ہومو سیکس
اردو سروس ڈاٹ نٹ، جرمنی نے ٢٠ مارچ کو اپنی سائٹ پر یہ خبر لگائی ہے پڑھیئے اور اس بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کیجیئے۔
ہالینڈ میں مبینہ طور پر شہریت کے خواہشمندوں کو اب شہریت کی درخواست دینے پر برہنہ فلم دکھائی جاسکتی ہے ۔ ہالینڈ میں پہلے مقامی زبان سیکھنا ضروری تھا تاہم اب شہریت کی درخواست دینے والے مسلمان کو عورت کا برہنہ جسم اور ہومو سیکس مردوں کو بوس و کنار کرتے ہوئے بھی دیکھنا پڑ سکتا ہے۔ ہالینڈ نے مسلمانوں کو اپنے مغربی معاشرے میں ضم کرنے کےلیئے مختلف پروجیکٹ شروع کیئے ہیں جن میں شہریت کی درخواست دینے والے کو ڈی وی ڈی پر ایسی فلم دکھائے جانے کا پروگرام ہے جس میں عورت برہنہ ہوگی یا اس کے نسوانی اعضا، برہنہ دکھائے جائینگے، شہریت کے حصول کی درخواست دینے والے کو ' ہومو سیکس ' مردوں کو آپس میں بوس وکنار کرتے ہوئے بھی دیکھنا پڑیگا، جرمنی کی حکومت کے متعدد رہنماؤں نے ہالینڈ کے اس آئیڈیا کو ایک اچھا منصوبہ قرار دیا ہے، ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو مغربی معاشرے سے روشناس کروانے کےلیئے ایسے منصوبوں پر عمل ہونا چاہیئے۔ اس سے قبل جرمنی کے ایک صوبے ' بادن ووٹن برگ ' نے جرمنی کی شہریت کی درخواست دینے والوں کےلیئے تیس سوال مقرر کئیے تھے جس میں ایسے سوالات بھی شامل ہیں جن کے بارے میں ایک مسلمان عام زندگی میں سوچ بھی نہیں سکتا جرمنی کے ایک اور سوبے ہیسن کی حکومت نے شہریت کی درخواست دینے والوں کےلیئے جو سوالات بنائے ہیں ان کی تعداد ایک سو ہے اس سے قبل فرانس نے مسلمان عورتوں کا سر پر سکارف لینا ممنوع قرار دے دیا تھا ادھر جرمن حکومت کی اتحادی جماعت ایس پی ڈی نے غیر ملکیوں کےلیئے سوالات والا سسٹم اور دیگر تمام ایسے منصوبوں کو قطعی غلط قرار دے دیا ہے۔
حکومت کی اتحادی جماعت ایس پی ڈی جو سابق حمکران جماعت رہی ہے کا کہنا ہے کہ غیر ملکیوں خصوصا مسلمانوں کےلیئے ایسے سوالات ہتک آمیز ہیں، حکومت اور اتحادی جماعت ایس پی ڈی میں غیر ملکیوں کے بارے میں اختلافات سامنے آئے ہیں، حکمران جماعت کے ایک سیاسی رہمنا کا کہنا ہے کہ جرمنی سے پچیس فیصد مسلمانوں کو ان کے ممالک بھیج دیا جائے گا، تاہم ایک بات طے ہے کہ اب یورپ میں مسلمانوں کو بہت سے مسائل کا سامناکرنا پڑے گا خصوصا شہریت کے حصول کےلیئے انہیں ایسے سوالات کا جواب دینا ہوگا جس کو مسلمان اپنے مذہبی حقوق کی پامالی سمجھتے ہیں، جرمنی کی مسلم تنظیموں ایسے منصوبوں کے بارے میں عدالت سے رجوع کرنے کا کہا ہے
ہالینڈ میں مبینہ طور پر شہریت کے خواہشمندوں کو اب شہریت کی درخواست دینے پر برہنہ فلم دکھائی جاسکتی ہے ۔ ہالینڈ میں پہلے مقامی زبان سیکھنا ضروری تھا تاہم اب شہریت کی درخواست دینے والے مسلمان کو عورت کا برہنہ جسم اور ہومو سیکس مردوں کو بوس و کنار کرتے ہوئے بھی دیکھنا پڑ سکتا ہے۔ ہالینڈ نے مسلمانوں کو اپنے مغربی معاشرے میں ضم کرنے کےلیئے مختلف پروجیکٹ شروع کیئے ہیں جن میں شہریت کی درخواست دینے والے کو ڈی وی ڈی پر ایسی فلم دکھائے جانے کا پروگرام ہے جس میں عورت برہنہ ہوگی یا اس کے نسوانی اعضا، برہنہ دکھائے جائینگے، شہریت کے حصول کی درخواست دینے والے کو ' ہومو سیکس ' مردوں کو آپس میں بوس وکنار کرتے ہوئے بھی دیکھنا پڑیگا، جرمنی کی حکومت کے متعدد رہنماؤں نے ہالینڈ کے اس آئیڈیا کو ایک اچھا منصوبہ قرار دیا ہے، ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو مغربی معاشرے سے روشناس کروانے کےلیئے ایسے منصوبوں پر عمل ہونا چاہیئے۔ اس سے قبل جرمنی کے ایک صوبے ' بادن ووٹن برگ ' نے جرمنی کی شہریت کی درخواست دینے والوں کےلیئے تیس سوال مقرر کئیے تھے جس میں ایسے سوالات بھی شامل ہیں جن کے بارے میں ایک مسلمان عام زندگی میں سوچ بھی نہیں سکتا جرمنی کے ایک اور سوبے ہیسن کی حکومت نے شہریت کی درخواست دینے والوں کےلیئے جو سوالات بنائے ہیں ان کی تعداد ایک سو ہے اس سے قبل فرانس نے مسلمان عورتوں کا سر پر سکارف لینا ممنوع قرار دے دیا تھا ادھر جرمن حکومت کی اتحادی جماعت ایس پی ڈی نے غیر ملکیوں کےلیئے سوالات والا سسٹم اور دیگر تمام ایسے منصوبوں کو قطعی غلط قرار دے دیا ہے۔
حکومت کی اتحادی جماعت ایس پی ڈی جو سابق حمکران جماعت رہی ہے کا کہنا ہے کہ غیر ملکیوں خصوصا مسلمانوں کےلیئے ایسے سوالات ہتک آمیز ہیں، حکومت اور اتحادی جماعت ایس پی ڈی میں غیر ملکیوں کے بارے میں اختلافات سامنے آئے ہیں، حکمران جماعت کے ایک سیاسی رہمنا کا کہنا ہے کہ جرمنی سے پچیس فیصد مسلمانوں کو ان کے ممالک بھیج دیا جائے گا، تاہم ایک بات طے ہے کہ اب یورپ میں مسلمانوں کو بہت سے مسائل کا سامناکرنا پڑے گا خصوصا شہریت کے حصول کےلیئے انہیں ایسے سوالات کا جواب دینا ہوگا جس کو مسلمان اپنے مذہبی حقوق کی پامالی سمجھتے ہیں، جرمنی کی مسلم تنظیموں ایسے منصوبوں کے بارے میں عدالت سے رجوع کرنے کا کہا ہے
4 comments:
افسوس! اور غصہ!
3/21/2006 11:25:00 PMسادہ ترین الفاظ میں
همارے معاشرے ميں سيكس كو كچهـ ذياده هى شجر ممنوعه بنا دياگيا هے ـ
3/22/2006 02:36:00 AMايكـ خاص عمر كو پەنچ كر ايكـ حد تكـ سيكس كا علم بهى ايكـ معاشرتى ضرورت هوتى هے ـ
مثال كے طور پر هر عورت كے ماهوارى اتى هے ـ كيا همارے معاشرے ميں ايكـ بچى كو ماهوارى شروع هونے سے پەلے كيا ذەنى طور پر تيار كيا جاتا هے كه اس نے اپنا خون كيسے سنبهالنا هے؟؟
يا ايكـ بچے كو اپنے ناف كے نيچے كے بالوں كى صفائى اور احتلام كے متعلق كيسے بتايا جاتاهے؟؟
اسى طرح كے كئى اور مسائل سے كبوتر كى طرح انكهيں بند كرلينا اور مشرقى اقدار كے نام پر نابالغوں جيسا رويه كياهے؟؟؟
مشرقى اقدار ؟
كاما سوترا بهى خاص مشرق كى هى تو پيدائش هے ـ
جب آپ کسی ملک کی شہریت حاصل کرتے ہیں تو ایک حلف نامہ داخل کرتے ہیں جن میں آپ اس ملک کے کلچر اور قوانین کے بارے میں آگاہی رکھنے کا حلف شامل کرتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کو ہم جنسوں کی شادی یا ان کے بوس و کنار پر اعتراض ہے تو وہ یہ مناظر ان ممالک میں بارہا دیکھیں گے۔ عورتوں کے برہنہ جسم دیکھنے پر تو میرا نہیں خیال کے کسی بھی مسلمان کو کوئی اعتراض ہوگا۔ تاہم عورتوں کی پٹائی خاندانی منصوبہ بندی بچوں پر تشدد کے حوالے سے جو سوالات انہیں پیش کئے جارہے ہیں ان میں اسلام دشمنی کا پہلو نہیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ وہ اب اپنے ملکوں میں ایسے لوگ نہیں دیکھنا چاہتے جو وہاں رہتے ہیں کھاتے ہیں پیتے ہیں ساری آزادیاں اور سہولتیں انجوائے کرتے ہیں اور درون خانہ شرعیت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کو ایسا ہی اعتراض ہے تو انہیں چاہءیے کہ اپنے ملکوں میں رہیں۔ اور وہاں جیسی چاہے زندگی گذاریں۔
3/22/2006 02:07:00 PMخاور صاحب آپ تو ہندو کلچر کو پاکستانی کلچر نہیں سمجھتے پھر کاماسترا کی مثال چہ معنی دارد؟ ہندوستان میں پچھلے دس سالوں سے جنسی تعلیم فروغ پارہی ہے وہ ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی ہم سے کافی آگے نکل گئے ہیں۔
اگر میں ایک ملک میں جا کر ان کا حصہ بننا چاہتا ہوں تو مجھے ان کے قوانین کو لازماً فالو کرنا ہوگا۔ وہ لوگ آپ کو ہم جنسی پر مجبور تو نہیں کر رہے نا؟ یا پھر آپ کا ایمان اتنا کمزور ہے کہ دو مردوں کو بوس و کنار کرتے دیکھ کر آپ پھسل جائیں گے؟ اگر مجھے اس قانون پر اعتراض ہے تو میں اس ملک میں جاؤں ہی کیوں؟ اگر غیر ملکیوں کو ہمارے ملک میں آنے پر مساجد میں جسم ڈھانپ کر داخل ہونا پڑے یا سعودی عرب میں غیر مسلم خواتین کو ایک طرح سے برقعہ پہننا پڑے، مقدس مقامات پر ان کی رسائی کو ختم کر دیا جائے تو وہ سب ٹھیک ہے نا؟ بھائی میرے تالی ایک ہاتھ سے بجتی ہے۔ اگر ہمارے ہاں یا مصر میں عیسائیوں پر حملہ ہوتا ہے تو اس پر ہم خاموش رہتے ہیں۔ کسی غیر مسلم ملک میں ایک مسلمان پر حملہ ہو جائے تو اس پر ہمیں غصہ آجاتا ہے نا؟ دو رخی کیوں؟ نا انصافی تو نا انصافی ہے۔ تاہم یہ میرا ذاتی خیال ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں
10/16/2011 05:50:00 PMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔