15 December, 2008

جوتے کا سائز دس تھا!!

اتوار کا دن صدر بش کے لئے بد قسمت ثابت ہوا، عراق کے اچانک دورے کے دوران عراقی وزیراعظم نوری المالکی کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک عراقی صحافی نے اپنے جوتے صدر بش کو دے مارے اور کہا ’کتے، عراقی عوام کی جانب سے الوداع‘ اس کے بعد جواب میں صدر بش نے اپنے ازلی ڈھیٹ پن کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ’میں صرف یہ رپورٹ کر سکتا ہوں کہ اس کا سائز دس تھا۔‘
یہ وہی بات ہوئی جیسے بھٹو صاحب کے ساتھ ہوا تھا، کہا جاتا ہے کہ کسی جلسہ عام میں کسی نے بھٹو کی طرف جوتا پھینکا تھا جواب میں بھٹو نے کہا کہ مجھے پتہ ہے چمڑا بہت مہنگا ہو گیا ہے۔
بہرحال صدر کے لئے یہ الوداعی ملاقات انتہائی بُری ثابت ہوئی، کہا جاتا ہے کہ اچھے انسان کے ساتھ اچھی یادیں اور بُرے انسان کے ساتھ ہمیشہ بُری یادیں وابستہ رہتی ہیں۔ اب صدر بش بھی اپنی باقی ماندہ زندگی انہی بُری یادوں کے سائے میں گزاریں گے۔


وڈیو





6 comments:

طفل نے لکھا ہے

وقت کے نمرود پر بھی جوتوں کی شروعات ہو گئ سبحان اللہ یہ بری یادیں تازندگی بش کا پیچھا نہ چھوڑینگی اور اب وہ اپنی حرکتوں پر جتنا بھی پچھتاوا کرے کم ہے بش نے سوچا ہو گا کہ میں عراق پر اور افغانستان پر حملہ کرکے ایک فاتح کہلاؤنگا اور مرنے کے بعد بھی فاتح عالم کے نام سے جان جاؤنگا مگر بش جی خداء عزّوجل نے ایسی فضیحت کی ہے کہ تم باقی ماندہ زندگی بھی تمہارے لئے ایک عار بن گئ

طفل's last blog post..لذّت گوشت اور شدّت بھوک

12/15/2008 10:49:00 PM
ظفر اقبال نے لکھا ہے

جوتے دو ہی اچھے

جوتے اگر استعمال نہ ہوں تو بھلے کتنے ہی ہوں،کیا ہے؟لیکن اگر استعمال ہو جائیں تو دو بھی بہت ہیں۔
بظاہر ایک غیر مہذب حرکت پر پوری دنیا میںہونے والا ردّ ِ عمل در اصل ایک عالمی ریفرنڈم بھی ہے اور نیا ورلڈ آرڈر بغدادمیں فرعونِ وقت کے آخری دورے پر انہیں دو جوتوں کی سلامی اور کلبِ خبیث کے خطاب کا تحفہ ایک غیرت مند عراقی صحافی منتظر الزیدی نے دیا ہے۔حسینیت کے درس کی اس سے اعلیٰ محفل شاید ہی کبھی سجی ہو۔''غیر مہذب'' منتظر نہ کسی دینی مدرسہ کا طالب علم رہا ہے،نہ القاعدہ اور طالبان کا رکن۔نہ پاکستانی ہے نہ افغانی۔وہ جدید تعلیم حاصل کر کے عراق کے سینئیر ترین صحافیوں میں شمار کیا جانے والا ایک ''ذمّہ دار'' شہری ہے۔غربت،بے روزگاری،نشہ،مذہبی انتہا پسندی وغیرہ کے الزامات بھی اس پر نہیں لگ سکتے۔اس کے ریکارڈ میں کوئی نفسیاتی عدم اعتدال کی رپورٹ بھی نہیں ہے۔
منتظر نے بش کو جوتے نہیں مارے بلکہ ایک عالمی فرضِ کفایہ ادا کیا ہے۔ملتِ مرحوم کا قرض ادا کیا ہے۔بے بس کمزور اور نہتّے غلام انسانوں کی طرف سے دنیا کے سب سے طاقتور،منظم اور عظیم استحصال کے علم بردار ملک امریکہ کو وہ پیغام دیا ہے جو اس سے زیادہ جامع اور موثر انداز میں ممکن نہیں۔صرف ایک ''عمل'' اوراور ایک'' لفظ'' کی شکل میں۔عمل جوتے مارنے کا اور لفظ کتّے کا(کتوں سے معذرت کے ساتھ)۔
دنیا میں پالیسی اسٹڈیز اور اوپینین پولز اور رائے اور رجحان جاننے ، ناپنے او ر تجزیہ کرنے کے تمام تر اداروں اور ان کے طریق ہائے تجزیہ سے زیادہ صحت کے ساتھ اس ریفرنڈم کے نتائج ہیں۔جس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔یہی دنیا بھر کی رائے ہے۔غلاموں کی اس دنیا میں کیا جانے والا یہ عمل صدیوں کا قرض تھا جو منتظر زیدی نے ادا کیا ۔
15دسمبر008ء کی صبح واقعی ایک نئی صبح تھی جب زمین پر بسنے والے انسان اپنے اوپر حیوانوں اور درندوں کے جبر سے پسے اور اپنے ارادوں اور دلوں کی کمزوریوں پر کڑھنے کے بجائے احساس فتح مندی کے ساتھ ایک دوسرے سے ملے ۔ انسانی تاریخ میں آ ج تک ایک ساتھ کبھی انسان اتنی بڑی تعداد میں خوش ہو کر شاید ہی ملے ہوں ۔
جوتو ں نے موجودہ عالمی سیاست میں ویسے بھی اہم کردار اد اکیا ہے ۔ہم تو 100جوتے اور 100پیاز کھانے کی ورزش میں پہلوان ہوگئے ہیں بلکہ رستم زماں کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔جوتے چاٹنے کے بعد اس میں اپنی ہی شکل دیکھ کر ڈرنے میں مہارت حاصل کرلی ہے۔
لیکن جوتوں کا جو استعمال منتظر الزیدی نے کیا ہے یہ تو انسانیت کی معراج ہے جو خودداری اور غیرت کی دین ہے ۔


(ظفر اقبال)

12/16/2008 08:50:00 AM
ڈفر نے لکھا ہے

یہ صرف بش نہیں پوری امریکی قوم کے لئے ذلت کی بات ہے۔ لیکن بش یہ بھی کہہ کر بھی اس پر فخر کر سکتا ہے کہ ”میں نے تو امریکی قوم کے لئے جوتے تک کھائے ہیں“ :D جب بندہ میں نا مانوں کی رٹ لگا لے تو کچھ بھی کہہ سکتا ہے

12/16/2008 03:21:00 PM
عبدلعزيز نے لکھا ہے

اسلام عليكم ورحمت لله وبراكتو بعد بوش جوتى 10 ايك اجه وقت ديا سب خوش همشه اىساجاى

وســـــــــــلام اودوعا


باكســـتان زنداباد

خوش امديد

12/17/2008 07:58:00 PM
آن لائن اخباری رپوٹر نے لکھا ہے

اسے کہتے ہیں اچانک دورے پہ اچانک حملہ! ہاہاہا
منطزر نے تھیک کیا،

آن لائن اخباری رپوٹر's last blog post..Oil pipeline burst in Korangi

12/18/2008 10:25:00 PM
زاہد خان نے لکھا ہے

ظفر اقبال صاحب نے ہمارے قومی رویے کی جو بات کی ہے اس کی ذمہ داری حکمرانوں پر ہے عوام پر نہیں۔عوام سب منتظر جیسے ہیں اور اس کردار کی ادائیگی کے منتطر ہیں

12/22/2008 05:48:00 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب