے لیے ضروری ہے بدقسمتی سے ہمارے ہاں احتسابی عمل کو سیاسی انتقام دینے کے لیے آلہ کار بنایا گیا مجھے یقین ہے کہ حکومت نے نیب آرڈیننس کو نئی شکل دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ایک نظامِ احتساب متعارف کروایا جائے گا جو وسیع اور شفاف ہوگا اور جو انصاف کے مروجہ اصول و ضوابط اور اقدار کو سامنے رکھ کر بنایا جائے گا۔ نو آبادیاتی دور کے کالے قوانین ایف سی آر کو ختم کر دیا گیا ہے صوبائی زیر انتظام قبائلی علاقوں کی بہتری کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور ایک دوسری کمیٹی نئے قوانین تشکیل دینے کے لیے  بنائی جا چکی ہے۔ میں حکومت سے سفارش کرتا ہوں کہ صوبہ سرحد کا نام وہاں کے عوام کے دیرینہ مطالبے کی روشنی میں تبدیل کر کے پختونخواہ رکھ دیا جائے ۔

خارجہ پالیسی
میڈیم سپیکر ارکان پارلیمنٹ
ہماری خارجہ پالیسی کے چند بنیادی نکات یہ ہیں کہ ہم علاقائی اور عالمی امن کو یقینی بنائیں، سلامتی کے عمل کو آگے بڑھائیں تاکہ ہمارے لوگ معاشی اور معاشرتی ترقی سے فیض یاب ہوسکیں۔ دنیا میں تجارتی جمہوریت فروغ پا رہی ہے ہماری خارجہ پالیسی جہاں ہمارے دفاعی معاملات، علاقائی سلامتی اور خود مختاری کو سامنے رکھ کر ترتیب دی جارہی ہے وہاں اس میں ہمارے معاشی اور معاشرتی مفادات کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ پاکستان جغرافیائی اعتبار سے جنوبی اور وسطی ایشیاء کے لیے توانائی اور تجارت کے مرکز کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔ ایران کے ساتھ ہم اپنے اخوت کے رشتوں کو مضبوط کریں گے جبکہ اپنے دیرینہ دوست عوام جمہوریہ چین کے ساتھ اپنی سٹرٹیجک پارنٹر شپ اور دوستی کو مزید مستحکم کریں گے۔ امریکہ اور اپنے یورپی دوستوں کے ساتھ اشتراک عمل کا جو طویل تعلق قائم ہے اسے باہمی مفادات کی بنیاد پر مزید وسعت دی جائے گی۔ پاکستان فلسطینی بھائیوں کے حق خود اختیاری کی مکمل حمایت کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ ہم سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور لیبیا کے ساتھ خصوصی تعلقات کی قدر کرتے ہیں۔ عرب لیگ، او آئی سی اور آسیان جیسی تنظیموں کے ساتھ تعلقات کو باہمی تجارت  اور سرمایہ کاری  کے فروغ کے لیے بہتر انداز میں آگے بڑھایا جائے گا۔ تمام اسلامی ممالک اور خصوصا عرب ملکوں کے ساتھ ہمارے بہترین تعلقات ہیں ہم ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں دوستیوں کو بڑھاتے رہیں گے اور مضبوط بنائیں گے۔ ہم اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قوانین، اقدار اور انسانیت کے احترام کے عالمی اصولوں کی پیروی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
 
ماخذ
میڈیم سپیکر ارکان پارلیمنٹ
آخرکار پاکستان میں جمہوریت بحال ہوگئی لیکن اس نوخیز جمہوریت کو ایک تناور درخت بننے کے لیے بہت زیادہ نگہداشت کی ضرورت ہے۔ آج بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو اسے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دیئے گئے تصور کے مطابق، جمہوریت اور قومی مفاہمت کے جذبے پر یقین رکھتے ہوئے ہمیں جمہوریت دشمن عناصر پر نظر رکھنا ہوگی اور اسے بچانا ہوگا۔ موجودہ پارلیمنٹ سے پاکستان کے عوام کی بہت سی امیدیں اور توقعات وابستہ ہیں۔ اپنے لوگوں کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے ہمیں چاہیئے کہ ہم اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور کسی تفریق کا شکار نہ ہوں۔ ہمیں تخریب اور مخاصمت کی سیاست کو خیرباد کہنا ہوگا۔ ایک بہتر مستقبل ہمارے لوگوں کا حق ہے ۔جو انہیں ملنا چاہیئے۔ ہمارے لوگوں کو قائد اعظم محمد علی جناح کے اور قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے پاکستان پر یقین ہے اور وہ اُن کا پاکستان ہی دیکھنا چاہتے ہیں وہ پاکستان جس کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی قربان کی۔ وہ پاکستان جس کے لیے ہم زندہ ہیں۔ وہ پاکستان جس کے لیے ہماری جانیں بھی حاضر ہیں۔ ہاں یہی پاکستان ہے جس کے لیے میں آپ کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلاتا ہوں۔ میں جو پھانسی کی کال کوٹھڑی سے نکل کر قصرِِصدارت تک پہنچا ہوں۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ کوئی شے نا ممکن نہیں ہے ۔میں حکومت کے تعاون سے اس ملک پر چھائی ہوئی تاریکیوں کو دور کرنے کا عزم رکھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ روشنی ہمارا مقدر ہے ہم اپنے لوگوں کی محرومیوں کو دور کریں گے اور اپنی ذات سے بالا تر ہو کر ان کی توقعات پر پورا اتریں گے۔  آیئے متحد ہوکر یہ عہد کریں کہ ہم ایک محفوظ، مضبوط اور خوشحال پاکستان کی تعمیر کریں گے۔
اللہ تعالٰی ہمارے نیک مقاصد میں ہمارا حامی و مددگار ہو!
پاکستان کھپے، پاکستان کھپے، پاکستان کھپے، پاکستان پائندہ باد

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب