19 April, 2005

اور بھی غم ہیں زمانے میں

اتنا ٹوٹ کر بکھر گئے ہیں کہ اب خود کو سمیٹنا مشکل ہو گیا ہے جی چاہتا ہے اس دنیا سے کہیں دور چلے جائیں جہاں سکون ہو، جہاں امن کی فاختائیں بولتی ہوں، جہاں لمحے سرگوشیاں کرتے ہوں، جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں، جہاں کسی زنداں کا خوف نہ ہو، جہاں ماتم نہ ہوتے ہوں، جہاں دل نہ روتے ہوں، جہاں کوئی اپنا نہ ہو، جہاں ہم ہوں صرف ہم ۔۔۔۔۔۔ ! مگر جب خواب آگیں تصورات ٹوٹتے ہیں تو ہم بکھر کر رہ جاتے ہیں۔ آنکھیں خون اگلنے لگتی ہیں، دل سے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں کہ یہ کیسی راتیں ہیں کہ نہ نیند اپنی نہ خواب اپنےکوئی چیز بھی تو ہماری اپنی نہیں، سہارے ہیں تو قدم قدم پر گرنے لگتے ہیں اور یہ کیسے اپنے ہیں کہ ہر طرف تنہائیوں کے میلے ہیں ہم خود کو ایک حصار میں قید محسوس کرتے ہیں لوگ حوصلہ دیتے ہیں ہمدردی کرتے ہیں کہتےہیں کہ ہر رات کی سویر ہے لیکن کون انہیں سمجھائے کہ جن کی راتیں ہی اپنی نہ ان کی بھی کبھی سویر آتی ہے۔
یہاں تو جیون روگ ہے، پچھتاؤں کا کھلا سمندر ہے زندہ انسان زندگی کو ترستا ہے نہ جینا اپنا نہ مرنا اپنا کوئی چیز بھی تو اپنے بس میں نہیں، بے بسی اور بے حسی نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ تم اتنا بتاؤ کہ جنہیں خود سے پیار ہوتا ہے وہ اگر ایک پل بھی خود سے نہ ملیں خود کو آئینے میں نہ دیکھیں تو کیا کیفیت ہوتی ہو گی ان کی ۔۔۔۔ ! اس سال کے ایک ایک مہینے، ایک ایک دن، ایک ایک لمحے کو سوچو ذرا کہ جب ہم نے خود کو نہیں دیکھا خود سے نہیں ملے باوجود اس کے کہ ہمیں خود سے بے انتہا پیار ہےکیونکہ دنیا میں کوئی اپنے جیسا ملا ہی نہیں " ہاں " ایک تم میں اپنا عکس دیکھا تھا۔ تم ہمارا آئینہ ہو، ایک تم ہی تو تھے جسے دیکھ کر ہم زندگی کی سانسیں لیتے تھے مگر جب سے تم روٹھ گئےتب سے ہمارا آئینہ بھی کہیں کھو گیا " سنو " جو تم نہیں نا! تو یہ نا سمجھنا کہ کوئی ہمارا نہیں سب کچھ ہمارا ہے مگر صرف تم نہیں ہو۔ اب ہمیں تمھاری ضرورت بھی نہیں کیونکہ یہ فضائیں ہماری ہیں یہ کائنات ہماری ہے اور ہماری دولت جس سے ہمیں بے انتہا پیار ہے تنہائی ہے یہ سب ہمارے دوست ہیں جو کبھی ہم سے بےوفائی نہیں کرتے ہم نے اب جان لیا ہے کہ
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
تو اتنا بتائیں تم کو کہ اب ہمیں تمھاری محبت کا غم نہیں رہا کتنے دکھ ہمارے معاشرے میں جن پر ہم روتے ہیں کڑھتے رہتے ہیں ان پر، یہاں بھائی بھائی کا دشمن ہے، انسان انسان کی پہچان سے انکاری ہے۔
اگر نقاب الٹ دوں تمام چہروں سے
تو میرے شہر کا اک شخص بھی شریف نہیں
یہاں عزتوں کے لٹیرے ہیں، یہاں چور ڈاکو اور دہشت گرد ہیں، یہاں دھماکے ہوتے ہیں اور پل بھر میں بے گناہ لوگ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، یہاں ہارس ٹریڈنگ ہے، یہاں کرپشن ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی جڑیں اس قدر مضبوط ہیں کہ ثبوت نہیں ملتے، اب بھلا آنکھوں کے اندھوں کو کیا دکھتا ہے دس ہزار تنخواہ لینے والا ایک آفیسر پچاس لاکھ کی کوٹھی میں رہتا ہے اس کے متعلق اور کس قسم کے ثبوت چائییں کیا یہ ثبوت کافی نہیں لیکن کیا کریں کنویں میں بھنگ پڑی ہے حمام میں سبھی تو ننگے ہیں پھر کون کس کو پکڑے گا۔
یہاں سیاستدان ہیں جو راہنما کم راہزن زیادہ ہیں جو وطن عزیز کا نہیں اپنا مفاد سامنے رکھتے ہیں عوام کے خون پسینے کی کمائی سے کروڑوں کی جائدادیں بناتے ہیں اور عیاشی کرتے ہیں لیکن کوئی روکنے والا نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، کروڑوں روپے شاہانہ خرچ کرنے والے ان سیاستدانوں کے اگر گوشوارے چیک کریں جو یہ الیکشن کے موقع پر جمع کراتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ سب کے سب بھیک منگے ہیں، سب ہی زکواة کے مستحق ہیں لیکن رہتے عالیشان بنگلوں میں اور گھومتے قیمتی گاڑیوں میں ہیں۔
یہاں فرعون نما جاگیردار ہیں جو کسی خدائی فوجدار کی طرح جاگیر میں اپنا حکم چلاتے ہیں جو غریب کسانوں اور ہاریوں کی جان و مال اور عزتوں کے لٹیرے ہیں۔ یہاں سرمایہ دار ہیں جو غریب کارکنوں کا پیٹ چاک کر کے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ یہاں جوکر نما جعلی پیراور ملاں ہیں جن کی گذربسر عرسوں کی آمدنی اور تعویزگنڈوں پر ہے، بے عملی، جہالت، بدعت ان کا خاصہ، علم و عمل سے بے بہرہ کفر کے فتوؤں پر مہر ثبت کرتے رہنا ان کا کام ہے۔ مسلمانوں کو مذہب کے نام پر لڑانا ان کا دھرم ہے۔ یہاں قصائی نما ڈاکٹر ہیں جن کو کسی کی غربت، درد، تکلیف اور اذیت کا کوئی احساس نہیں ہوتا انہیں صرف اپنی فیس سے مطلب ہوتا ہے ان کی بلا سے کوئی جئے یا مرے ان کے پانچ سو کھرے! غرض کہاں تک سناؤں ظلم کے یہ فسانے یہاں تو ظلم ہی ظلم ہے، یہاں ایمان بکتے ہیں ضمیر خاموش ہیں، یہاں بےبسی اور بےحسی کی لمبی داستانیں ہیں، یہاں انسان کی قیمت ہی کیا ہے صرف چند کھوٹے سکے۔
یہاں کشمیر ہے جہاں راہ چلتی خواتین، دھول سے اٹی ہوئی ڈارھی والے بزرگوں، سکول جاتے بچوں اور دودھ پیتے نونہالوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ نوجوان لڑکیوں کو سرعام برہنہ کردیا جاتا ہے اور پھر شیطان کی خوشی میں ڈوبی خوفناک چیخیں سنائی دیتی ہیں اس کے بعد صرف ماتم کرتی آہیں اور سسکیاں رہ جاتی ہیں۔
یہاں فلسطین ہے، یہاں عراق ہے، یہاں افغانستان ہے جہاں ظلم و بربریت کی نئی تاریخیں رقم ہو رہی ہیں اور بھی بہت سے دکھ ہیں جو ہمیں آزردہ کر دیتے ہیں " پر " اتنا تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تعصب ہمارا اپنا پھلایا ہوا ہے ہم خود مسلمان ہی بکھر کر رہ گئے ہیں، ہم میں اخلاق اور رواداری نہیں رہی، ہم علاقائی مسئلوں پر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں، ہم مذہبی بنیادوں پر جگھڑتے رہتے ہیں ہم آج بھی پہلے پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچ یا مہاجر ہیں اور بعد میں پاکستانی، ایک سویا ہوا پاکستانی !
ہم قرآن کے بتائے ہوئے سیدھے راستے کو چھوڑ کر شیطانیت کے راستے پر چل پڑے، عریانی و فحاشی کو ہم نے ثقافت اور روشن خیالی کا حسین نام دے کر اپنا لیا، بے حیائی کو ترقی کا زینہ بنا لیا، اس کے باوجود ہم مسلمان ہونے کے دعوے دار ہیں۔ حق بات تو یہ کہ ہم اپنے سچے مذہب سے دور ہو گئے اسی لئے آج ہم پوری دنیا میں ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔ دنیا میں ہم ایک عرب سے زائد مسلمان ہیں لیکن ہیں ان ریت کے ذروں کی طرح جن کو تیز ہوا کسی بھی لمحے اٹھا کر کہیں سے کہیں پھینک دیتی ہے۔

3 comments:

Shaper نے لکھا ہے

nice thoughts ....

4/26/2005 10:08:00 AM
افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

آپ کی نے حالات ک صحیح تصویر کشی کی ہے۔ میں سوچ میں کھو گیا اور الٹے پاؤں چلتے دسمبر 1947 میں پہنچ گیا جب میں ایک دسال کا بچہ اپنے وارثوں کی تلاش میں جموں کشمیر سے پاکستاں پہنچا تھا۔(http://www.zackvision.com/weblog/archives/entry/000528.html)
اور پھر اس سے بھی پیچھے جب میرے دادا کے چار کمسن بھائی انگریز حکمرانوں نے مروا دۓ کہ ہمارے پڑدادا اور ان کے والد نے حکومت انگریزی کا تابع بننے سے انکار کر دیا تھا۔ اور میں چلتا چلا گیا اور دیکھا ک حضرت بلال کو تپتی ریت پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا گیا ہے۔ اور بھی پیچھے میں نے دیکھا ک حضرت سمیعہ کو کفار نے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے اور شکنجہ کسا جا رہا ہے حتی کہ حضرت سمیعہ شہید ہو جاتی ہیں اور اسلام کی پہلی شہید کا رتبہ پاتی ہیں۔۔ پھر صبر کا بند ٹوٹ گیا آنکھیں تر ہو گئیں اور میں مزید کچھ نہ دیکھ سکا۔

میں سوچتا ہوں کیا آج کا پاکستان کسی بھی لحاظ سے ہمارے ماضی کی غماضی کرتا ہے بس سوچتا ہی رہ جاتا ہوں اور کوئی جاب نہیں پاتا۔

4/28/2005 01:12:00 PM
افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

تصحیح کر لیجئے۔ دس سال کا بچہ

4/28/2005 01:15:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب