31 December, 2010

کِھلتے دِل، کُھلتے خیال

محبت اِک حسین شے ہے مگر ہم اُسے نہیں جانتے
حسن کی تلاش فہم سے ہے مگر ہم اُسے نہیں مانتے

ہم اِس دُنیا میں آتے ہیں۔ زندگی میں سیکھتے ہیں اور پھر حاصل علم دوسروں کو سِکھا کر حقیقی راہ پر دُنیا سے کنار ہ کشی فرماتے ہیں۔ایسے ہی ہم ہر برس کچھ نیا جاننے کی کوشش میں بہت کچھ اپناتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ہم اپنا علم نئی نسل کو منتقل کرتے ہیں۔ زندگی میں ہم جو کچھ پاتے ہیں۔اُس کو بالآخر بانٹ کر جانا ہے، ورنہ ہمارے بعد ورثہ بٹ جاتا ہے۔ ہر وُہ شےءجس کی فطرت بانٹنا ہے، وُہ ہمیں زندگی کی حقیقت کی طرف لیجاتی ہے۔ علم بانٹو، محبت بانٹو، خوشی بانٹو، یہی حقیقی دولت ہے، بانٹو اور بڑھاؤ۔

انسان عمر بھر حسن کی تلاش میں رہتا ہے۔ حسن کیا ہے؟ ہر انسان کا اپنا اِک معیار ہے۔ اطمینانِ قلب اگر حسن ہے تو تسکینِ ذہن لطفِ افکار ہے۔ نگاہئِ حسن جس کو ملی، اُسکی دُنیا ہی بدلی۔ حسن ذات سے باہر ہے، کسی شےءکی مرکوزیت میں حسن تو ہو سکتا ہے، ممکن ہے وُہ آپ کا قلبی لگاؤ ہو۔ قلبی واردات تو آپ کو ذات سے باہر لاتی ہے اور کسی اور ذات کی طرف لیجاتی ہے اور مخلوق خدا سے محبت کرنا سکھاتی ہے۔ خلقِ خداکی محبت آپ کو اللہ کی محبت کا رستہ دکھلاتی ہے۔ اللہ سے محبت کا رشتہ جب جڑ جائے تو خوف خوف نہیں رہتے بلکہ محبت بنتے ہیں۔

حسن کا تصور ملنا خدا کی بہت بڑی دَین ہے۔ زندگی کی حقیقت میں خوبصورت رنگ انسان کے دِلکش رویے اور خیالات ہیں جو اَمن اور سکون قائم رکھتے ہیں۔

انسان اپنی زندگی آئیڈئیل تھیوری یا ماڈل کے تحت گزارنا چاہتا ہے۔ ہمارے فلسفہ زندگی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہم خامی کا خانہ اپنی تھیوری میں نہیں رکھتے۔ اپنے پیش کردہ ماڈل میں اگر حقیقی رنگ بھر دیں تو زندگی کو زندگی کے سبق سے سیکھا جاسکتا ہے۔

ہم تنقیدی نگاہیں رکھتے ہیں، حالات کی بہتری حوصلہ اور رہنمائی سے ہوتی ہے۔ ہم زندگی کو بڑے ہی محدود کینوس سے دیکھتے ہیں۔ انسانی چہرہ پر موجود تاثرات کو نہیں سمجھتے۔ شک کی نگاہ سے دوسروں کو دیکھتے ہیں۔ مگر غیر جانبدار ہو کر شک دور نہیں کرتے ۔

اکثر لوگ خود کو سیکولر کہتے ہیں۔ افسوس! میرا معاشرہ دو متضاد انتہاپرست گرہوں کی ضد کی شدت کے باعث بَٹ رہا ہے۔ کون جانے! سیکولر بننے کے لیے خود کو پہلے صوفی بنناہوتا ہے۔ لفظ صوف سے مراد کسی کے متعلق بغض ، حسد، کینہ اور نفرت دِل میں نہ رکھنا۔ اپنی مرضی مار دینا، اپنوں کی مرضی چھوڑ دینا اور حق بات کا بلا تعصب فیصلہ کرنا۔ اصل میں صوف ہے۔

ہمارے رویے اس لیے بھی بگڑتے ہیں ہم چھوٹے دِل رکھتے ہیں اور بند نگاہوں کی طرح تنگ ذہنوں میں اُلجھے رہتے ہیں۔

انسانی فطرت ہے کہ وُہ خواہشات رکھتا ہے، ایسے ہی خواہشات کی تکمیل غلطیوں کا مرتکب بناتی ہے۔ فطری خواہشات انسان کی معصوم خواہشات ہوتی ہے۔ ایسے ہی فطرتی غلطیاں معصوم انسانی غلطیاں ہوتی ہے۔ معصوم غلطیوں کو درگزر کریں بوقت ضرورت مصنوعی سرزنش سے غلطی کا احساس ضرور دلائیںمگر دِل کی میل صاف رکھیں۔ دِل بڑھنے لگے گا۔ برداشت آجائے گی۔

زندگی کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھے مگر حالات کو دوسروں کی نگاہ سے دیکھے۔ ہم اختلافی مسائل کے بارے میں ایک رائے رکھتے ہیں۔ جن کے بارے میں آپ مخصوص سوچ (نفرت)رکھتے ہیں۔ اُن سے اُنکے خیالات بھی تو جانئے۔ تعصب سے پاک غیر جانبدارانہ سوچ ذہن کھولتی ہے۔ بڑھتے دِل، کُھلتے ذہن؛ بصیرت پاتے ہیں۔

گزشتہ برس میرے لفظوں نے اشعار کا روپ دھارا
نہیں جانتا ، کس کی دُعا سے میرا خیال خوب بڑھا

قیادت کو بصیرت کو چاہیے۔ خیالات ذاتیات میں محو ہو جائیں تو خیالات کا محور بصیرت سے محروم ہوتا ہے۔ قیادت حالات کے بھنور میں دھنستی رہتی ہے۔

حسن زندگی کو توازن دیتا ہے۔ زندگی گزارنا کوئی آئیڈئیل تھیوری نہیں۔ دوسروں کو سمجھ کر ردعمل یوں دینا کہ معاملات سلجھ جائیں۔ خوبی کو خامی کے ساتھ قبول کرنا، حسنِ سلوک ہے۔ دوست ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتے۔ ہم اُن کو خامیوں سمیت قبول کرتے ہیں۔ اُنکی خامی ہمارے لیے خامی نہیں رہتی۔

حسن الجبرا کی ایک ایسی مساوات ہے، جس کو ہم مساوی رکھتے ہیں۔ مصور تصویر میں متوازن رنگ بھرتا ہے، شاعر شعر کا وزن مدنظر رکھتاہے، مصنف جملوں میں تواز ن لاتا ہے، گلوگار آواز کے اُتار چڑھاؤ میں توازن رکھتا ہے، متواز ن غذا صحت لاتی ہے، متوازن گفتگو سوچ کو نکھارتی ہے، متوازن عمل شخصیت بناتے ہیں۔ انسان کا حسن عمل اور سوچ کا توازن ہے تو انسانی شخصیت خوبیوں اور خامیوں کا مرقع ہے۔ ایسے ہی معاشرتی مساوات معاشرے کا حسن ہے۔

اپنی زندگی کی نئی بہار کے موقع پر گزشتہ برس کی وُہ نئی نگاہ پیش کی۔ جو مجھ کو سلطان شہاب الدین غوری سے عقیدت مندانہ ملاقات کے دوران ملی۔

لوگ اُنکے مرقد کو صرف ایک مقبرہ سمجھتے ہیں۔
راہ ِ عقیدت میں جو نگاہ ملی، ہم اُس کومزار مانتے ہیں۔

یا اللہ آج میری زندگی کا نیا برس شروع ہوچکا ہے، ہم سب پر اپنا کرم فرمانا۔ نئی راہوں کے نئے دروازے کھولنا۔ ہمارے خیالات میں حسن کی نگاہ اور محبت کا جذبہ برقرار رکھنا۔ ہماری راہ منزل میں اپنی رہنمائی جاری رکھنا۔ ہم سب کو اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بنانا۔ آپ سب کو کل سے شروع ہونے والا نیاعیسوی سال نیک تمناؤں اور دُعا کے ساتھ مبارک ہو۔
(2010 دسمبر 31) فرخ نور بتاریخ

نوٹ:
میرے لیے آپ سب دُعائے خیر فرمائیے گا۔ زندگی رہی تو اپریل میں نئی تحریر پر ہماری ملاقات ہوگی۔ گزشتہ پانچ برسوں میں پہلا موقع ہوگا کہ آپ کو نئے سال کا پہلا آرٹیکل 5 یا 6 جنوری کو نہیں ملے گا۔میرے امتحانات ہے، آپ سب دُعا کرنا۔
اس برس میں نے اپنے تمام جاننے والوں کو اُنکی تاریخ پیدائش کے مواقع پر دُعاؤں کے پیغامات بھیجے۔ مگر سات فیصد افراد کی تاریخ پیدائش کا مجھے علم ہی نہ تھا۔ لہذا میں اُن سے معذرت خواہ ہوں کہ اُن کو ای میل نہ کرسکا۔ ایسے ہی جن افراد کو عید کے مواقع پر ایس ایم ایس ملے ، اُن کے ساتھ خوشی کا جذبہ بانٹا۔

3 comments:

احمد عرفان شفقت نے لکھا ہے

لیکن امتحانات کیا اپریل تک چلتے رہیں گے؟ یا شاید میں کچھ ٹھیک سے سمجھ نہیں پایا۔

12/31/2010 11:20:00 PM
افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

سيکولرزم بھی انتہاء پسندی ہے ۔ اسلام ميانہ روی کا سبق ديتا ہے

1/01/2011 10:52:00 AM
افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

اللہ آپ کو امتحان کيلئے محنت کی توفيق عطا فرمائے اور کاميابی سے ہمکنار کے

1/01/2011 11:23:00 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب