02 September, 2010

گمنام رنگ

نگاہ میں خیال تو ہے، مگر منظر کے احساس سے محروم
آمد میں کمال تو ہے، مگر جمال پرواز کے تجسس سے مقدوم

گمنام رنگ دُنیا میں ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ بیشمار نامور رنگ بھی ماضی کے دھندلکوں سے جھلکتے ہوئے؛ انسان کی بے اعتنائی کا شکار! حسن کے شاہکار، ایثار کے پیکر، شجاعت کے کردار، عزم کے مینار رفتہ رفتہ منہدم ہو کر معدوم ہو چلے۔ انسان اپنی وراثت اور ثقافت کو محفوظ رکھنے سے معذور۔ اپنی ہی مٹی سے رشتہ ٹوٹ رہا ہے۔

آج مجھے حقیقی رنگوں کی تلاش ہے،ایاز اور ایبک تو لاہور میں مدفون ہیں۔ غزنوی اور غوری کی آرام گاہوں سے ہم ہی واقف نہیں! شاندارتواریخ رکھنے والے نام آج گمنام اور ادنیٰ غلام وجود کی پہچان میں!پُرانے تاریخی و ثقافتی شہروں کی دیواروں کو ازسر نو تعمیر و مرمت کرنے کا خیال تو اذہان میں آتا ہے، کیادیوارکے اندر کی اصل ثقافت ہی ان دیواروںکا اصل رنگ ہے؟ دیواریں اصل زبان سے محروم، تکیوں(دانش گاہوں) کے دَور سے دُور،پکوان اور اُس کے ذائقہ شناسوں کی محتاجی،علاقائی موسمی مشروب اب ہتک جانے لگے۔پرانے شہر کی صرف دیواریں تعمیر ہونگی، ثقافت لوٹ کر نہ آئے گی۔ ثقافت گمنام لوگوں کے گمنام رنگ ہی پیدا کرتے ہیں۔ تاریخ میں ثقافت ہی گمنام کوٹھڑی کی قیدی رہی۔

ثقافت میں سب سے اہم نمائندہ عنصر تہذیبی رویہ ہوتا ہے۔ لوگ تہذیبوں کاٹکراﺅ پڑھ کراپنی تہذیب برباد ہوتا دیکھتے ہیں۔ تہذیبیں ایک طویل تسلسل اور تنوع کی وسعت کو اپنے اندر سموتے ہوئے نمو پاتی ہیں۔ جس میں افعال اورکارکردگی کے نقوش روایات کا سلسلہ تھامے رکھتے ہیں۔ یہ روایات نسل در نسل منتقل ہو کر انسان کو اُسکی اصل بنیاد سے جوڑے رکھتی ہیں ۔ وقت کے تناسب سے نظام بہتر سے بہترین ہوتا ہے مگر بنیاد قائم رہتی ہے۔

تہذیب کامطالعہ دو پہلوﺅں سے ہوتا ہے۔ تعمیرات کا علم تمدن کاجائزہ لیتا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ ایک فرد سے دوسرے فرد کا مطالعہ وَ موازنہ کر کے تہذیب کی جانب منتقل ہوا جاتا ہے ۔تعمیرات کا انحصار تین عملی احوال: (۱)وجود کی بقا،(۲) موسم اور(۳) مواد پرہوتا ہیں۔کسی بھی عمارت کی تعمیر ہمیشہ دو اُصولوں پرمنحصر رہی؛ منصوبہ بندی اور خاکہ بندی۔اس کے بھی تین درجے رکھے گئے۔اوّل؛ زیر استعمال زمین کا جغرافیائی حالا ت کے تحت جائزہ لینا، دوم؛ عمارتی تعمیر کی منصوبہ سازی کرنا، سوم؛ ڈھانچہ تیار کرنا۔

 تمدن میںعمارات تین اقسام کی ہوسکتی ہیں۔رہائشی تعمیرات، طرز معاشرت کی بنیاد ہیں جو رہن سہن کے انداز واضح کرتی ہیں۔ مذہبی عمارات، عقائدپر روشنی ڈالتی ہیں۔ تیسرا اندازیادگاری عمارات،جو جاہ و جلال کا نمائندہ ہوتا ہے۔اس میںیادگاریں اُن مذہبی، تہذیبی، تمدنی، معاشرتی اور جغرافیائی جڑاﺅکی عکاسی کرتی ہیں۔ جوعلاقائی سلطنتوں اور بیرونی حملہ آوروں کے مابین ٹکراﺅ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اُس دور کی عمارات پر نقش و نگارہی اہم اثرات کے ترجمان ہوتے ہیں۔جن سے تعمیراتی نظریات اور معاشرتی تعلقات کی غمازی ہوتی ہے۔

تہذیب کے مطالعہ میں دوسرا اہم پہلو زبان ہے۔جو ثقافت کی غماز اور طرز بودوباش کی عکاس ہوتی ہے۔ انسانی احساسات کی نمائندگی الفاظ ہی پیش کرتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر سلیم اختر”ادب خلا میں جنم نہیں لیتا اور نہ ہی ادیب ہوا بند ڈبوں میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کا عصری تقاضوں سے مثبت یا منفی اثرات قبول کرنا لازم ہے کہ یہ اثرات سانس کی مانند اس کے تخلیقی وجود کے لیے ضروری ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے عہد میں ادب برائے ادب یا ادب برائے زندگی کے مباحث تھے یا نہیں، یا یہ کہ وہ شعوری طور پر کس تصور ادب کا حامی رہا، اس لیے کہ ادب برائے زندگی کے تصور کو مسترد کرنا بھی تو کسی تصور ہی کا مرہون منت ہوتا ہے“۔

موسم جغرافیہ کا ایک جزو ہے،ہر ملک یا خطے کا اپنا جغرافیائی حسن ہے جو اس کے باسیوں کے اعصاب کو بعض مخصوص حسیات سے مشروط کر دیتا ہے۔ایسے ہی برصغیر میں موسم کی مناسبت سے مشروبات اپنے اندر حکمت رکھے ہوئے ہیں۔ مہینوں کی ترتیب بھی موسم سے تھی۔ بہار کے دو مہینوں (چیت اور بیساکھ)کا مشروب کانجی ٹھہرا۔ شدت گرمی کے اگلے دو ماہ (جیٹھ اورھاڑ)کے مشروب سَتو رہا ۔برسات (ساون اور بھادوں)کے نازک حبس زدہ موسم میں نمکین سکنج بین تھی۔ لسی کو برسات کے علاوہ تمام سال مناسب خیال کیا جاتا تھا۔ خزاں (اسو اور کتے)کے موسم میں کسی بھی مشروب سے متعلق احتیاط برتی جاتی تھی۔سردی(مگھر، پوھ ،ماگھ اور پھاگن) میں مشروب کی بجائے خشک میوہ جات کا استعمال رہا ۔

تہواروں کا تعلق بھی موسموں سے منسلک تھا۔ حتی کہ ملکی انتظام کے معاملات بھی موسموں اور تہواروں سے جڑے تھے۔ ربیع اور خریف کی فصل کا ایک موسم تھا۔اگر فصل کے لہلہانے پر بسنت کا تہوار خوشی میں رکھا گیاتو ایسے ہی مالیہ کی وصولی (زرعی ٹیکس)کا آغاز ’ہولی‘ اور’ دَسَہرا‘ کے تہوارسے ہوتا تھا۔

 پانی کے استعمال میں ایک حکمت ہے۔ موسم کا جیسا درجہ حرارت ہو ، ویسا پانی پیا جائے۔ بہت ٹھنڈا پانی انسانی اعصاب پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ خاصیت گھڑے میں ہیں کہ وُہ پانی کو موسم کے مطابق رکھتا ہے۔

 علاقائی نباتات اور درختوں کے جنگل علاقائی ماحول و آب و ہوا کی نسبت سے ہیں۔انسانی، حیوانی، نباتاتی اور آبی زندگی مٹی کی مناسبت سے تھی۔پرانی سڑکوں کے کنارے لگے درختوں کے جھنڈ دیکھے تو اُس علاقہ کے جنگلات اور ماحولیاتی کیفیت کے اثرات کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ شناخت انسانی زندگی کی اصل ثقافت سے جڑی ہوئی ہے۔

آج نباتات کے حالات یہ ہیں کہ چوآسیدن شاہ دُنیا کے بہترین گلاب کے لیے مشہور تھا ، آج وہاں گلاب کے باغات ملنا دشوار ہے۔ کیا وجوہا ت ہے؟ہم قدیم ثقافت کو کیا تلاش کرےںگے؟ ہماری تو بہت سی اقدار آج عدیم ہورہی ہے۔

 برصغیر میںبارہ اشیاءکے زیورات مستعمل تھے۔ سونا، چاندی،پیتل (دھات)،نگینہ، موتی، دانت، پنکھ، پھول، پتے ،اناج، لکڑی، مٹی۔

ایک پاکستانی نژاد برطانوی نوجوان اپنے آبائی علاقہ میں آکر ہمیشہ سادہ دیسی لباس پہنتا تھا۔ اُسکا سادہ سا موقف تھا۔ پاکستان میں یہاںکی ثقافت کے تحت رہنا چاہیے۔ اپنے دیس میں پردیسی کیا بننا ۔لباس اور گفتگوسے اپنا ولائیتی پن ظاہر کرنا مناسب نہیں ۔

انگریزی ہماری تخلیقی سوچ سے کنارہ کشی پر تو مہربان ہوئی۔ مگر علاقائی زبانوں کے الفاظ پر قہرمان ٹھہری۔ لوک موسیقی، لوک گیت، لوک کہاوتیں، لوک کہانیاں، میلوں میں علاقائی کھیلوں کا دھیرے دھیرے معاشرہ سے ربط ٹوٹ رہا ہے۔

خیال کو خیال ہی جدا کرے، بات کو بات ہی کاٹے۔
زمانہ کو رشتہ ہی جوڑے، رشتہ کو رشتہ ہی توڑے۔

لفظوں کے رشتوں سے محروم ہوئے،رشتہ کے نام امپورٹ کیے، رشتہ کا مادہ بھرم سے اُٹھا کرشک کے دھرم میں ڈبو دیا۔ آج ہم رشتوں کے ذخیرہ الفاظ سے واقف نہیں۔ مٹی کی پہچان سے کیا واقف ہونگے۔ جو اپنی مٹی کا نہیں، وُہ کہیں کا نہیںرہا۔انسان مٹی کا بنا ہے، اُسکی خوراک مٹی ہے، اُسکا خون مٹی سے ہی دوڑتا ہے۔سکون اور زبان مٹی کے تعلق سے وجود میں آتے ہیں۔ہم نے مر کر مٹی میں مٹی ہونا ہیں۔عجب بات ہے، ہم اپنی مٹی سے ہی وفا نہیں کرتے۔تاریخ میں غداروں کی فہرست تو جاری کرتے ہیں۔ ٹیپو سلطان رحمتہ اللہ علیہ کو سلام پیش کرتے ہیں۔ مگر کبھی ہم نے اپنی ذات کا احتساب کیا۔ ہم کس مقام کو کھڑے ہیں؟ہم دوسروں کے لیے نہیں، صرف اپنے لیے جی رہے ہیں، صرف اور صرف اپنی ذات کے لیے۔ افسوس! جن کا ذکر ہم اپنی گفتگوﺅں میں کرتے ہیں، وُہ دوسروں کے لیے زندگی گزارنا اپنا ایمان سمجھتے ہیں۔ شائید انفرادی سوچ رکھنے والی اکثریت کو مستقبل کا مﺅرخ مٹی کا قاتل ٹھہرائے۔مٹی سے تعلق کوئی مشکل شےءنہیں، حقیقت کا سچائی سے سامنا ؛انسان کا مٹی سے تعلق بنائے رکھتا ہے۔
صرف اپنے لیے جی کر، زمانہ بھر کو پریشان کیا۔
دوسروں کے لیے جی کر، عمر بھر خود کوبے چین کیا۔

مناسب ہے کہ ہم اپنی تہذیب کو اپنائےں اور مٹی کی خوشبو کو پہچان سکیں۔ مغربی طرز زندگی ہمارے موسم، حالات اور مزاج کے مطابق نہیں۔ ہمارا موسم ہمیں بلند چھتوں کی ترغیب دیتا ہے۔مغرب کی قابل قبول اشیاءکو ضرور اپنائےں مگر اس چاہت میں اپنی مٹی سے رشتہ مت توڑےں۔مسجد وزیر خان ہندوستانی، وسط ایشیائی، ایرانی اور عرب اثرات کا امتزاجی شاہکار ہے۔

پاکستان کی تاریخ 712ء سے شروع نہیں ہوتی۔ دُنیا کے اب تک سب سے قدیم ترین دریافت شدہ فاسلز” بن امیر خاتون“ سے ملے ہیں۔جن میں ڈائینو سار کی موجودگی ثابت ہوچکی ہے۔ بلکہ شواہد تولاکھوں برس قبل تہذیبی ارتقاءکا تعلق بھی یہاں سے بتلاتے ہیں۔ایک قدیم انسانی تہذیب دریائے سواں کے کنارے آباد تھی۔یہاںبرف پگھلنے کے دور میں دُنیا کی قدیم ترین ”چونترہ صنعت(پتھر کے ہتھیار)“نے جنم لیا۔ہڑپہ اورموہنجوداڑو کے آثار دریافت ہوئے مگر ہزاروں برسوں سے آباد کچھ ایسے دیہات بھی چلے آرہے ہیں۔ جن کے کنوﺅں کی طرز تعمیر(بیضوی دہانہ) ہڑپہ اور موہنجو داڑو سے ملتی ہے۔ ہمیں اپنی تاریخ، تہذیب اور ثقافت پر تفصیلی تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ نشان باقی نہ رہے۔

(فرخ نور)

1 comments:

یاسر خوامخواہ جاپانی نے لکھا ہے

کیا پیاری تحریر ھے۔
کہ پڑھنا شروع کی اور اختتام تک کھب کر پڑھی۔
افسوس ہوا کہ اس تحریر کا اختتام کیوں ہوا۔
تہ دل سے بہت بہت شکریہ

9/03/2010 10:48:00 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب