مر گیا
دکھ تو نہیں کہ تنہا مسافت میں مر گیا
اچھا ہوا میں تیری رفاقت میں مر گیا
حاکم خود اپنے عہد حکومت میں مر گیا
زندہ وہی رہا جو بغاوت میں مر گیا
کچھ نفرتوں کی نذر ہوا میرا یہ وجود
باقی جو بچ گیا تھا محبت میں مر گیا
مجھ کو کبھی حصار میں کب لے سکا کوئی
میں اس لئے بس اپنی حراست میں مر گیا
اب تو یہ بات تم کو بہت ناگوار ہے
لیکن اگر کبھی میں حقیقت میں مر گیا
اس کی محبتوں کا رضی ذکر کیا کروں
اتنا سکوں ملا کہ اذیت میں مر گیا
اچھا ہوا میں تیری رفاقت میں مر گیا
حاکم خود اپنے عہد حکومت میں مر گیا
زندہ وہی رہا جو بغاوت میں مر گیا
کچھ نفرتوں کی نذر ہوا میرا یہ وجود
باقی جو بچ گیا تھا محبت میں مر گیا
مجھ کو کبھی حصار میں کب لے سکا کوئی
میں اس لئے بس اپنی حراست میں مر گیا
اب تو یہ بات تم کو بہت ناگوار ہے
لیکن اگر کبھی میں حقیقت میں مر گیا
اس کی محبتوں کا رضی ذکر کیا کروں
اتنا سکوں ملا کہ اذیت میں مر گیا
رضی الدین رضی
2 comments:
اس سے پہلے ہم نے بھی ایک غزل اپنی سائٹ پر چھاپی تھی۔ یہ غزل بھی اسی خیال کی عکاسی لگتی ہے۔ اب پتہ نہیں کس نے کس کا خیال چرایا ہے۔
11/03/2006 08:13:00 PMوہ غزل یہاں پر ہے
http://www.mypakistan.com/?p=366
جی بلکل افضل صاحب اس سے پہلے جب میں یہ غزل پڑھ رہا رہا تو میرے ذہن میں بھی کچھ ایسا ہی خیال تھا کہ یہ غزل یا ایسی غزل کہیں پڑھ چکا ہوں مگر واضح نہیں ہو رہا تھا آپ کا تبصرہ پڑھ کر واضح ہو گیا ہے، بہرحال کسی نے تو یہ زحمت گوارہ کی ہے۔
11/04/2006 12:17:00 PMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔