معجزہ یا انقلاب
چیزوں سے خوف یا خوش ہونے کے لئے ان کا شعور بہت ضروری ہے۔ بالغ شخص کتنا ہی بہادر کیوں نہ ہو سانپ کو دیکھ کر اسے گلے کا ہار نہیں بنانا چاہے گا جبکہ بچہ اسکی چمک دمک دیکھ کر اس کی طرف لپکے گا بلکہ اس کے ساتھ کھیلنا بھی چاہے گا۔لوگوں کی اکثریت بھی بچوں کی طرح ہوتی ہے۔ لوگ ہر چمکتی چیز کو سونا اور ہر ڈرامے کو حقیقت سمجھ کر بچوں کی طرح کھل اٹھتے ہیں، تالیاں بجانے لگتے ہیں اور بعدازاں یہی تالیاں دو ہتڑوں میں بدل جاتی ہیں۔ تالیاں پیٹنے والے ہاتھ سینہ پیٹتے دکھائی دیتے ہیں۔
یحیی خان کا دور یاد کیجیئے۔ جب یحیی خان بڑھکیں مار رہا تھا، وہ “بیرل آف دی گن“ کے ذریعہ بنگالی باغیوں کے درمیان سے رستہ بنانے کے دعوے کر رہا تھا، ٹکا خان کا ٹوکہ چلنے کی خبریں آ رہی تھیں۔ ٹی وی پر ملی نغمے اور ترانے بجائے جا رہے تھے۔ ریڈیو پاکستان دن رات جھوٹ بول رہا تھا۔ اخبارات منحوس باتیں لکھنے سے احتراز کر رہے تھے تو لوگوں کی اکثریت مقتدر اور منافق مافیا کے تیار کردہ سبز باغوں میں چہل قدمی کر رہی تھی ۔ عوام پکنک منا رہے تھے کہ اچانک پردہ اٹھا، بم پھٹا، دھماکہ ہوا، خبر آئی کہ ۔۔۔۔۔پاکستان ٹوٹ گیا، بنگلہ دیش بن چکا ٹائیگر نیازی بھیڑ ثابت ہوا، ہمارے نوے ہزار جنگی قیدی ہندوستان کی قید میں چلے گئے اور اندرا گاندھی جیسی چھیٹکی ڈنکے کی چوٹ پر دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کرنے اور ہزار سالہ ہزیمت کا انتقام لینے کا اعلان کر رہی ہے۔ تب گھر گھر صف ماتم بچھ گئی تھی لوگ چیخ اٹھے تھے، آنکھیں آنسوؤں سے لبریز، زبانیں گنگ، گردنیں شرم و ندامت سے جھکی ہوئی تھیں۔
پوری قوم سکتے اور کومے کی حالت میں تھی۔
پھر کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں، کوئی سبق نہیں حاصل کیا گیا، حالانکہ اتنے خوفناک اجتماعی حادثے کے بعد قائدین اور قوم کو بالغ ہو جانا چاہیے تھا لیکن نہیں ۔۔۔۔۔۔ آدھا ملک چلا گیا، ہمارا بچپنا نہیں گیا۔ بدترین شکست مقدر ٹھہری لیکن قوم نے تفکر اور تدبر کا دامن نہ پکڑا۔
ضیاء الحق سائیکل پر سوار ہو کر دفتر گیا تو قوم اس “سادگی“ پر مر اٹھی اور سمجھی کہ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہونے کو ہے۔
رشوت لینے پر ایک غریب حوالدار کو ٹکٹکی سے باندھ کر کوڑے مارے گئے تو کوڑھ مغزوں نے سمجھا کرپشن کا خاتمہ ہو گیا۔
نوازشریف نے پنجاب کے بجٹ میں خسارہ متعارف کرایا تو ساتھ ہی نعرہ لگایا ۔۔۔ “جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ“
بے نظیر بھٹو نے احمقانہ زنانہ تھانہ بنایا تو بہت سوں نے سمجھا “دختر مشرق“ نے دخترانِ پاکستان کے تحفظ کا بندوبست کر دیا۔
سب علامتی سے باتیں ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قائدین ڈرامے لگانے کے اور ہم سب انہیں دیکھنے اور اس وقت تک داد دینے کے عادی ہیں جب تک “ڈراپ سین“ نہ ہو جائے۔
آج ایک بار پھر ملک جس مرحلے سے گزر رہا ہے ۔۔۔۔۔ سوچ کر ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ اور لکھنے والے بھی پورا سچ بولنے سے گریزاں ہیں ان حالات میں میں بھی صرف ایک جملے پر اکتفا کر رہا ہوں کہ “موجودہ حکومت کی کوکھ میں معجزہ ہے یا انقلاب“
6 comments:
اچھے خیالالت ہیں
8/25/2010 05:17:00 PMيہی کہا جاسکتا کہ روم کی طرح پاکستان جل رہا ہے اور نيرو کی طرح آصف زرداری بانسری بجا رہا ہے
8/25/2010 06:15:00 PMکیونکہ ہماری یاداشت کمزور ہے
8/25/2010 06:21:00 PM--------------------------------------------
میرا ایمان ہے کہ انقالاب آئے گا لیکن اس میں ایک اور لگے گا، لیکن ہمیں بے ہنگم اور لاحاصل انقلاب نہیں سیرات مستقیم اور مزل چاہئے جس کے لئے ایک جانثار ، اسلام پرست اورمخلص جماعت اور قیادت کی ضرورت ہے۔
--------------------------------------------
ویسے آپ نے مشرف کے عہد زریں کا زکر نہیں کیا
السلام علیکم! آج پہلی مرتبہ آپکے ہاں آنا ہوا۔ اچھا لگا۔ خاص طور پر اپنے بلاگ والا تھیم دیکھ کر۔
8/25/2010 07:46:00 PMماشاءاللہ اچھا لکھا ہے آپنے۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ دعا ہے کہ اب یہ بچے بالغ ہو جائیں لیکن لگتا نہیں ہے:(
کچھ علاج اس کا بھی اے چارا گراں ہے کہ نہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟
8/25/2010 10:47:00 PMمردوں والی بات
اسد علی | 2010-08-25 ، 5:22
کئی برس پہلے کراچی میں میں پاکستان سٹیل کیڈٹ کالج کے اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ سینما میں ایک پنجابی فلم دیکھنے گیا۔ فلم میں ایک جگہ ایک اہم خاندان اپنے ایک فرد کے قتل کا بدلہ لینےکی حکمت عملی پر غور کر رہا تھا۔
اس منظر میں زمین پر بیٹھا ہوا ایک کمزور سا شخص اٹھ کر باریک آواز میں پولیس کے پاس رپورٹ درج کروانے کا مشورہ دیتا ہے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ چوہدری صاحب کا بھاری جسم غصے سے کانپ جاتا ہے اور وہ چارپائی سے اٹھ کر اپنی گرجدار آواز میں زمین و آسمان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ دشمنوں کے پرچے کٹوانا ان کی برادری کی ریت نہیں۔ سینما ہال اس برادری کو لوگوں کی تالیوں سےگونج اٹھتا ہے۔
اب تشدد فلموں نے معاشرے کو دیا یا فلمیں معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں یہ الگ بحث ہے لیکن حقیقت یہ ہےکہ شہر ہو یا دیہات تشدد کی صلاحیت رکھنا اور کرنا پاکستان کی ایک بڑی اکثریت کی نظر میں فخر کی بات ہے۔
کافی دیر بعد لاہور میں رپورٹنگ شروع کی تو ابتدائی چند روز میں ضلع کچہری میں ایک روز موقع دیکھ کر قتل کے ایک مقدمے کے ملزم سے گپ شپ لگائی۔ وہ کچہری میں پیشی کے لیے خاص طور پر تیار ہو کر آئے تھے۔ بوسکی کی قمیض اور سفید شلوار میں ملبوس وہ نوجوان ہلکے ہلکے کش لگا رہا تھا۔
ان کے خاندان کے مرد و خواتین دسترخوان بچھائے بیٹھے تھے اور خوش گپیاں چل رہی تھیں۔ وہ ان کی رہائی کا دن بھی نہیں تھا بلکہ ابتدائی پیشی تھی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ اس نوجوان لڑکے کے ساتھ آئے ایک شخص نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ 'مردوں' کو پھر یہ سب کچھ تو دیکھنا پڑتا ہے۔
سیشن کورٹ لاہور میں ایک بار ایف آئی اے والوں نے کسی کو ضمانت مسترد ہونے پر عدالت سے باہر گرفتار کرنے کی کوشش کی تو جھگڑا ہو گیا۔ ایف آئی اے کے اہلکاروں کو مارنے میں وہاں سے گزرتے ہوئے ہر دوسرے وکیل نے حصہ لیا۔ معاملہ سیشن جج کی عدالت تک پہنچا جہاں کارروائی کے دوران بھی اہلکاروں کی مار پیٹ جاری رہی۔
اتنے میں ایک سینیئر وکیل صاحب بھی وہاں پہنچ گئے جو بعد میں اہم عہدوں پر منتخب بھی ہوئے۔انہوں نے سوالیہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھا تو کسی جونیئر وکیل نے کہا کہ ان اہلکاروں نے وکیل صاحب سے بدتمیزی کی ہے۔ 'وکیل صاحب سے بدتمیزی، تو پھر یہ ابھی تک زندہ کیوں ہیں' ان کا برجستہ جواب تھا۔
لاہور میں سکول کے زمانے میں گھر کے پاس سٹور سے کچھ خریدنے گیا تو وہاں ایک صاحب دکان والے ان 'گیموں' کے بارے میں بتا رہے تھے جو وہ کرتے رہے ہیں۔ 'گیموں' سے مراد وہ تشدد کے وہ طریقے تھے جو انہوں نے مختلف موقعوں پر اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیے۔
المختصر یہ کہ اس طرح کے کئی آنکھوں دیکھے اور سنےہوئے واقعات یاد کر کے سیالکوٹ کا واقعہ اپنی تمام تر سفاکی کے باوجود انتہائی غیر متوقع نہیں لگتا۔ ہم میں سے ہر ایک نے ہمیشہ سے خاندانی دشمنیوں کے قصے سنے ہوں گے جن میں دشمنوں کی لاشوں پر بھنگڑے ڈالے گئے، لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دریاؤں میں بہا دیے گئے، ٹکڑے زمین میں دبا دیے گئے، عورتوں کو بازاروں میں ننگا گھمایا گیا وغیر وغیرہ۔
یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سیالکوٹ والا واقعہ بھی کئی لوگوں کے لیے زیادہ پریشان کن نہیں ہوگا۔ وہ اس پر افسوس کا اظہار تو کریں گے لیکن ساتھ اضافہ بھی کر دیں گے کہ ذات برادری کے جھگڑوں میں اور مردوں کی لڑائی میں یہ سب کچھ ہو جاتا ہے۔ اس لیے آئندہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے اس واقعے کے ملزمان کو سزا کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر بگاڑ کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
موجودہ حکومت اور بوٹوں کی دہمک والوں سے۔ ان دونوں سے نہ کسی معجزہے اور نہ انقلاب کی امید رکھی جاسکتی ہۓ۔
8/26/2010 10:09:00 AMکسی نظام میں بہتری کے لئیے اصلاحات اوپر سے نیچے منتقل ہوتی ہیں۔ جن کا دورانیہ اور عمل سست ہوتا ہے مگر اثر رکھتی ہیں اور نقصان کم ہوتا ہے۔ ایسی اصلاحات نہ موجودہ حکومت ، اور بوٹوں کی دھمک سنانے والے کرسکتے ہیں۔ جسے ایک دن ہم معجزہ کہہ سکیں وہ عنصر اوپر موجود ہی نہیں۔
اب انقلاب کی طرف آتے ہیں ۔ انقلاب نیچے سے اوپر اٹھتا ہے۔ انقلاب جو پہاڑی دریا کی طرح نہائت تند خو اور تیز ہوتا ہے ۔ جس کی لپیٹ میں آنی والی ہر شئے خس و خاشاک کے طور بہہ جاتی ہے۔ انقلابات سے بعض اوقات فوائد کی بجائے ناقابلِ تلافی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کے بنیادی کردار عام شہری ہوتے ہیں۔ اور یہ بنیادی کردار پاکستان میں بہت کمزور ، ان پڑھ، اور انتہائی غربت سے اسقدر پسا ہوا ہے کہ وہ اسلام آباد اور دیگر تخت شاہیوں کا گھیراؤ کرنے کے لئیے اسلام آباد جانے کے لئیے بس کے کرائے تک سے محروم ہے۔ جبکہ انقلاب کے اس بنیادی کردار یعنی شہریوں کی رہنمائی کے لئیے ایک یا ایک سے بڑھ کر انتہا پسندی کی حد تک اپنے کاز سے محبت کرنے والے رہنماؤں کی ضرورت پڑتی ۔ جن کا فرمایا پوری قوم کے شہری حُکم اور قانون سمجھتے ہیں اور اُس پہ جان و دل سے عمل کرتے ہیں ۔ اور مجھے کہنے کی اجازت دی جائے کہ پاکستان میں دور دور تک ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی جو شہریوں کے سیل رواں کی مناسب رہنمائی کر سکے ۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ انقلابات اپنے رہنماء خود پیدا کر لیتے ہیں ۔ مگر وہ کسی طور عام آدمی سے نمایاں اور اپنے کاز سے انتہائی دیانتدار ہوتے ہیں ۔اور کسی مصحلت کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ جبکہ پاکستان میں ہر قسم کے رہنماؤں کی اٹھان بے غیرتی کی حدوں کو چھوتی مصلحت کی انگلی پکڑ کر ہوتی ہے۔ جہاں تک مذھبی جماعتوں کا ذکر ہے ۔ انکے خلاف اسلام دشمن طاقتوں اور اپنے اقتدار کے لئیے مزھبی جماعتوں کو خطرہ سمجھنے والوں نے مذھبی جماعتوں پہ اسقدر پروپگنڈہ نے اور کچھ انکی سیاسی کوتاہ بینی نے انھیں اسقدر متنازعہ بنا دیا ہے کہ عوام انکے ساتھ چلنے کو تیار نہیں۔ اسلئیے پاکستان میں فوری انقلاب کی امید بھی نہیں باندھی جاسکتی۔
مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر بیٹھے رہنا چاہئیے۔ ایسے میں سارا بوجھ پاکستان کے پڑھے لکھے لوگوں پہ منتقل ہوتا ہے کہ جسطرح پاکستان کے بنتے وقت نوے فیصد سے زائد ناخواندہ مسلمانوں کو پاکستان کے حصول کے لئیے میں پڑھے لکھے لوگوں نے پاکستان کے بارے میں بتایا اور پاکستان جیسی منزل پالی۔ آج حالات اُس دور سے بھی زیادہ نازک ہیں۔ سیلابی آفت میں ملکی اداروں ، پاکستانی حکومت، سیاستدانوں اور وڈیروں جاگیر داروں کی مفاد پرستی اور نااہلی سے ملک و قوم کے خیرخواہ لوگوں کو چاہئیے کہ وہ عوام کو اس بارے آگاہ کریں۔ سیلاب میں بہت حد تک پاکستانی متعفن نظام بہہ گیا ہے۔ بہہ رہا ہے۔ رہی سہی کسر سیلاب کے بعد کی مہنگائی اور حکمران طبقے کی بندر بانٹ ۔ اور وڈیروں کی چھوٹے کسانوں کی ہر شئے ارزاں نرخوں پہ خرید لینے کی خواہش۔ سیلاب ذدگان کی ریلیف میں حکومتی ناکامی وغیرہ وہ امر ہیں جن سے بجا طور پہ بجاطور پہ مایوس عوام کو پاکستان کا پڑھا لکھا اور باشعور طبقہ یہ باور کراسکتا ہے کہ انکی تقدیر اس وقت تک نہیں بدلے گی جب تک وہ اپنی قسمت بدلنے کا اختیار لٹیروں ، چوروں ، وڈیروں ، کرپٹ اور بودے حکمرانوں کی بجائے اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے۔پھر شاید چند سالوں تک اس ملک اور قوم کی تقدیر بدلنا شروع ہو۔
عوام کو منظم کرنا اور انھیں اہداف حاصل کرنے کے لئیے وسائل مہیاء کرنا پاکستان کے بہی خواہ پڑھے لکھے کی ذمہ داری بنتی ہے۔
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔