31 January, 2012

دیپاچہ: تشکیل پاکستان اور تائید ایزدی

دنیا کی پہلی نظریاتی حکومت عہد نبویؐ میں دیکھی گئی جو عظیم فلاحی ریاست تسلیم کی جاتی ہے۔ سترھویں صدی میں یورپ بہت سی تبدیلیوں اور پیش رفتوں سے گزرا۔ جن میں سماجی سطح پر نظریہ قومیت نے جنم لیا۔ اس قومیت نے ایک تخریبی بیج بویا۔ وہ لسانی اور نسلی قومیت کا بیج تھا۔ اس سے قبل پورپ مذہبی ومسلکی نفاق کے خطرناک نتائج بھگت رہا تھا۔

پاکستان کا نظریہ قومیت درحقیقت دنیا میں نظریہ قومیت کا حسن لایا۔ قومیں نسل، زبان، یا مسلک کی نمائندہ نہیں۔ وہ تو ایک عقیدہ سے وجود میں آتی ہے۔ جس کے آگے انسانی تفریق کی حیثیت معنی نہیں رکھتی۔ 1930ء میں مسلم ریاست کا مطالبہ ہوا۔ آخر پہلی مرتبہ علیحدہ وطن کی قرار داد مسلم لیگ نے 1940ء میں پیش کی۔ لیکن اس سے قبل قائد اعظم کی بصیرت کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1928ء میں جب موتی لال نہرو نے نہرو رپورٹ میں صوبوں کی لسانی بنیادوں پر تشکیل نو کی تجویز پیش کی تو قائد اعظم نے اپنے چودہ نکات میں اس کو ردّ کیا۔ ہندوستان نے آزادی کے بعد اپنے صوبوں کو لسانی بنیادوں پر قائم کیا اور قائد اعظم نے ہمیشہ لسانی و نسلی اختلاف کی حوصلہ شکنی کی۔ یہ بات غور طلب ہے کہ بیاسی برس قبل ہمارے بابائے قوم کیا دیکھ رہے تھے اور آج کیا ہم ان کے نظریات کی اس بصیرت کو سمجھ رہے ہیں یا اس سوچ کو نظر انداز فرما رہے ہیں۔ اس پر غور کیجیے تو آپ محسوس کریں گے کہ پاکستان ایک تسلسل ہے۔ اب کا دور تشکیل اور تکمیل کے مابین ٹھہراؤ کا دور ہے۔ تشکیل ہوچکا ہے اور تکمیل ابھی باقی ہے۔


تشکیل پاکستان اور تائید ایزدی صوبیدار (ر)پائندہ خان کی ایک ذاتی ڈائری ہے۔ جو ان کے ذاتی خیالات و مشاہدات پر مبنی ہے۔ اپنی اس تحریر میں انہوں نے قیام پاکستان اور بعد میں ہونے والے واقعات پر اس نقطہ نظر کی نمائندگی پیش کی ہے۔ جو عوامی سطح پر عام ہے۔ اس بات سے قطعہ نظر کے ان کی صحت کیا ہے؟ ہاں ایک نقطہ جو قابل ذکر ہے کہ پاکستان کو کم علاقے ملنا بھی خدا کی حکمت سے خالی نہ تھے۔ آسان لفظوں میں یہ سمجھ لیجیے کہ تمام واقع ہونے والی زیادتیوں میں اللہ کی مصلحت پنہاں ہوسکتی ہے۔


بطور ناشر کسی کتاب کا ناقدانہ دیباچہ لکھنا خاصا دشوار ہوتا ہے۔ لیکن دیانتداری کا تقاضا یہی ہے کہ ابتدائیہ حقائق بیان کرسکیں۔ مجھے جو جھول اور سقم محسوس ہوئے، ان کو بلا جھجھک تحریر میں لایا اور جہاں انداز میں حسن پایا۔ اس کی تعریف بھی پیش کر رہا ہوں۔

جب کتاب کا مسودہ میرے سامنے آیا تو مجھے کچھ جملوں اور واقعات کی صحت و انداز بیان پر خاصے اعتراضات تھے۔ کہیں موضوع کے اعتبار سے تحریر میں ٹکراؤ تھا۔ خیر ایک پینل پر چند افراد سے مشاورت کی اور طے پایا کہ اس محبّ وطن بزرگ سپاہی کی یادداشتوں کو من و عن چھاپا جائے اور آخر میں ان ادھورے جملوں کی وضاحت کردی جائے۔ جیسے فیلڈ مارشل آکنلک کے لیے تعریفی کلمات کا پس منظر کس سبب سے تھا، ایک جملہ اقبال اور قائد کے حوالے سے ادھورا رہ گیا اور اس طرح کے چند نقاط کی پرتوں پر سے دھول کو ہٹایا۔


دوسرا میرا اعتراض یہ تھا کہ چند مقامات پر یہ لکھا گیا کہ چند اہم شخصیات تحریک پاکستان اور قائد کے خلاف تھیں۔ مزید چند فتویٰ بھی صادر فرماتیں رہیں۔ ان کے نام تحریر نہیں۔ کیونکہ نئی پود ایسے ناموں سے ناواقف ہے۔ لیکن یہاں طے پایا کہ تحریر کے متن کو نہ چھیڑا جائے۔

یہ کتابچہ دستاویز نہیں ہے۔ یہ تحریک پاکستان کے اثرات قبول کرنے والے سپاہیانہ سطح کی سوچ اور دیہاتی کلچر کی عکاسی ہے۔ ہمارے معاشرہ کی بھی کچھ نظریاتی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ سماجی اور ثقافتی سوچ اور زمانہ کا ایک بیان ہے کہ لوگ کیسے دیکھتے ہیں اور کیا سمجھتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو سماجی خوبصورتی نظریہ پاکستان عوامی سطح پر ماتھے کے جھومر کی مانند ہے۔ مگر ماتھے پر یہ جھومر کیسے سجایا جائے ہر فرد کا اپنا انداز بیان ہے۔ جس کے طریقہ کار سے پاکستانی معاشرہ میں اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ مگر اس کے قیام پر اتفاق موجود ہے۔

سماجی سطح پر ایک عیب مجھے بھلا نہ لگا۔ یہ ماتھے کے جھومر پر موجود میل ہے۔ جس کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ عیب یہ ہیں کہ ہم بہت سی سنی سنائی باتوں کو حقیقت سمجھتے ہیں۔ مزید عوام میں ان کو تحقیق کیے بغیر پھیلا دیتے ہیں۔ یوں افواہیں اور غیر معیاری باتیں جنم لینے لگتی ہے۔ اسی سے نفرت اور شر انگیزباتیں معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلتی ہے۔ ایسا ہی انداز معاشرہ کی سوچ کو سیکنڈلائز بناتا ہے۔ آج یہ بات پاکستانی یا کم ترقی یافتہ ممالک کے معاشروں میں عام ہوچلی ہے اور نہایت معمولی عیب سمجھا جاتا ہے۔ مگر غور کیجیے! یہ عیب معاشرہ میں تخریب پھیلاتا ہے۔

دوسری جانب اسلامی معاشرہ، ایسے انداز کی شدت سے روک تھام کرتا ہے۔ جو حقائق پر مبنی نہ ہو۔ لیکن یہاں چیزیں تحقیق کے ساتھ بھی چلی ہے اور کچھ عوامی سطح پر خاصی مشہور مبہم باتیں بھی حقیقت سمجھ لی گئیں۔ خصوصاً قومی حوالے سے تحریر کے حوالے عیب چھپانے کے مترادف نہیں۔ ان کو سامنے آنا چاہیے۔ تاکہ مجھ جیسی نوجوان نسل اپنی تاریخ کی اس تلخ حقیقت کو بھی جان سکے۔

ساتھ ہی یہ اضافہ کرتا چلوں۔ نظریات سمجھنے کا ایک فرق بھی ہوتا ہے۔ دیکھیے ہر مذہب انسانیت کی بات کرتا ہے۔ ہر فرد اپنے اپنے عقیدہ میں خوش ہے۔ جب کسی فرد کو کوئی دوسرا عقیدہ متاثر کرتا ہے تو وہ مذہب تبدیل کر لیتا ہے۔ یہ تبدیلی کا اثر محبت سے آتا ہے، نفرت سے نہیں۔ ایسے ہی ہماری تاریخ کی عہد ساز شخصیات کا آپس میں اختلاف تو ہے مگر وہ قابل نفرت نہیںَ کیونکہ سمجھ کا فرق ہے۔ اگر کانگریسی رہنما نفرت کے بیج اپنے تلخ رویوں سے نہ بوتے تو شاید قائد اعظم پر ان کی حقیقت واضح نہ ہوپاتی۔ یہ سب وسیلے اللہ کی طرف سے بنے اور پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اللہ ہوا۔ محبت، امن اور رواداری کا مذہب۔

میں قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ کی اس سوچ سے متاثر ہوں کہ ان کی ہر بات کی بنیاد اور ابتداء اسلام تھی۔ ان کے پاکستان کے حوالے سے بیشمار خطبات اور تقاریر کو پڑھا۔ سب اللہ کی حاکمیت اعلیٰ، خوف خدا اور اسلامی نظریہ حیات کے ترجمان ہے۔

اب یہ قارئین پر منحصر ہے کہ وہ اس کتابچہ سے کیا اثر قبول کرتے ہیں اور اس کو کیا حیثیت دیتے ہیں۔ میں یہاں گزارش کروں گا کہ نفرتوں کے بیج اگر آپ کو ملیں تو ان کو مت چنیے مگر محبتوں کے بیج اکٹھے کرکے اپنی اور معاشرہ کی زندگی بنائیے اور خیال رکھے، آپ کا نظریہ حیات ہی آپ کا عقیدہ توحید ہے۔ یہی نظریہ پاکستان ہے۔

فرخ نور
یکم جنوری ۲۰۱۲ء
۷ صفر ۱۴۳۴ھ


ہمارے سٹاکسٹ
· کشمیر بک ڈپو تلہ گنگ روڈ چکوال
· رائف اسٹیشنرز، ۳ عمرٹاور، حق سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور
· علم و ادب کتاب گھر، عمر ٹاور، حق سٹریٹ ، اُردو بازار، لاہور

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب