16 January, 2012

تبصرہ: تذکرہ اولیائےکرام چکوال

تاریخ اور صوفیانہ تذکرات دو جدا مناظر ہے۔ دونوں میں مشترکہ بات ذکر کی ہے۔مگر ذکر مشترکہ نہیں۔ تاریخ کا حقائق پر مبنی ہونا ضروری ہے۔ یہ بحث جدا ہے کہ وہ حقائق مخصوص نقطہ نظر بھی رکھ سکتے ہیں۔ صوفیانہ تذکرات میں اکثر روایات درج ہوتیں ہیں۔ روایات حقیقت بھی ہوتیں ہیں اور حکایت بھی۔ یہاں اصل مقصد نکتہ کھولنا یا نقطہ سمجھانا ہوتا ہے۔ لہذا دونوں میں فرق اپنے اصل مقصد کے سبب آجاتا ہے۔ اسی بنیاد کو سامنے رکھ کر یہ اذکار زیرقلم رہتے ہیں۔

ایسے ہی جب مجھے کتاب اولیائے کرام چکوال کا مسودہ سونپا گیا تو میں نے حسب معمول اعتراضات کی بوچھاڑ کر ڈالی کہ ایک وقت ایسا آیا کہ اشاعت کا مرحلہ ملتوی ہونے کو تھا۔ وجہ یہ تھی کہ میری سرسری نگاہ سے چند واقعات گزرے، جن کے طرز تحریر پر مجھے کچھ باتیں درست معلوم نہ ہوتیں تھیں۔ خیر کچھ کی تصدیق مصنف نے نئے سرے سے کی اور مجھے مطمئن کیا کہ وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ دوسری جانب میں نے اپنے ذرائع سے بھی ان کی صحت کو دوبارہ پرکھا۔ جہاں مصنف عابد منہاس نے تاریخی حقائق اور روایات کو ایک ہی سمجھ لیا تھا۔ وہاں میں نے لفظ روایت کا اضافہ کروایا اور عرض ناشر میں بھی اس کو شامل کیا۔ کہ اگر قاری کو کہی، تاریخ اور روایات میں تضاد ملے تو وہ اس میں تمیز کرسکیں کہ روایات مقبول عام قصہ بھی ہوسکتا ہے۔

مجھے ہمیشہ اولیاء کرام کی تذکراتی کتب سے متعلق ایک کمی محسوس رہی ہے۔ کتاب میں ہم اللہ والوں کی کرامات اور قصص بھر دیتے ہیں۔مگر ان کی تعلیم کیا تھی؟ مزید ان کی نثر یا شعر کی تحریر یا قول کیا تھے؟ ملفوظات میں کیا کچھ لکھا گیا؟ ان پر ہمیشہ توجہ کم ہی دی جاتی رہی ہے۔ ہم محترم ہستیوں کے مافوق الفطرت واقعات تو بہت درج کرتے ہیں۔ مگر ایک عام انسان کے طور پر ان کا مزاج، رویہ اورکردار کیسا تھا؟ اس پر ہمیشہ قابل غورتوجہ نہ دی گئی۔ اصل مقصد تو یہ ہے کہ ہم اپنے بزرگان کے وہ حالات بھی جانے جن کو پڑھ کر ہرفرد عمل کرے اور اپنے کردار میں ایک حسین تبدیلی لائے جو ہمیشہ سے صوفیاء کرام کا مقصد رہا۔ مقصد کیا تھا؟ معاشرہ کی اصلاح و تعمیر۔

ایک لسانی محقق کی عینک لگائو تو یہی کمی اس تذکرہ اولیاء چکوال کا معاملہ بھی ہے۔ جس میں شاہ مراد رحمتہ اللہ کا کلام بھی نہ سمویا جاسکا۔ جو اردو زبان کے پہلے غزل گو شاعرہے۔ایسے ہی "اقبال اور بھوپال" کے حوالے سے اسدالرحمان قدسی قلندر الزماں رحمتہ اللہ کا بھی کلام مجھے نہ مل سکا۔جو بھون میں مدفون ہے۔جس سے میں واضح انداز میں سمجھا ہوں کہ مصنف نے احوال و آثار پر توجہ دی مگر اشغال اس کا موضوع نہ تھے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ مصنف اس سلسلہ میں مکمل غافل ہو۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ گزشتہ برس "چکوال دا پنجابی ادب وچ حصہ" اور "چکوال میں نعت گوئی " جیسی دو تخلیقات اسی مصنف کی تحریر کردہ ہیں جو ہمارے ادارہ کے توسل سے منظر عام پر آچکی ہیں۔ لہذا ،ان دونوں کتب نے اس جھول کی جھولی پہلے سے بھر رکھی ہے۔

ناقدانہ رائے کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس محنت کی حوصلہ افزائی بھی ازحد ضروری ہے۔ کیونکہ جب میں خود کو مصنف کے مقام پر رکھ کر دیکھتا ہوں تو بہت سے حوصلہ شکن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ خصوصاً جب اس راہ پر گزرگاہ کے باقاعدہ آثار نہ ملتے ہوں۔ تو انجانے راستہ میں راہ تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کو کوئی غلط سمت میں بھٹکا دیتا ہوں۔ مگر مصنف نے مسلسل کوشش جاری رکھی۔ آخر اولیاء، صوفیاء اور پیران کرام کی علاقائی فہرست اور مختصر حد تک حالات دریافت کر لینا بھی دشوار مرحلہ تھا۔ یہاں درج کئی معلومات میرے لیے نئی تھی، جیسے نوگزے مزار، حضرت حام ٰ کا مزار وغیرہ۔ چند روایات کی درستگی تک معترض بھی رہا خصوصاً دندہ شاہ بلاول کی وجہ تسمیہ اور چند دیگر واقعات۔ مگر جاننے کو بہت کچھ ملا۔

اس کتاب میں 398 بزرگان کے حالات درج ہیں، 11 چشموں کا تذکرہ اور 218 نورانی آستانوں کے صرف اسماء گرامی درج ہیں۔ اس سے قبل بھی تذکرہ اولیائے پوٹھوہار، تذکرہ اولیائے پنجاب، تذکرہ اولیائے پاک و ہند بازار میں ملتیں ہیں۔ مگر میں کسی بھی تخلیق کو ہم پلہ نہیں سمجھتا۔ سب اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہواکہ اس نئے پھول کے کھلنے سے تخلیقی اور تحقیقی راہ میں معاونت بڑھے گی۔

بطور ناشر میری ہمیشہ خواہش رہی کہ کتاب کا صفحہ اور صفحات پر موجود الفاظ اور جملوں کی تزئین دل کو بھائے۔ جلد بندی مضبوطی اور خوبصورتی میں اعلی معیار کی ہو اور قیمت اتنی ہوکہ غریب آدمی کی دسترس میں ہوں۔ تاکہ ملک میں کتاب پڑھنے کا رجحان قیمت کے سبب نہ رکنے پائے۔

آخر میں مصنف عابد منہاس صاحب چاہتے تھے کہ ان کی اس کتاب پر تبصرہ ہونا چاہیے۔ میرا تبصرہ کے حوالے سے مزاج اور طرح کا ہے، میں تعریفوں کے جھوٹے پل باندھنے کا قائل نہیں اور نہ ہی مبالغہ آمیزی سے کام لینا مجھے منظور نہیں۔ مزید جب آپ ناشر ہوں اور کتاب پر تبصرہ کریں تو کاروباری انداز سے ناقدانہ تبصرہ خودکشی سمجھا جاتا ہے۔مگر میرا کتاب سے تعلق ایک سٹوڈنٹ کا ہے۔ اور میں تبصرہ سٹوڈنٹ کے نقطہ نظر سے کرتا ہوں۔ تاکہ ہم متلاشیوں کی پیاس میں کچھ کمی واقع ہوسکے۔ہمارے اذہان میں موجود سوالات کے جوابات کھل سکیں۔ یہی بنیاد میرے معیار کی ابتداء ہے۔

والسلام
فرخ نور

اہم سٹاکسٹ
کشمیر بک ڈپو ، تلہ گنگ روڈ، چکوال
رائف اسٹیشنرز، عمر ٹاور، حق سٹریٹ، اردو بازار، لاہور
علم و ادب کتاب گھر، عمر ٹاور، حق سٹریٹ، اردو بازار، لاہور

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب