03 November, 2006

مر گیا

دکھ تو نہیں کہ تنہا مسافت میں مر گیا
اچھا ہوا میں تیری رفاقت میں مر گیا
حاکم خود اپنے عہد حکومت میں مر گیا
زندہ وہی رہا جو بغاوت میں مر گیا
کچھ نفرتوں کی نذر ہوا میرا یہ وجود
باقی جو بچ گیا تھا محبت میں مر گیا
مجھ کو کبھی حصار میں کب لے سکا کوئی
میں اس لئے بس اپنی حراست میں مر گیا
اب تو یہ بات تم کو بہت ناگوار ہے
لیکن اگر کبھی میں حقیقت میں مر گیا
اس کی محبتوں کا رضی ذکر کیا کروں
اتنا سکوں ملا کہ اذیت میں مر گیا

رضی الدین رضی

2 comments:

میرا پاکستان نے لکھا ہے

اس سے پہلے ہم نے بھی ایک غزل اپنی سائٹ پر چھاپی تھی۔ یہ غزل بھی اسی خیال کی عکاسی لگتی ہے۔ اب پتہ نہیں کس نے کس کا خیال چرایا ہے۔
وہ غزل یہاں پر ہے

http://www.mypakistan.com/?p=366

11/03/2006 08:13:00 PM
Unknown نے لکھا ہے

جی بلکل افضل صاحب اس سے پہلے جب میں یہ غزل پڑھ رہا رہا تو میرے ذہن میں بھی کچھ ایسا ہی خیال تھا کہ یہ غزل یا ایسی غزل کہیں پڑھ چکا ہوں مگر واضح نہیں ہو رہا تھا آپ کا تبصرہ پڑھ کر واضح ہو گیا ہے، بہرحال کسی نے تو یہ زحمت گوارہ کی ہے۔

11/04/2006 12:17:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب