01 November, 2012

سکندراعظم کون؟

مغرب کے نام نہاد مفکرین نے مقدونیہ کے الیگزینڈرکو سکندراعظم کا لقب دیا ہے جو تاریخ کے ساتھ ناانصافی ہے ، اگر تعصب کا عینک ہٹا کرتاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہم یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوں گے کہ دنیا کا سکندراعظم عمربن خطاب رضى الله عنه  ہے۔ الیگزینڈربادشاہ کا بیٹا تھا، دنیا کے بہترین لوگوں نے اس کوگھوڑسواری سکھائی، جب وہ بیس سال کا ہوا تو اس کو تخت وتاج پیش کیا گیا۔ 23سال کی عمر میں مقدونیہ سے نکلا ۔ ایران، شام، یونان، ترکی اورمصر کو فتح کرتے ہوئے ہندوستان پہنچا ۔ 323قبل مسیح 33سال کی عمرمیں انتقال کرگیا ۔ اس کی فتوحات کا عرصہ دس سال پر محیط ہے، ان دس سالوں میں اس نے 17لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا، ان فتوحات میںاس کو آرگنائزڈ آرمی کی خدمات میسرتھیں۔

جبکہ عمرفاروق رضى الله عنه نے دس سالوں میں 22لاکھ مربع میل کا علاقہ بغیرآرگنائزڈ آرمی کے فتح کیا ۔ آپ نے کسی تیرانداز سے تیراندازی نہیں سیکھی۔ آپ کی ان فتوحات میں اس وقت کی دو سپرپاورطاقتیں روم اور ایران بھی ہیں۔  آج سیٹلائٹ میزائل اورآبدوزوں کے دور میں دنیا کے کسی حکمراں کے پاس اتنی بڑی سلطنت نہیں ہے ۔

اس نے صرف فتوحات کیں اور مفتوح علاقوں کو کوئی نظام نہیں دیا بلکہ فتوحات کے دوران بے شمار جرنیل قتل کروائے ، بے شمارجرنیلوںاورنوجوانوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا ۔ جبکہ حضرت عمرفاروق رضى الله عنه کے کسی ساتھی نے ان کی حکم عدولی نہیں کی وہ ایسے عظیم مدبرومنتظم تھے کہ عین میدان جنگ میں اسلام کے مایہ ناز کمانڈرسیدناخالدبن ولیدص کومعزول کردیا اورکسی کو یہ حکم ٹالنے اور بغاوت کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔

 الیگزینڈرنے جو سلطنت بنائی وہ اس کے مرنے کے پانچ سال بعد اس کے نظریے سے نکل گئی اورآج اس کا تاریخ کی کتابوںمیں صرف نام ملتا ہے ۔ حضرت عمرفاروق رضى الله عنه نے جن علاقوں کوفتح کیا وہاں آج بھی سیدنا عمرفاروق کا نظریہ موجود ہے ،دن رات کے پانچ اوقات میںمسجد کے میناروں سے اس نظریے کا اعلان ہوتا ہے ۔ عمرفاروق رضى الله عنه نے دنیا کوایسے سسٹم دئیے جو آج تک دنیا میں موجود ہے ۔ آپ کے عہد میں باجماعت نماز تراویح کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا،آپ کے دورمیں شراب نوشی کی سزا 80 کوڑے مقررہوئی ، سن ہجری کا اجراءکیا، جیل کاتصور دیا، مؤذنوںکی تنخواہیں مقررکیں،مسجدوںمیں روشنی کا بندوبست کروایا،باوردی پولس، فوج اورچھاؤ نیوں کاقیام عمل میں لایا، آپ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواو ں اور بے آسرا لوگوںکے وظائف مقررکئے ۔ آپ نے دنیامیں پہلی بار حکمرانوں، گورنروں، سرکاری عہدے داروںکے اثاثے ڈکلیر کرنے کا تصور دیا ۔ آپ جب کسی کو سرکاری عہدے پر فائز کرتے تھے تواس کے اثاثوںکا تخمینہ لگواکر اپنے پاس رکھ لیتے اوراگرعرصہ ¿ امارت کے دوران عہدہ دار کے اثاثوں میں اضافہ ہوتا تواس کی تحقیق کرتے ۔ جب آپ کسی کوگورنر بناتے تو اس کونصیحت کرتے کہ ترکی گھوڑے پرمت بیٹھنا ، باریک کپڑا مت پہننا،چھنا ہوا آٹا مت کھانا، دروازے پر دربان مت رکھنا ۔
آپ کی مہر پر لکھا ہوا تھا : ”عمر !نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے “۔
یہ وہ سسٹم ہے جس کو دنیا میںکوئی دوسرا شخص متعارف نہ کروا سکا، دنیا کے 245ممالک میںیہ نظام کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے ۔ان حقائق کی روشنی میں زبان وقلم بے اختیار گواہی دیتا ہے کہ دنیا کا سکندر اعظم عمرفاروق رضى الله عنه ہیں۔

آپ کے عدل کی مثال دنیا کے کسی دوسرے حکمراں میں نہیں ملتی ، آپ کے عدل کی یہ حالت تھی کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کی سلطنت کے دوردراز علاقہ کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اورچینخ کربولا: لوگو!حضرت عمرفاروق کا انتقال ہوگیا ہے ۔ لوگوںنے پوچھا : تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں رہتے ہو‘تمہیں کس نے خبردی ؟ چرواہا بولا: جب تک عمر فاروق رضى الله عنه زندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف چرتی پھرتی تھیں ،کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھتا تھا لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھاکر لے گیا ہے ۔ میں نے بھیڑئیے کی جرا ¿ت سے جان لیا کہ آج عمررضى الله عنه دنیا میں نہیں ہیں ۔

مدینہ کے بازارمیں گشت کے دوران ایک موٹے تازے اونٹ پر نظر پڑی ، پوچھا: یہ کس کا اونٹ ہے ؟ بتایا کہ یہ آپ کے صاحبزادے عبداللہ رضى الله عنه  کا ہے ۔ آپ نے گرجدار آواز میں کہا کہ عبداللہ کو فوراً میرے پاس بلاؤ،  جب سیدناعبداللہ رضى الله عنه آئے توپوچھا: عبداللہ! یہ اونٹ تمہارے ہاتھ کیسے لگا؟ عرض کیا : اباجان !یہ اونٹ بڑا کمزورتھا اورمیں نے اس کو سستے داموں خرید کرچراگاہ میںبھیج دیا تاکہ یہ موٹا تازہ ہوجائے اور میں اس کو بیچ کر نفع حاصل کروں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: تمہاراخیال ہوگا کہ لوگ اس کو چراگاہ میں دیکھ کر کہیں گے : یہ امیر المومنین کے بیٹے کا اونٹ ہے، اسے خوب چرنے دو، اس کو پانی پلاو ¿ ، اس کی خدمت کرو۔ سنو! اس کو بیچ کر اصل رقم لے لو اور منافع بیت المال میںجمع کرادو۔ سیدنا عبداللہ رضى الله عنه نے سرتسلیم خم کردیا ۔

امیرالمو منین سیدنا عمر فاروق رضى الله عنه  کے دربار میں ایک نوجوان روتے ہوئے داخل ہوا ۔ آپ نے رونے کی وجہ پوچھی :اس نے روتے روتے عرض کیا کہ میں مصر سے آیا ہوں، وہاں کے گورنر کے بیٹے سے دوڑ کے مقابلے میں جیت گیا تو محمد بن عمروبن عاص  رضى الله عنه نے میری کمر پر کوڑے برسائے جس سے میری کمر چھلنی ہوگئی ۔ وہ کوڑے مارتا رہا اور کہتا رہا کہ تمہاری یہ جرأت کہ سرداروںکی اولاد سے آگے بڑھو۔ آپ نے یہ داستان سننے کے بعد مصر کے گورنر اور ان کے بیٹے کو بلابھیجا، جب وہ آگئے توکہا: یہ ہیں سردار کے بیٹے ، پھرمصری کو کوڑا دیا اور کہا کہ اس کی پیٹھ پرزورسے کوڑے ماروتاکہ اس کو پتہ چلے کہ سرداروںکے بیٹوںکی بے اعتدالیوںپر ان کا کیا حشر ہوتا ہے ۔ اس نوجوان نے جی بھر کر بدلہ لیا ۔ پھر آپ نے فاتح مصرسیدناعمروبن عاصؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
” اے عمرو! تونے لوگوں کو کب سے غلام بنایا ہے جبکہ ان کی ماو ¿ںنے ان کو آزاد جنم دیا ہے ۔“
یہ ہے وہ بے لاگ عدل جس میں قوموں کی عزت اورترقی کا راز پنہاں ہے ۔

آج اسلام پر شبخون مارنے والے یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذمہ دار اسلام ہے ، جبکہ اسلام امن وامان کا داعی ہے، عدل ومساوات کاپیکر ہے اورعروج وترقی اس کی خمیر میں داخل ہے جس پر تاریخی حقائق گواہ ہیں۔ آج اسلام غریب الدیار ہے ،آج اسلام کو عمرکی ضرورت ہے ،اسلام کے غلبہ کے لیے کردار کی اعلی مثالیں درکار ہیں ،آج مسلمان اپنے نفس کے غلام بن کر رہ گئے ہیں اوراپنے رب کو بھول گئے ہیں ،نجات کا واحد راستہ نفس کی غلامی سے نکل کر رب العزت کی رضا مطلوب ومقصود ہے : وَلِلَّہِ العِزَّةُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلمُومِنِینَ (المنافقون 8) ”سنو! عزت توصرف اللہ تعالی اوراس کے رسول اورایمان والوںکے لیے ہے “۔
حافظ حفیظ الرحمن کویت

1 comments:

Anonymous نے لکھا ہے

”اسلام کے غلبہ کے لیے کردار کی اعلی مثالیں درکار ہیں ،آج مسلمان اپنے نفس کے غلام بن کر رہ گئے ہیں اوراپنے رب کو بھول گئے ہیں ،نجات کا واحد راستہ نفس کی غلامی سے نکل کر رب العزت کی رضا مطلوب ومقصود ہے”
مندرجہ بالا الفاظ بلا شبہ آپکی تحریر کا مغز کہے جاسکتے ہیں۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ اآپکی یہ تحریر سونے کے الفاظ میں لکھے جانے کے قابل ہے۔
مغرب سکندر کو اعظم کہے تو کہے لیکن اگر مسلمان محض اس کا معروف حوالہ دینے کی نظر سے اگر اسے سکندر اعظم لکھیں یا بیان کرین تو پھر تو بات سمجھی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر اسے واقعی طور پہ اعظم سمجھیں تو یہ انکی اپنی تاریخ سے لاعلمی اور جہالت کہی جاسکتی ہے۔ واللہ علم ۔

11/01/2012 07:29:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب