علمِ معلومِ ِنامعلوم
علم بےعمل عقیم، عمل بےعلم سقیم اور ازدواج علم و عمل منتج بہ نتائج عظیم ہے۔ علم وُہ ہے جو عالم، عاقل اور نیک کردار بنائے۔(۱
علم معلوم کو گھیر لینا ہے، معلوم میں نامعلوم کی تلاش ہی علم ہے۔رواج ہے عِلم کتاب سے حاصل ہوتا ہے۔ دستور زمانہ کچھ اور ہے، حصول علم کا رستہ فکر و تدبر بھی ہے اور مشاہد ہ بھی۔علم دانشمندی سکھا تا ہے۔
ارباب حدیث کا فرمانبردار ہوں تقلید کے منکروں کا سر دفتر ہوں
مقبول روایت آئمہ نہ قیاس
یعنے کہ فقط مطیع پیغمبر ہوں(۲
یعنے کہ فقط مطیع پیغمبر ہوں(۲
کتاب عِلم ہے مگر عمل اُس علَم کاعِلم ہے۔ علم الفاظ کو پڑھ لینے کا نام نہیں، علم عمل اپنا لینا نہیں۔ علم تو بوجھ کو سمجھ لینا ہے مشاہدہ کرنا، پھر نتیجہ اخذ کرنا۔ بحث کرنا نہیں۔ علم کی حقیقت کیا ہے؟ خوف خدا۔
علم کا حصول کیا ہے؟ ہرمزاج والے کا اپنا اپنا حاصل ہے، جس کی جو دِلچسپی ہے وہی اُسکا نتیجہ ہے۔ کہتے ہیں ہر بندہ اپنا اپنا بت خود گھڑتا ہے۔خواجہ دِل محمدصاحب اپنی مشہور منظوم مترجم کتاب دِل کی گیتا کے تعارف میں بت پرستی سے متعلق کچھ یوں ۔تحریر فرماتےہیں
بے سمجھ آدمی صرف میرے (ذات باری تعالیٰ)مظاہر کی پوچا کرتے ہیں۔ کوئی دیوتاﺅں کو پوجتے ہیں کوئی بھوتوں کو۔ لیکن عارف لوگ خاص میری ذات بے نشاں کی عبادت کرتے ہیں جو جس کی پوجا کرے گا اُسی تک پہنچے گا۔ جو میرا بھگت ہوگا مجھ سے واصل ہوگا
منائیں جو پِتروں کو پِتروں تک آئیں جوبھوتوں کو پوجیں وُہ بھوتوں کو پائیں
صنم کے پُجاری صنم سے ملیں ہمارے پرستار ہم سے ملیں
علم سَندکی صورت میں لائسنس بنوانے کا نام نہیں، علم تو علم ہے ،جو نہ تو وراثت سے حاصل ہوتا ہے،نہ اہلیت سے ملتا ہے، تلاش کی جستجو معاون ضرورہوتی ہے، بند راہوں کو کُھلے دریچے فراہم کرنے والی ذات باری تعالیٰ ہی ہے۔ اُسکی عطاءہی اصل سند ہے، ورنہ جامعات اعزازی سند کا درجہ فراہم نہ کرتی۔
جین مت کے مطابق اُنکے جَیون میں پانچ ذرائع سے علم حاصل ہوتا ہے۔ پہلے تین ذرائع نامکمل ہوسکتے ہیں جن میں خامیا ں اور اغلاط ہوتی ہیں۔آخری دو ذرائع علم مکمل ہوتے ہیں مراد وُہ علم سچائی کی طرح پھیلتا ہے بغیر کسی خامی و غلطی کے۔ اِن علمی ہتھیاروں کی وضاحت مندرجہ ذیل ہیں
۔۱ مَتی: متی گنانا وُہ علم ہے جو آپ اپنے ذہن ، اپنی حسوں، یادداشت، ذہانت، تمیز اور پہچان کی صلاحیت اور منطقی وجوہات سے نتائج نکالنے سے حاصل کرتے ہو۔ یہ وُہ چند اشیاءہیں؛ جنھیں آپ اپنے ذہن اور دیگر ذرائع کی مدد سے جانتے ہو۔
۔۲ سروتھی:جب آپ دوسرے ذرائع سے سیکھتے ہو،دوسرے لوگوں یا مخلوقات سے، اپنے مشاہدات یانشانات سے، علامات یا الفاظ۔ اس کو سروتھگنانا یا عِلم سروتھی یا سماعت کہتے ہیں۔ اِس قسم کا ذہنی ربطِ ہم آہنگی(رفاقت)، توجہ، سمجھنے اور اشیاءکے بیشمار معنٰوں کو سمجھنا۔
۔۳ اَوادھی: یہ علم کسی جسمانی ذریعہ سے نہیں ملتا جیسا کہ حِسوں یا ذہن سے، یہ علم الہامی آگاہی سے حاصل ہوتا ہے۔جو وقت اور جگہ کی پابندیوں پر غالب ہے۔یہ آپکی عمومی آگاہی اور فطری صلاحیت کی حدود سے پَرے ہے اور عام طور پر یہ ہر ایک کے لیے میسر نہیں
۔۴ مہا پاریایا: یہ علم دوسروں کے اذہان پڑھ کر حاصل ہوتا ہے ۔ یہ دوسروں کا علم ہوتا ہے جو تم کچھ غیرمعمولی ذریعہ سے حاصل کرتے ہو۔ جیسے ٹیلی پیتھی یا ذہن کا پڑھنا۔
۔۵ کَیوَلا: یہ بلند ترین علم کا درجہ ہے،جب تم اپنی ذات سے بالاتر ہوکر ایک جَینا یا کیولیہ(روح تناسخ سے رہا پانا) بنتے ہو۔ یہ اپنی ذات کا علم ہے۔ جسے کسی بیرونی معنی سے آگاہی کی ضرورت نہیں۔ یہ ہمیشہ ایسے لا تعلق، لامحدود اور بغیر کسی رکاوٹ کے شعور میں روشن جَینا ہے۔ اِس سے دوسروں کے اطمینان کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔
جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں، پہلے دو بالواسطہ عِلم کا ذریعہ ہیں۔ چنانچہ ہم اشیاءکو جاننے کے لئے کچھ بیرونی ذرائع پر دارومدار رکھتے ہیں جبکہ باقی تین براہ راست، جہاں آپ کچھ اشیاءکو جاننے کے لئے بیرونی ذرائع پر دارومدار نہیں رکھتے۔
آج کا انسان انفارمیشن کے دور میں لاتعداد معلومات اکٹھی کررہا ہے مگر نالج(علم) سے محرومی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ کیونکہ دولت کے ابناروں کی طرح معلومات کے ڈھیروں میں جاننا اور جانچنا سکڑتے جارہے ہیں یوں علم محرومی کا شکار۔علم حاصل کرنا ہے کیا؟ وُہ جان کاری جو عملی واقفیت ،شناسائی یا تجربے سے حاصل ہو علم ہے۔
علم سے عقل سے عرفان سے محروم ہیں ہم عشق سے عزم سے ایمان سے محروم ہیں ہم(۳
ایک بادشاہ نے اقلید س سے کہا کہ اُسکو مختصر طور پر علم ہندسہ سکھلا دے تو اقلیدس نے جواب دیا کہ حضور علم ہندسہ کے لئے کوئی خاص شاہی راستہ نہیں ہے جو مختصر طریقے سے طے کیا جا سکے دوسری چیزیں حکومت اور دولت سے حاصل ہوسکتی ہیں لیکن علم محنت، مکمل مطالعہ اور تنہا نشینی سے حاصل ہوتا ہے۔
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو علم حاصل کرنے کا خواہاں ہو وُہ پہلے یہ طے کرے کہ آیا تحصیل علم سے اُسکا مقصد کیا ہے؟ اگر صرف فخر و مبادیات اور نمائش کے لیے پڑھتا ہے تو یاد رہے کہ وُہ اپنا دشمن ہے اور اگر علم سے جہالت کا دور کرنا اور دوسروں کو پہچاننا اور خدائے برتر کی رضاجوئی مقصود ہے اور ظاہری نمائش منظور نہیں تو سبحان اللہ
تعلیم اِک دیوی ہے جس کا سایہ پڑنے پر انسان آدمی بن جاتا ہے۔ جس آدمی میں علم نہیں وُہ آدمی نہیں جانور ہے اور جس گھر میں کوئی علم والا نہیں، وُہ گھر نہیں، جانوروں کا ڈربہ ہے اور جس ملک میں علم کا رواج نہیں وُہ ملک نہیں حیوانات کا جنگل ہے۔(۴
:حوالہ جات
(۱)مخزن اخلاق از مولاناسبحانی
(۲)حکیم مومن خاںمومن
(۳) رئیس امروہی، جنگ کراچی ۶۱ اگست۱۹۸۸ئ
(۴)مخزن اخلاق از مولاناسبحانی
2 comments:
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
4/03/2010 03:45:00 PMبہت خوب، آپ نےعلم کےمتعلق بہت اچھی معلومات تحریرکیں ہیں ۔ اللہ تعالی تحریرمیں اورقوت پیداکرے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال
.-= جاویداقبال´s last blog ..خبــــــــردار – اپــــــــــــــــریـــــــــل فــــــــــــول =-.
سبحان اللہ کیا بات ہے!
4/08/2010 07:59:00 AMعمدہ مضمون ہے اور آخر کی یہ بات خاص ہے!
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو علم حاصل کرنے کا خواہاں ہو وُہ پہلے یہ طے کرے کہ آیا تحصیل علم سے اُسکا مقصد کیا ہے؟ اگر صرف فخر و مبادیات اور نمائش کے لیے پڑھتا ہے تو یاد رہے کہ وُہ اپنا دشمن ہے اور اگر علم سے جہالت کا دور کرنا اور دوسروں کو پہچاننا اور خدائے برتر کی رضاجوئی مقصود ہے اور ظاہری نمائش منظور نہیں تو سبحان اللہ
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔