ڈرامے
پاکستان اسلام کے نام پر لاکھوں قربانیوں اور برسوں کی جہد مسلسل کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ مطالبہ پاکستان سے پہلے مسلمان الگ اور آزاد خطے کے لئے سرگرم عمل تو تھے ہی لیکن ١٩٤٠ء میں قرارداد لاہور میں انہیں اپنے سامنے ایک واضح منزل نظر آ گئی اور یہ منزل حصول پاکستان پر ختم ہوئی تھی۔ حصول پاکستان کی بنیاد برصغیر کی ایک بہت بڑی آبادی کا مسلمان ہونا تھا۔ یہ مسلمان چودہ سو سال پہلے والے اس عظیم اور آفاقی مذہب اسلام کے پیروکار تھے جس میں موضوعہ جات اور مفروضات کی قطعی کوئی گنجائش نہیں نکلتی بلکہ راستی اور سلامتی کا مذہب اسلام فطرت اور حقائق کا منبع ہے۔یہ اصل کا مذہب ہے، اس میں نقل کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
یہ حرکت کا مذہب ہے، اس میں جمود کا کوئی مقام نہیں ہے۔
یہ تسلسل کا مذہب ہے، اس میں توقف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
یہ آگے بڑھے جانے کا مذہب ہے، اس میں پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
یہ روشنی کا مذہب ہے، اس میں اندھیرے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
یہ ہدایت کا مذہب ہے، اس میں گمراہی اور گمراہوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اسی طرح یہ اسلام سچائی اور حقیقت کا مذہب ہے اس میں ڈرامے کی کوئی گنجائش نہیں بنتی لیکن ۔۔۔۔ مقام افسوس یہ ہے کہ اس کے باوجود اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے پاکستان کو تھیٹر بنا دیا گیا ہے۔ جس پر اتنے ڈرامے کھیلے جا چکے ہیں کہ یونان اور لندن کے کسی پرانے تھیٹر میں اتنے ڈرامے ‘پلے‘ نہیں کئے گئے ہوں گے۔ ملاحظہ کیجیئے۔
ق لیگ کو قاتل لیگ کہنے والے آج ایک دوسرے پر قربان واری ہو رہے ہیں۔ کیا پہلے ڈرامہ کیا تھا، اب ڈرامہ ہے یا دونوں ڈرامے ہیں۔
بند کمرے میں سازشیں کرنا، عدلیہ بحالی کے ایگزیکٹیو آرڈر کو واپس کرنے کے منصوبے بنانا، سپریم کورٹ کی سترہ رکنی بینچ کا نوٹس لینا اور اٹارنی جنرل کو ایک گھنٹے کے اندر حکومت کی طرف تحریری جواب دینے کا آرڈر دینا مگر دو ڈھائی گھنٹے بعد اٹارنی جنرل کا یہ جواب کہ وزیراعظم مصروف ہیں اُن سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ کیا یہ ڈرامہ نہیں؟۔
پی پی پی کی قیادت کا این آر او کے تحت پاکستان آنا، الیکشن لڑنا اور پھر این آر او کو اسمبلی میں پیش نہ کرنا، عدالت عالیہ کا این آر او کو آئین سے متصادم گردانا۔ اس کے ساتھ تمام مقدمات جو اس فرمان کی وجہ سے ختم ہوئے تھے کو دوبارہ زندہ کرنے کا حکم، حکومت کو زرداری کے خلاف سویٹزرلینڈ میں دائر مقدمات کو دوبارہ کھولنے حکم، حکومت کا عدلیہ کے تمام فیصلوں کو تسلیم کرنا مگر کسی فیصلے پر عمل نہ کرنا کیا یہ سب ڈرامے نہیں؟۔
ق لیگ اپنے دور حکومت میں مشرف کی واہ واہ اور بلے بلے کرتی رہی اور اب دونوں ایک دوسرے کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں۔ کیا وہ ڈرامہ تھا؟ یہ ڈرامہ ہے یا دونوں ڈرامے ہیں؟۔
مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی مخالفت اور پھر یک جان دو قالب ہونا اور اب پھر ایک دوسرے کو آنکھوں آنکھوں میں تولنا۔ کیا پہلے ڈرامہ تھا یا پھر اب ڈرامہ کیا یا سب ڈرامے ہیں؟۔
مسلم لیگ ن نے آصف زرداری کو صدر بنوانے میں سب سے زیادہ مدد کی اور اب سب سے زیادہ مخالفت کر رہی ہے۔ وہ ڈرامہ تھا؟ یہ ڈرامہ ہے؟ یا سب ڈرامے ہیں؟۔
ایم کیو ایم حکومت میں بھی ہے اور حکومت مخالف نعرے میں لگاتی ہے۔ کیا وہ ڈرامہ ہے یا یہ ڈرامہ ہے یا دونوں ڈرامے ہیں؟۔
صدر آصف زرداری پی پی پی کی حکومت بنوانے اور پھر مخالفت کرنے والوں کو سیاسی اداکار قرار دیتے ہیں۔ کیا یہ سیاسی اداکار ہیں یا وہ یا سبھی اداکار ہیں؟۔
اپنے مولانا صاحب کی تو کوئی حقیقی زندگی ہے ہی نہیں کیونکہ وہ تو کل وقتی ڈرامہ ہیں۔
بچے بچپن میں ٹی وی پر ڈرامے دیکھتے ہیں۔ جب ایک ڈرامے میں میاں بیوی کا کردار ادا کرنے والے فنکاروں کو اگلے ڈرامے میں بھائی بہن اور اس سے اگلے ڈرامے میں ماں بیٹے کا کردار ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو بڑے حیران ہوتے ہیں۔ حیرت سے اپنے والدین سے پوچھتا ہیں ‘بابا! یہ کیسے ممکن ہے‘ والدین پیار سے بچے کو سمجھاتے ہیں ‘بیٹا یہ ممکن ہے کیونکہ یہ حقیقت نہیں بلکہ ڈرامے ہیں، جب تم بڑے ہو جاؤ گے تو سب سمجھ جاؤ گے‘ واقعی پھر جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو ڈراموں کی حقیقت کو سمجھ کر اپنے بچپن کی معصومیت پر بڑا مسکراتے ہیں۔
ہماری قوم بھی شاید ابھی بچپن میں ہی ہے۔ اسے ڈرامے کی سمجھ نہیں آتی۔ یہ ڈرامے دیکھتی ہے۔ مزاحیہ ڈرامے دیکھ کر ہنسنے لگتی ہے اور غمگین ڈرامے دیکھ کر اس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
آئیے! اس قوم کے بڑا ہونے کا انتظار کریں، جب اسے ان ڈراموں کی سمجھ آنا شروع ہو جائے گی تو پھر یہ اپنے بچپن کی معصومیت اور بھولپن پر خود ہی مسکرائے گی۔
1 comments:
اگر یہ آپکی اپنی تحریر ہے تو مبارک ہو آپ بڑے ہوگئے ہیں!!!!!
10/15/2010 07:54:00 PM:)
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔