21 March, 2006

ہومو سیکس

اردو سروس ڈاٹ نٹ، جرمنی نے ٢٠ مارچ کو اپنی سائٹ پر یہ خبر لگائی ہے پڑھیئے اور اس بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کیجیئے۔

ہالینڈ میں مبینہ طور پر شہریت کے خواہشمندوں کو اب شہریت کی درخواست دینے پر برہنہ فلم دکھائی جاسکتی ہے ۔ ہالینڈ میں پہلے مقامی زبان سیکھنا ضروری تھا تاہم اب شہریت کی درخواست دینے والے مسلمان کو عورت کا برہنہ جسم اور ہومو سیکس مردوں کو بوس و کنار کرتے ہوئے بھی دیکھنا پڑ سکتا ہے۔ ہالینڈ نے مسلمانوں کو اپنے مغربی معاشرے میں ضم کرنے کےلیئے مختلف پروجیکٹ شروع کیئے ہیں جن میں شہریت کی درخواست دینے والے کو ڈی وی ڈی پر ایسی فلم دکھائے جانے کا پروگرام ہے جس میں عورت برہنہ ہوگی یا اس کے نسوانی اعضا، برہنہ دکھائے جائینگے، شہریت کے حصول کی درخواست دینے والے کو ' ہومو سیکس ' مردوں کو آپس میں بوس وکنار کرتے ہوئے بھی دیکھنا پڑیگا، جرمنی کی حکومت کے متعدد رہنماؤں نے ہالینڈ کے اس آئیڈیا کو ایک اچھا منصوبہ قرار دیا ہے، ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو مغربی معاشرے سے روشناس کروانے کےلیئے ایسے منصوبوں پر عمل ہونا چاہیئے۔ اس سے قبل جرمنی کے ایک صوبے ' بادن ووٹن برگ ' نے جرمنی کی شہریت کی درخواست دینے والوں کےلیئے تیس سوال مقرر کئیے تھے جس میں ایسے سوالات بھی شامل ہیں جن کے بارے میں ایک مسلمان عام زندگی میں سوچ بھی نہیں سکتا جرمنی کے ایک اور سوبے ہیسن کی حکومت نے شہریت کی درخواست دینے والوں کےلیئے جو سوالات بنائے ہیں ان کی تعداد ایک سو ہے اس سے قبل فرانس نے مسلمان عورتوں کا سر پر سکارف لینا ممنوع قرار دے دیا تھا ادھر جرمن حکومت کی اتحادی جماعت ایس پی ڈی نے غیر ملکیوں کےلیئے سوالات والا سسٹم اور دیگر تمام ایسے منصوبوں کو قطعی غلط قرار دے دیا ہے۔
حکومت کی اتحادی جماعت ایس پی ڈی جو سابق حمکران جماعت رہی ہے کا کہنا ہے کہ غیر ملکیوں خصوصا مسلمانوں کےلیئے ایسے سوالات ہتک آمیز ہیں، حکومت اور اتحادی جماعت ایس پی ڈی میں غیر ملکیوں کے بارے میں اختلافات سامنے آئے ہیں، حکمران جماعت کے ایک سیاسی رہمنا کا کہنا ہے کہ جرمنی سے پچیس فیصد مسلمانوں کو ان کے ممالک بھیج دیا جائے گا، تاہم ایک بات طے ہے کہ اب یورپ میں مسلمانوں کو بہت سے مسائل کا سامناکرنا پڑے گا خصوصا شہریت کے حصول کےلیئے انہیں ایسے سوالات کا جواب دینا ہوگا جس کو مسلمان اپنے مذہبی حقوق کی پامالی سمجھتے ہیں، جرمنی کی مسلم تنظیموں ایسے منصوبوں کے بارے میں عدالت سے رجوع کرنے کا کہا ہے

4 comments:

Anonymous نے لکھا ہے

افسوس! اور غصہ!
سادہ ترین الفاظ میں

3/21/2006 11:25:00 PM
خاور کھوکھر نے لکھا ہے

همارے معاشرے ميں سيكس كو كچهـ ذياده هى شجر ممنوعه بنا دياگيا هے ـ
ايكـ خاص عمر كو پەنچ كر ايكـ حد تكـ سيكس كا علم بهى ايكـ معاشرتى ضرورت هوتى هے ـ
مثال كے طور پر هر عورت كے ماهوارى اتى هے ـ كيا همارے معاشرے ميں ايكـ بچى كو ماهوارى شروع هونے سے پەلے كيا ذەنى طور پر تيار كيا جاتا هے كه اس نے اپنا خون كيسے سنبهالنا هے؟؟
يا ايكـ بچے كو اپنے ناف كے نيچے كے بالوں كى صفائى اور احتلام كے متعلق كيسے بتايا جاتاهے؟؟
اسى طرح كے كئى اور مسائل سے كبوتر كى طرح انكهيں بند كرلينا اور مشرقى اقدار كے نام پر نابالغوں جيسا رويه كياهے؟؟؟
مشرقى اقدار ؟
كاما سوترا بهى خاص مشرق كى هى تو پيدائش هے ـ

3/22/2006 02:36:00 AM
Noumaan نے لکھا ہے

جب آپ کسی ملک کی شہریت حاصل کرتے ہیں تو ایک حلف نامہ داخل کرتے ہیں جن میں آپ اس ملک کے کلچر اور قوانین کے بارے میں آگاہی رکھنے کا حلف شامل کرتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کو ہم جنسوں کی شادی یا ان کے بوس و کنار پر اعتراض ہے تو وہ یہ مناظر ان ممالک میں بارہا دیکھیں گے۔ عورتوں کے برہنہ جسم دیکھنے پر تو میرا نہیں خیال کے کسی بھی مسلمان کو کوئی اعتراض ہوگا۔ تاہم عورتوں کی پٹائی خاندانی منصوبہ بندی بچوں پر تشدد کے حوالے سے جو سوالات انہیں پیش کئے جارہے ہیں ان میں اسلام دشمنی کا پہلو نہیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ وہ اب اپنے ملکوں میں ایسے لوگ نہیں دیکھنا چاہتے جو وہاں رہتے ہیں کھاتے ہیں پیتے ہیں ساری آزادیاں اور سہولتیں انجوائے کرتے ہیں اور درون خانہ شرعیت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کو ایسا ہی اعتراض ہے تو انہیں چاہءیے کہ اپنے ملکوں میں رہیں۔ اور وہاں جیسی چاہے زندگی گذاریں۔

خاور صاحب آپ تو ہندو کلچر کو پاکستانی کلچر نہیں سمجھتے پھر کاماسترا کی مثال چہ معنی دارد؟ ہندوستان میں پچھلے دس سالوں سے جنسی تعلیم فروغ پارہی ہے وہ ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی ہم سے کافی آگے نکل گئے ہیں۔

3/22/2006 02:07:00 PM
Unknown نے لکھا ہے

اگر میں ایک ملک میں جا کر ان کا حصہ بننا چاہتا ہوں تو مجھے ان کے قوانین کو لازماً فالو کرنا ہوگا۔ وہ لوگ آپ کو ہم جنسی پر مجبور تو نہیں کر رہے نا؟ یا پھر آپ کا ایمان اتنا کمزور ہے کہ دو مردوں کو بوس و کنار کرتے دیکھ کر آپ پھسل جائیں گے؟ اگر مجھے اس قانون پر اعتراض ہے تو میں اس ملک میں جاؤں ہی کیوں؟ اگر غیر ملکیوں کو ہمارے ملک میں آنے پر مساجد میں جسم ڈھانپ کر داخل ہونا پڑے یا سعودی عرب میں غیر مسلم خواتین کو ایک طرح سے برقعہ پہننا پڑے، مقدس مقامات پر ان کی رسائی کو ختم کر دیا جائے تو وہ سب ٹھیک ہے نا؟ بھائی میرے تالی ایک ہاتھ سے بجتی ہے۔ اگر ہمارے ہاں یا مصر میں عیسائیوں پر حملہ ہوتا ہے تو اس پر ہم خاموش رہتے ہیں۔ کسی غیر مسلم ملک میں ایک مسلمان پر حملہ ہو جائے تو اس پر ہمیں غصہ آجاتا ہے نا؟ دو رخی کیوں؟ نا انصافی تو نا انصافی ہے۔ تاہم یہ میرا ذاتی خیال ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں

10/16/2011 05:50:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب