17 July, 2006

بونٹ بند

٥٥ برس کی
کینڈا میں ایک شخص ایک نوجوان کا انٹرویو لے رہا تھا جو ان کی بیٹی کا رشتہ مانگنے آیا تھا۔ نوجوان کے ضروری کوائف حاصل کرنے کے بعد اس شخص نے اسے مطلع کیا۔
‘میری تین بیٹیاں ہیں اور میں چاہوں گا کہ جب وہ یہاں سے بیاہ کر جائیں تو خوشحال زندگی گزرایں۔ اس مقصد کے لئے میں نے اپنے دامادوں کو تحفے میں دینے کے خاطر کچھ رقم مختص کر رکھی ہے۔ میری چھوٹی بیٹی جو ٢٥ سال کی ہے، جو اس سے شادی کرے گا اسے تحفے میں پانچ ہزار ڈالرز ملیں گے۔ دوسری جو ٣٥ سال کی ہے، جو اس سے شادی کرے گا اسے دس ہزار ڈالرز ملیں گے۔ تیسری جو ٤٥ سال کی ہے، اسے جو اپنائے گا اسے بیس ہزار ڈالرز ملیں گے۔ اب انتخاب تم کو کرنا ہے‘
نوجوان نے للچا دینے والا بیان سن کر خلا میں گھورنے لگا۔
‘بڑے میاں نے اس سے پوچھا۔ ‘کیا سوچ رہے ہو؟‘
نوجوان نے جواب دیا۔ ‘سر! میں سوچ رہا ہوں کہ ۔۔۔۔آپ کے ہاں کوئی ٥٥ برس کی نہیں ہو گی؟‘




وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے۔۔
ایک عورت کو فیشن کا بہت شوق تھا۔ ایک دفعہ اس نے کانوں میں پہننے کے لئے سونے کی بھاری وزن کی بالیاں بنوائیں اور پورے محلے کو دکھاتی پھرتی رہی۔ ‘بہن رضیہ دیکھو میں نے سونے کی بالیاں بنوائی ہیں۔‘
‘اچھی ہیں۔‘ رضیہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
اس عورت کو تسلی بخش توصیفی جواب نہ ملا تو وہ پریشان ہوئی، جسے وہ سونے کیا بالیاں دکھاتی تو کوئی بھی اس کی تعریف نہ کرتا۔ رات بھر وہ اسی پریشانی میں رہی کہ میں نے اتنی رقم سے سونے کی بالیاں بنوائی ہیں لیکن کسی نے بھی تعریف نہیں کی۔ حتٰی کہ بعض نے دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔ اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی، صبح ہوئی تو اس نے پورے گھر کو مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی اور خود صحن میں چارپائی پر بیٹھ کر بین کرنے لگی۔
کچھ ہی دیر بعد پورا محلہ اکٹھا ہو گیا۔ محلے کی عورتیں آئی اور ہمدردی جتانے لگیں۔ ایک نے کہا ‘بہن تمھارا سارا مکان جل گیا ہے تمھاری کوئی چیز بھی نہیں بچی؟‘
اس پر اس عورت نے ٹھنڈی آہ بھری اور کانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ‘بس یہ سونے کی بالیاں بچی ہیں۔‘




وجہ تسمیہ
آپریشن کے بعد ہوش میں آنے پر ادھیڑ عمر مریض نے نرس سے کہا۔ ‘ابھی تھوڑی دیر پہلے میرا خیال تھا کہ میں مر چکا ہوں، مگر کچھ غور کرنے پر مجھے پتا چلا کہ میں زندہ ہوں۔‘
‘آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ آپ زندہ ہیں؟‘ نرس نے پوچھا۔
‘مجھے اپنے پیر یخ محسوس ہورہے تھے‘ مریض نے جواب دیا۔ ‘میں نے سوچا کہ اگر میں جہنم میں ہوں تو میرے پاؤں ٹھنڈے نہیں ہونے چاہئیں۔ پھر تھوڑی دیر بعد مجھے اپنی بیوی کی آواز سنائی دی تو میں نے سوچا کہ بیوی یہاں موجود ہے تو اس کا مطلب ہے کہ میں جنت میں بھی نہیں ہوں۔ بس ثابت ہوا کہ میں زندہ ہوں۔‘




ہائے انگریزی
برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلئیر نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں ‘Tomorrow‘ کے سپیلنگ آج تک نہیں آئے۔ ٹونی کا یہ اعتراف اس بات کا ثبوت ہے کہ انگریزوں کی بھی انگریزی نہیں آتی۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ ‘ٹونی صاحب صرف‘آج‘ پر نظر رکھتے ہیں اس لئے انہیں ‘Tomorrow‘ یاد نہیں رہتا۔‘ میں نے میاں صاحب سے پوچھا کہ ‘Tomorrow‘ تو کل کو کہتے ہیں ۔۔۔ ‘پرسوں‘ کو کیا کہتے ہیں؟‘
تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولے ‘Tomorrow کے اوپر ایک اور مارو‘
انگریزی بولنے میں بعض لوگ بڑی مہارت رکھتے ہیں، اپنے خان صاحب کی مثال سامنے ہے، ایسی ایسی انگریزی بناتے ہیں کہ بعد خود بھی دنگ رہ جاتے ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی انگریزی کے چند نمونے ملاحظہ کیجیئے۔
سینما پر فلم چل رہی ہے ۔۔۔Film is walking on the cinima
وہ بڑے دل گردے کا آدمی ہے ۔۔۔ He is a man of big heart and kidney
بل پر تاریخ ڈالو ۔۔۔ Put the history on the bill
وہ الو کا پٹھا ہے ۔۔۔ He is muscle of owl
مزا آ گیا ۔۔۔ The Taste has come
سردا ۔۔۔ Colda
گرما ۔۔۔ Hota
وہ میری نواسی ہے ۔۔۔ She is my 89
جاپانی (جا۔۔۔پانی) ۔۔۔ Go water
چینی بہت خوبصورت ہوتے ہیں ۔۔۔ suggers are very beautifull
عورت، مرد اور ہیجڑا ۔۔۔ He. She. It
میرا سر نہ کھاؤ ۔۔۔ Dont eat my head
سرخرو (سرخ روح) ۔۔۔ Red spirit
میری بیوی آپ کے لئے پانی بنا رہی ہے ۔۔۔ My wife is making water for you
لالو کھیت ۔۔۔ Lalu Field
بھائی پھیرو ۔۔۔ Brothers Circle
خوف ناک ۔۔۔ Afraid nose
وہ ایک میراثی ہے ۔۔۔ He is a singer
میری بیوی مجھے روزانہ دو انڈے دیتی ہے ۔۔۔ My wife is laying me two eggs daily
جا ۔۔۔۔ جاوے جا، جھوٹیا ۔۔۔ Go, Go and go lier
جان شیر ۔۔۔ Life Lion
آگ کا راستہ ۔۔۔ Nor way
دروازہ مارو ۔۔۔ Kill the door




مہنگا دماغ
لندن کی ایک دکان میں مختلف قوموں کے افراد کے دماغ فروخت ہوتے تھے، ایک سردار جی وہاں جا پہنچے اور مسلمان کے دماغ کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔ ‘کتنے کا ہے؟‘
‘سو پاؤنڈ کا‘ جواب آیا۔
پھر پوچھا ‘یہ عیسائی کا دماغ کتنے کا ہے؟‘
جواب ملا ‘دو سو پاؤنڈ کا‘
اب سردار جی پوچھا ‘اچھا تو یہ سکھ کا دماغ کتنا قیمتی ہے؟‘
دکاندار نے کہا ‘دو ہزار پاؤنڈ کا۔‘
سردار کے دماغ کی اتنی قیمت سن کر سردار جی بہت خوش ہوئے۔ فخر کے احساسات کو چھپاتے ہوئے بولے۔
‘سکھ کا دماغ اتنا قیمتی کیوں؟‘
جواب ملا۔ ‘ایک مسلمان کے دماغ کے چار دماغ بن جاتے ہیں، لیکن بیس سکھوں کی کھوپریوں سے ایک دماغ بمشکل بنتا ہے، اس لئے یہ اتنا مہنگا ہے۔

4 comments:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

اُردو انگريزی سے زيادہ وسيع زبان ہے ۔ يہ الگ بات ہے کہ ہماری نالائقيوں کی وجہ سے اُردو پہلے سے بھی کم رہ گئی ہے ۔ مثال کے طور پر مندرجہ فقرے کا ترجمہ انگريزی ميں نہيں ملتا
ميرا سر نہ کھاء

7/17/2006 07:26:00 AM
Anonymous نے لکھا ہے

مہنگا دماغ والا لطیفہ مجھے اچھا نہیں لگا!!!

7/17/2006 02:24:00 PM
Attiq-ur-Rehman نے لکھا ہے

غالب کا شعر ہے۔
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس مرض کی دوا کیا ہے
انگریزی ترجمہ:
Oh ! stupid heart what is happen to you
Atleast ! what is the medicine of this pain
نوٹ: یہ ترجمہ مستنصر حسین تارڑ نے کیا ہے۔

7/17/2006 09:49:00 PM
REHAN نے لکھا ہے

Good

7/18/2006 12:27:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب