23 August, 2010

الطاف حسین پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے

3 comments:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے لکھا ہے

محترم یہ رائے میں نے "میرا پاکستان" پہ دی تھی ۔اسے یہاں نقل کر رہا ہوں۔

بات اسقدر سادہ نہیں۔ بلی تھیلے سے باہر آرہی ہے۔ اور بلی کو تھیلے سے نکالنے کے لئیے الطاف حسین کے ھاتھ استعمال ہو رہے ہیں۔

ایم کیو ایم نے کئی سالوں سے اور پاکستان کی نااہل ترین حکومتوں جن میں فوجی ڈکٹیٹر سے لیکر ہر قسم کی نااہل جمہوری حکومتوں کے ساتھ اقتدار کے مزے لُوٹے اور جن وڈیروں ، مخدوموں پہ ایم کیو ایم بظاہر تنقید کرتی نظر آتی ہے۔ انھی کے ساتھ اقتدار کی پینگ میں ہنوز ہلارے لے رہی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا ۔ جب بھی کوئی نئی حکومت وجود میں آتی ہے ۔ ایم کیو ایم کے وفد خیر سگالی کے لئیے اقتدار کے مرکزوں و محوروں کی یاترا شرو ع کر دیتے ہیں اور تان اس بات پہ ٹوٹتی ہے کہ ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں ایم کیو ایم “اِس” حکومت کا بھی حصہ بننے پہ تیار ہے۔ اقتدار کے کیک سے حصہ بقدر جثہ سے بھی زیادہ کے لئیے نائن زیرو سے زیادہ سے زیادہ کے مطالبات سامنے آتے ہیں اور آخر کار کسی نہ کسی صورت میں ایم کیو ایم ماضی قریب کی سبھی حکومتوں میں شامل ہوتی ہے۔ اور یہ سب کچھ لطاف حسین کی آشیر باد سے ممکن ہوتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ پچھلے ایک آدھ ھفتے سے کیا واقعی الطاف حسین کی سیاسی بصریت کی کایا پلٹ گئی ہے کہ پہلے الطاف حسین نے زرداری کو پیرس اور لندن کے دورے سے منع کیا ۔ سیلاب کی ناگہانی آفت پہ کچھ دنوں تک اپنی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کی سیلاب سے نمٹنے میں نااہلی پہ ایم کیو ایم کی طرف سے زبر دست تنقید اور فوراََ بعد ایم کیو ایم کے جنر ورکرز کے اجلاس سے الطاف حسین کے اہم اعلان کی میڈیا میں تشہیر اور اعلان اور اسکے نکات جو ابھی زیر بحث ہیں ۔

ہمیں اُسی دن تشویش ہوئی تھی جب “وڈے شاہ جی” یعنی امریکہ کے پاکستان میں متعین قونصلیٹ نے کچھ دن قبل لندن میں الطاف حسین سے تین گھنٹے سے زائد ملاقات کی تھی ۔پاکستان کی بدقسمتی اور پاکستان کے دشمنوں کی خوقسمتی سے پاکستان اس وقت اپنی تارٰک کے بدترین سیلاب کو بھگت رہا ہے۔ جس سے پاکستان کی دشمن طاقتوں نے پاکستان پہ اپنے دانت تیز کرنا شروع کر دئیے ہیں ۔

پاکستان میں آنے والے سیلابوں کے بارے میں ادنٰی سا ماہر بھی یہ جانتا ہے کہ جو سیلاب پاکستان کے انتہائی شمالی علاقوں کے دریاؤں سے شروع ہوتا ہے وہ سیلاب بالاآخر ہزراوں میل کا سفر کرتا شمال سے جنوب کی طرف بحیرہ عرب میں گرتا ہے ۔ سیلاب کی شدت جسقدر زیادہ ہوگی اسکی تباہی بھی اسقدر ذیادہ ہوگی اور شمال سے بہنے والا سیلاب پاکستان کے سبھی علاقوں کو متاثر کرتا ہوا ۔ اپنے ساتھ ہر شئے کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے۔

سیلاب کی شرعات ہوتے ہی پیپلز پارٹی اور حکمران گھبرا گئے ۔پاکستان کے ایک بڑے سیاستدان نواز شریف اور حکمران یوسف گیلانی نے سیلاب کے اوائل میں ہی سیلاب کی تباہی سے دوچار ہونے والے افراد کی امداد کے لئیے ملنے والے فنڈز غیر حکومتی اور غیر جانبدار افراد کے کمیشن کے ذرئیے دلوائے جانے کے لئیے ایک کمیشن قائم کرنے کا اعلان کر کے پاکستان دشمنوں اور دیگر کو یہ پیغام دیا کہ پاکستانی حکومت اور سیاستدان اسقدر نااہل اور کرپٹ ہیں کہ خود انکے عوام اُن پہ اعتماد کرنے کو تیار نہیں ۔ جو لوگ دنیا میں رائج مختلف حکومتی نظاموں کو سمجھتے ہیں وہ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ اسکے ایک ہی معانی بنتے ہیں کہ ایسی حکومت اور سیاستدان اس قابل نہیں کہ اُن سے معاملات کئیے جائیں ۔ اور جب اس ملک کے عوام ہی حکومت اور اپوزیشن پہ اسقدر مشکل وقت میں اعتماد کرنے کو تیار نہیں اور اسکا اعتراف حکومت اور اپوزیشن خود غیرجانبدار کمیشن قائم کرنے کا علان کر کے کہہ رہے ہیں ۔تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کا وجود ندارد ہے۔اگر اسی اعلان پہ ہی بس ہوتا اور کچھ نیک افراد ڈھونڈ کر اعلان شدہ کمیشن قائم کر لیا جاتا تو عوام کے بے پناہ جذبے سے پاکستان کو زلزے کے دنوں کی طرح ایک نئی قوم مل جاتی اور پاکستان فوری ازالہ ممکنہ حد تک اپنے وسائل سے کر لیتا۔ عوام میدان میں اترتے اور قومی جزبہ پیدا ہوتا۔مگر ہماری بدقسمتی سے یوں ہو نہ سکا

8/24/2010 03:10:00 PM
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے لکھا ہے

پاکستان دشمنوں اور دیگر کی باچھیں کھل اٹھیں۔ پاکستان کے لالچی اور غیرت و حمیت سے عاری سیاستدانوں کو محض امدادی ڈالرز سے غرض ہوتی ہے ۔ اور دسمن طاقتیں ہماری یہ کمزوری خوب جانتی ہیں۔ کہاں تو دنیا بھر کا میڈیا چیخ چیخ کر شمالی علاقہ جات کی تباہی اور خیبر پختونخواہ کی سیلاب کے ہاتھوں بربادی سے آگاہ کر رہا تھا اور دنیا خاموش بیٹھی تھی۔ پاکستانی حکومت گھبرائی ہوئی اور عوام پریشان تھے ۔ مذکوری کمیشن کے اعلان کے ساتھ ہی وہ قوتیں حرکت میں آگئیں جو کسی صورت بھی پاکستان کی ملی یکجہتی نہیں چاہتیں ۔ ہر طرٖ سے آنا فانا امداد کے اعلان ہونے لگے ۔ بانکی موں پاکستان آئے۔ امریکہ نے اپن ایلچی بیجھے۔ اقوامِ متحدہ سے اپیل پہ اپیل جاری ہونے لگی ۔ اقوام متحدہ نے جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلوایا ۔ امریکہ اس سارے معاملے میں پیش پیش تھا ۔ ساون کے اندھے کو ہر طرف ہری ہری سوجھی۔ جاگتی آنکھوں سے ڈالروں کے بنڈل ہی بنڈل۔ نوٹوں کی بوریا ہی بوریاں نظر آنے لگیں۔نواز شریف کے ساتھ ایک دفع پھر ہاتھ ہو گیا۔ وعدوں کی پاسبانی نہ کرنے والوں اور وعدوں کو قرآن و حدیث نہ سمجھنے والوں نے اپنی دانست میں ساد لوح نواز شریف کو ایک بار پھر دہوکہ دے ڈالا ۔ جبکہ یہ دہوکا وہ پاکستان کی عوام کے ساتھ ساتھ اپنی حکومت کے ساتھ بھی کررہے تھے۔ ہمارے سیاستدان آئندہ پیش آنے والے حالات کا ادراک نہ کر پائے۔ مذکورہ کمیشن کے ممکنہ قیام کے بعد جن محب وطن قوتوں اور عوام نے امیدیں وابستی کر لیں وہ آن واحد میں ڈالروں کی چکا چوند کی نظر ہوگئیں۔

ہماری حکومت ۔ اسکی وزارتیں ۔ منصب دار ہر کوئی اس امدا و خیرات کو اپنی حکومت کی معرکہ مارنے کی مثال بنانے میں پیش پیش ہے ، خیرات پہ مبارک سلامت کا وہ شور و غلغلہ ہنوز جاری ہے جس کے پیچھے اس سارے فسانے کے مرکزی کردار سیلاب کے ہاتھوں اجڑے متاثرین اوجھل ہو کر رہ گئے ہیں۔وہ جو کل تک آئیندہ فصل کے آنے تک اپنے لئیے وافر اناج اور مقدور بھر سہولت سے اپنے اپنے گھروں میں رہ رہے تھے۔ انمیں سے اکثر کو رات مساجد میں سیلاب کی ناگہانی آمد کے اعلانات نے آن واحد میں اس جگہ پہ لاکھڑا کیا کہ آج اچھی خاصی سوجھ بوجھ والا پاکستانی بھی انھیں خیرات اور زکوٰاۃ دینا چاہ رہا ہے۔ جبکہ حق یہ ہے کہ وہ مانگت نہیں ۔ بھیک مانگنے والے نہیں ۔ بلکہ پچھلی کئی دہائیوں سے اس ملک کے لئیے اناج اگا کر دینے والے لوگ ہیں۔پاکستانی وفاقی صوبائی حکومتوں کی نااہلی نے انھیں اس مقام پہ لاکھڑا کیا ہے کہ وہ بھوک سے سے بلکتے بچوں، ایک ہی کپڑوں کے جوڑے میں پچھلے دو ہفتوں سے ملبوس اپنی بھوکی خواتین اور بے پردگی کا شکار مستورات کے لئیے ہر کسے ناکس کے سامنے ہاتھ پھیلانے پہ مجبور ہیں۔

پاکستان کا نیا نویلا میڈیا اپنی عدات سے مجبور ہر واقعے کو انتہائی سنسی خیز اور بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ اسمیں کوئی شک نہین سیلاب نے دوہزار پانچ کے زلزلے کی تباہی کو بھی مات کر دیا ہے اور ہر طرف تباہی مچا رکھی ہے۔ مگر اس ساری تصویر کشی نے پاکستان مخالف عالمی طاقتوں اور پاکستان کے اندر طالع آزما اور بکاؤ لوگوں کے من میں پاکستان کے اندر اقتدار کی تبدیلی سے اقتدار کے سنگھاسن کے خواب دیکھنے شروع کر دئیے ہیں۔

اس بات میں کسی ذی ہوش کو شک نہیں کہ امریکہ دھیرے دھیرے پاکستان کے گرد اپنا شکنجا کستا جارہا ہے اور ہماری موجودہ حکومت اور سیاستدانوں کی سیلاب جیسے ناگہانی آفت سے نمٹنے میں ناکامی اور نااہلی نے امریکہ کو نادر موقع مہیا کیا ہے۔ پاکستان کی شکست و ریخت سے کسی اور کا فائدہ ہو نہ ہو مگر اُن طاقتوں کو اس مین اپنا مفاد نظر آتا ہے جو پاکستان کے در پے ہیں۔

سندھ کے وزیر اعلٰی سندھ کے متاثرین کو بغیر کسی معقول وجہ کے اقدر دور کراچی اور حیدرآباد میں بغیر کسی پلاننگ کے بسانے پہ بضد ہیں ۔ جس سے کراچی کی مخدوش امن عامہ کی صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ جس کے پس پردہ شہری پراپرٹی اور قیمتی زمینوں اور پلاٹوں پہ قبضہ کرنے کے قصے بھی بیان کئیے جارہے ہیں۔ ایم کیو ایم کو آئیندہ کے مبینہ خطرات کا بھوت اپنے سر پہ نظر آرہا ہے۔ اور ان دیکھی طاقت حکومت کو سیلاب کے متاثرین کی مدد سے غفلت برتنے سے لیکر علاقائی اور لسانی جماعتوں تک ہر ایک کردار کو میدان میں لے آئی ہے۔کچھ کرداروں کو یہ اندیکھی قوتیں انکی بقا کے اندیشہ ہائے دوردراز کے ڈرواے دے کر کچھ کو ڈالزز کی چکا چوند ۔ کئی ایک کو زمینوں کے قبضوں کے کواب دکھلا کر۔ کوئی وقت جاتا ہے دکھم پیل کا آغاز ہونے والا ہے

8/24/2010 03:14:00 PM
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے لکھا ہے

اس گھناؤنے منظر کشی کی ابتداء الطاف حسین کو ” مخصوص یقین دہانیوں” کے بعد الطاف حسین کے بیان کے ہاتھوں کروا دی گئی ہے ۔ آنے والے دنوں میں بہت سے کردار اس سلسلسے کو آگے بڑھائیں گے۔ بھانت بھات کی بولی بولنے والے بڑھ بڑھ کر بولی دیں گے۔ اسمیں خود پیپلز پارٹی کا بکاؤ مال بھی شامل ہوگا ۔تبدیلی اور انقلاب کی باتیں کرنے والے ایسی دل کو موہ لینے والی تصویر کشی کریں گے کہ اچھے خاصے عقلِ سلیم کے مالک لوگ اس کورس میں شامل ہوجائیں گے ۔ کچھ کی کمزوریاں امریکہ کے پاس ہیں ۔ کچھ کو لالچ دیا جائے گا۔ کچھ کو بلیک میل کیا جائے گا۔

اس سیلاب کے کچھ روز بعد ہی ہم نے پشین گوئی کی تھی کہ اس سیلاب میں کوئی اور بہے یا نہ بہے اس سیلاب میں زراداری اور پیپلز پارٹی کی انتخابی سیاست البتہ ضرورہ بہہ جائے گی۔

میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان ملٹری یا آرمی کو پاکستان کے موجودہ حالات میں امریکہ آسانی سے ٹریپ کر سکے۔ نیا سیٹ اپ موجودہ حکومت کی روانگی اور کسی ایسی نئی حکومت کا قیام ہو سکتا ہے جسے “قومی” قرار دیا جاسکے اور پاکستان آرمی کو اسکی پشت پناہی کے لئیے تیار کیا جائے۔ یا پھر پاکستان کی بدقسمتی سے فوج مکمل مارشل لا ء کے نفاذ سے موجودہ حکومت کو فارغ کر دے، یہ دونوں صورتیں پاکستان کے موجودہ حالات میں پاکستان کے لئیے خطرناک ثابت ہونگی۔

اگر پاکستان میں مارشل لاء آتا ہے تو خدا نخواستہ بلوچستان ملک سے الگ کر دیا جائے گا۔ اور جن خود کش دہماکوں سے قوم دہشتناک ہے یہ دہماکے پاکستان کے گلی کوچوں میں عام ہو جائیں گے ۔ آنے والے حالات میں موجودہ حالات کو یاد کر کے لوگ آہیں بھریں گے۔امن عامہ مخدوش ہوجائے گا۔ پاکستان کے بیشتر علاقے پاکستانی حکومت کی عملداری سے عملا آزاد ہوجائیں گے۔

پاکستانی سیاستدانوں کو چاہئیے کہ ہوش کے ناخن لیں۔ الطاف حسین کے بیان کو سنجیدہ لیں۔ سیلاب اور سیلاب کے بعد آنے والے مہنگائی کے ہوشرباء عذاب سے جو پاکستان کے اُن علاقوں میں بھی آئے گا جہاں سیلاب کا عذاب ابھی نہیں پہنچا ۔ مہنگائی کا آئیندہ عذاب موجودہ سیلاب سے بھی سوا ھوگا۔ اس سیلاب اور آنے والے وقت کے لئیے بہتر منصوبہ بندی کریں ۔ ایک دوسرے پہ اعتماد کریں ۔ تانکہ عوام کا اعتماد بحال ہو ۔ وہ دل کھول کر سیلاب ذدگان کی مدد اور بحالی میں فنڈ جمع کروائیں۔ اور گُڈ گورنس سے پاکستانی عوام کا معیار زندگی بلند کریں۔

میڈیا بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور لوگوں کو تبدیلی اور انقلاب کے خوآب دکھانے کی بجائے قومی ذمہ داری کی تلقین اور تاثر ابھارے ۔

ورنہ آنے والا وقت کراچی سے لیکر شمالی علاقہ جات تک بہت سخت ہوگا جس سے پاکستان کے سبھی شہری خواہ انکی رنگت و نسل اور زبان کوئی بھی ہو سبھی متاثر ہونگے۔ آگ جب پھیلتی ہے تو وہ دوست و دشمن کی تمیز نہیں کرتی۔

خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔ آمین

8/24/2010 03:16:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب