دُنیا میں اَمن
بقول خواجہ دل محمد دلشبنم لٹا رہی ہے پھُولوں میں بھر کے موتی۔
بِکھرے ہیں کیا چمن میں ہر سُو سحر کے موتی۔
اٹھکھیلیوں سے تیری بادِ صبا یہ ڈر ہے۔
مٹی میں مل نہ جائیں سب برگِ تر کے موتی۔
بِکھرے ہیں کیا چمن میں ہر سُو سحر کے موتی۔
اٹھکھیلیوں سے تیری بادِ صبا یہ ڈر ہے۔
مٹی میں مل نہ جائیں سب برگِ تر کے موتی۔
امن کی تلاش میں کوئی ہماری امان میں نہیں۔ ایمان تو ہیں مگرمَن سکون میں نہیں۔دُنیا کی ہر تعلیم انسان کے مَن میں اَ من کے گُلشن کھلاتی ہے۔بہار میںکھلتے پھولوں کی خوشبو، چمن کوخوب مہکاتی ہے۔
مسائل کو حل کرنے کے لیے طویل مباحث کی ضرورت نہیں۔ اگردرکار ہے تو صرف ایک نکتہ کی پہچان محبت،کدورت نہیں۔جیسے کل زندگی ایک ہی نقطہ پر گھوم کرآغاز و اختتام ہوئی۔کلمہ توحیدکے نکتہ ئِ تسلیم سے زندگی میں راہ سلیم آئی۔جس سے انسان کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی بھی حسین ہوئی ۔جس روز ہم رضا ئے الہی کے تابع ہوئے، اُسی لمحہ زندگی اُلجھنوں سے نکل کر سلجھن بن گئی۔بقول خواجہ میر درد:
شادی کی اور غم کی ہے دُنیا میں ایک شکل
گل کو شگفتہ دِل کہو تم یا شکستہ دِل
گل کو شگفتہ دِل کہو تم یا شکستہ دِل
آج اس دُنیا میں سکون و امن کیوں نہیں؟ تعلیم بہت ہے مگر رویوں میں بد امنی کیوںہیں؟ کہیںمعاش کی فکر نے ہمیں اُلجھا یا ،کبھی تعیش کی تمنا میںمضطرب مزاج بنایا۔ عجب بات ہے تمام مذاہب اخلاقیات کی تعلیم دیتے ہیں۔ مگر ہمارے رویے اخلاقیا ت سے عاری کیوںٹھہرتے ہیں؟ معاشروں میں رعونت پروان چڑھ چکی، مسلکی اختلاف پر مسائل کیوں؟ عبادت گاہوں میں نفرت کی اُٹھان اُٹھی۔ محبت نفرت میں کیسے ڈھلی؟ مفاد نے رنگت کچھ یوں بدلی۔دُنیا میں بکھیڑے دوسروں میں اپنے واسطے پیدا کیے۔
کچھ عاقل فرماتے ہیں، اپنے اندر امن پیدا کیجیے، دُنیا میں سکون دیکھ لیجیے۔ انسان کی ذات میں امن مذہب کی اخلاقی تعلیم اُبھارتی ہے۔انسانی شخصیت کی مرصع سازی مثبت تہذیبی سوچ، تربیت اور رویوں سے بنتی ہے۔جو معاشرہ کو رواداری،برداشت،محبت اور صداقت کا مرقع بنا کر اُجاگر کرتی ہے۔
تعلیم صرف کسی سکول میں حاصل کرلینے کا نام نہیں۔ خاندانی ماحول سے معاشرتی ماحول میں جو رویے ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ وُہ ہماری سوچ اور اذہانی کیفیات پر مسلسل منفی و مثبت تبدیلی پیدا کر تے ہیں۔آج میں جس معاشرہ میں رہتا ہوں۔ وُہ دولت کمانے سے جڑا ہے۔ تعلیم انسان اپنے آپ کو بنانے اور بدلنے کے لیے حاصل نہیں کر رہا،بلکہ ڈگریاں معاشی حالات بدلنے کے لیے اکٹھی کررہا ہے۔ اسی وجہ سے معاشرتی حالات تہذیبی اوراخلاقی تنزلی کا شکار ہیں۔
شیر شاہ سوری اِک اَن پڑھ مگر مثالی حکمران تھا۔ مذہبی رواداری و عدل میں اپنی مثال آپ تھا۔ عوام سے ٹیکس وصول کرنے میں سختی برتتا تھا۔رعایا کے جان و مال، عزت و آبرو کا خود کو ذمہ دار سمجھتا تھا۔ اگر کسی گاؤں میں کوئی چوری ہوتی تو تمام سرکاری اہلکار جیب سے نقصان پورا کرتے ۔ اگر کوئی قتل ہوتا اور قاتل گرفت اور سراغ سے بچ رہتا تو سربرائہ گاؤں کے سر قتل تصور ہوتا اور سزا کا حق دار ٹھہرتا۔
اِک مرتبہ شہزادہ پان منہ میں ڈالے ، ہاتھی پر سوار ہوکر شہر سے گزرا ۔ اس دوران ایک کسان کی بیوی کو غسل خانہ میں نہاتا دیکھ کر اُس پر پان کی پچکار پھینک ڈالی۔ وُہ غریب خاتون شرم سے پانی پانی ہوگئی۔ کسان نے ڈرتے ڈرتے شہنشائہ ہند شیر شاہ سوری سے فریاد کی۔ بادشاہ بڑا نادم ہوا۔ آخر یہ انصاف کیا، شہزادہ کی بیوی جو کہ بادشاہ کی بڑی بہو بھی تھی۔ اُس ہی غسل خانہ میں نہائے گی اور کسان ہاتھی پر سوار ہوکر گزرتے ہوئے اُسی طرح پان کی پچکار پھینکے گا۔ کسان نے فوری طور اپنی درخواست واپس لے لی ۔اس خیال سے کہ بادشاہ کی بہواُ س کی بھی عزت ہے۔
شیر شاہی عہد میں باہر سے جب کوئی تاجر ہندوستان میں داخل ہوتا تو دو فیصد ٹیکس تجار ادا کرتے تھے اور حکومت اُنکے تمام جان ومال کے تحفظ کی ذمہ دار ہوتی تھی۔کسی بھی نقصان کی صورت میں حکومت خصارہ پورا کرنے کی ذمہ دار تھی۔ پشاور سے بنگال تک پانچ مختلف شاہراہیں بنوائیں، بیشمار شاہرات مرمت بھی ہوئیں۔ ان تمام گزرگاہوں کے کنارے سایہ دار اور پھل دار درخت سہولت سفر کی غرض سے لگوائے۔ ہر چند کوس کے فاصلے پر مساجد و مدارس کے ساتھ سرائیں بنوائیں۔ عوام کے تحفظ کے لیے پولیس پیٹرولیم (گشت) کو اس قدر چاک و چوبند رکھا جاتا کہ ایک اکیلی خاتون رات کے اندھیرے میں بلا خوف و خطر سفر کر سکتی تھی۔
امن کے لیے سربراہان مملکت اور انتظامیہ پر لازم ذمہ داری ہے کہ عدل و انصاف، روزگار اور معاشی سہولیات میسر کریں۔
کبھی کبھی قومی مفادات کمزور قوتوں میں بدامنی رکھتے ہیں۔ بڑی طاقتیں خود تو امن کی زندگی بسر کرتی ہے۔ مگر امن کے نام پر کمزور اقوام پر یلغار جاری رکھتی ہے۔ وسائل کے حصول کی جنگ ہمیں آپس میں لڑائے ہوئے ہیں۔ کشمکش کی یہ پالیسی کیا دُنیا کی خارجہ پالیسی بدلنے کی جرات رکھتی ہے؟ دُنیا میں بدامنی دو طرح کے خطوں میں پیدا کی گئی ہے۔ جہاں وسائل کی دولت ریل پیل رکھتی ہے، وہاں سیاسی ناسور بویا گیا۔ جو ممالک ذہانت کی دولت رکھتے ہیں، اُن میں علمی اور علاقائی تنازعات پید اکر رکھے ہیں۔ کسی کے جذبات کو کسی اور کے خلاف بڑھکایا جا رہا ہے۔
حالت تو یہ کہ مجھ کو غموں سے نہیں فراغ دِل سوزش درونی سے جلتا ہے جوں چراغ
(سینہ تمام چاک ہے، سارا جگر ہے داغ ہے مجلس میں نام میرا میر بے دماغ (میر تقی میر
(سینہ تمام چاک ہے، سارا جگر ہے داغ ہے مجلس میں نام میرا میر بے دماغ (میر تقی میر
دُنیا میں یہ امن کیوں قائم نہیں؟ ایک خاندان میں دو اَن پڑھ عورتیں جو سازشیںبُنتی ہیں۔ اپنے اَنجانے وقتی خیال کی تکمیل کی خاطررشتوں میں خلیج پیدا کرتی ہیں۔ ویسے ہی دُنیا کی بین الاقوامی سیاست ہے۔
اگرتعلیم رشتوں میں پڑی دراڑوں کو بھر سکتی ہے تو دُنیا میں امن بھی لاسکتی ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ کی سوچ مثبت اور تعمیری ہو۔ ہم سب اپنی اپنی کپیسٹی میں خود کو امن سے رکھے اور ماحول کو بھی پُر امن بنائے۔بقول حیدر علی آتش
اپنے ہر شعر میں ہے معنیِ تہ دار آتش وُہ سمجھتے ہیں جو کچھ فہم و ذکا رکھتے ہیں
کمیں ہر معنی روشن، مکاں ہر بیتِ موزوں ہے غزل کہتے نہیں، ہم چند گھر آباد رکھتے ہیں
کمیں ہر معنی روشن، مکاں ہر بیتِ موزوں ہے غزل کہتے نہیں، ہم چند گھر آباد رکھتے ہیں
ادیب ،شاعر جنسیاتی موضوعات کی بجائے حقیقی محبت کی پرتیں کھولیں، علماءو فقہاءمسلکی مباحثی اختلافات کو ہوا دینے کی بجائے ادائیگی ارکانِ اسلام و اخلاقی تعلیم دیں، اساتذہ کرام علمی فوقیت کے ساتھ ساتھ عملی تاثیر کا اثر بھی پیدا کریں۔ والدین سکول میں داخل کروا کر ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی بجائے عملی تربیت کا فریضہ سر انجام دیں۔ کیونکہ ایک صحت مند دماغ اَمن قائم رکھتا ہے۔ دولت کی کمائی کی بجائے ، مخلص لوگوں کو کمائے اور رشتوں کے احترام کو نبھائے ۔ یہ رحمت خداوندی ہے۔
امن کی ابتداءاپنے مَن سے شروع کیجیے،ذمہ داریوں کو اللہ کی پوچھ گچھ کے خوف سے احسن طریقہ سے نبھائے، دوسروں کو دیکھ کر جلنے کی بجائے، اُن کے ساتھ مل کر تعمیری عمل کا حصہ بنے۔ دُنیا کی ہر قوم کو اُس کی روایات ، اقدار اور مذہب کے فخر اور شان سے جینے دیں۔ میرا گھر میں جو خوبصورت رویہ بھائی کے ساتھ ہے۔ ویسا خوب سیرت رویہ میرا ہمسایوں کے ساتھ بنے۔ یہی عمل ریاستوں کی سطح پر درکار ہے۔ دُنیا میں چند تخریبی ذہن اپنے مفاد کے حصول کی خاطر اس راہ میں رکاوٹ ہے۔ بقول میر تقی میر:
چلتے ہو تو چمن کو چلئے، سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں، پھول کھِلے ہیں، کم کم بادو باراں
پات ہرے ہیں، پھول کھِلے ہیں، کم کم بادو باراں
(فرخ نور)
مشکل الفاظ کے معنی
برگ: پتا
تجار: تاجر کی جمع
ذکا: ذہانت
سرائیں: ریسٹ ہاؤس
مرصع: نگینوں کا جڑاؤ، آراستہ کرنا، خوش بیانی
مرقع:مجموعہ، فوٹو البم، خطاطی کے قطعات (نمونہ) رکھنے کی کتاب ،ایسی مرمت شدہ شے جس میں پیوند لگے ہو
1 comments:
پاکستانی بھائي، بہت خوب بہت اچھالکھاہےلیکن یہاں توپہلےتوکسی کےلئےکوئی وقت نکالتاہی نہیں دوسرایہ ہےکہ امن کےلئےہم لوگ صرف بات کرنےتک محدودہیں جبکہ ابتداء اپنےآپ سےکرنی پڑےگی۔پھردنیامیں امن ہوگااپنےآپ میں برداشت پیداکرنی ہوگي۔
10/30/2010 11:32:00 AMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔