احمد خان طارق
احمد خان طارق سرائیکی وسیب کا نمائندہ اور تخلیق کار ہے۔ جاگیردرانہ ماحول کا یہ باسی کچلی ہوئی انسانیت کے دکھ درد کی بھرپور عکاسی کرتا نطر آتا ہے۔ ان کے کلام میں نعرہ بازی، پھکڑ پن اور نام نہاد انقلاب کی بات نہیں بلکہ اس میٹھے کرب کا اظہار ہے جس سے صدیوں کی غلامی کی وجہ سے حسِ احتجاج تقریبا ختم سی ہو گئی ہے۔ کھوسہ قبیلے سے تعلق رکھنے والا یہ بلوچ آسان زندگی اور وہ بھی ‘ٹاہلی دی چھاں تلے‘ گزارنے کا خواہش مند ہے، حالانکہ اسے بخوبی علم ہے کہ یہ سایہ بھی اسے حقیقی سکون نہیں بخش رہا۔ ‘ماندی چھاں‘ کا شکوہ ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔
احمد خان طارق حقیقتاَ عشق و محبت کا آدمی ہے۔ خلوص و نیاز مندی ہر حرف سے ٹپکتی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنے خیال سے ایک بے قرار وجود کو مجسم کر دیا ہے۔
انہوں اضطراب و بے قراری کا اظہار نہ صرف ڈوہرے میں کیا بلکہ اسے اپنے رس بھرے گیتوں میں بھی خوب استعمال کیا۔
اسی طرز کی بے قراری کا ایک اور شعر بھی ملاحظہ کیجیئے۔
احمد خان طارق سرائیکی وسیب کے کلچر کا شاعر ہے۔ بیٹ، ٹاہلی، کاہاں، سر، کاں، گاج، بانگاں یہ سب ہماری وسیبی مزاج کی باتیں ہیں۔ وہ مقامی ثقافت کے کامیاب مصور ہیں۔
مستقبل کے حوالے سے وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے۔
اساں کیہل فقیر ہمسائے تیڈے
تیڈے ناں دی چھاں تے پئے ہیں
تیڈے چنتے چوڑھے مترلگن
متراں دی چھاں تے پئے ہیں
تیڈی مونجھ دی گھر دی ٹاہلی ہے
من بھاندی چھاں تے پئے ہیں
پر طارق جھٹ محسوس تھیندے
کہیں ماندی چھاں تے پئے ہیں
تیڈے ناں دی چھاں تے پئے ہیں
تیڈے چنتے چوڑھے مترلگن
متراں دی چھاں تے پئے ہیں
تیڈی مونجھ دی گھر دی ٹاہلی ہے
من بھاندی چھاں تے پئے ہیں
پر طارق جھٹ محسوس تھیندے
کہیں ماندی چھاں تے پئے ہیں
احمد خان طارق حقیقتاَ عشق و محبت کا آدمی ہے۔ خلوص و نیاز مندی ہر حرف سے ٹپکتی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنے خیال سے ایک بے قرار وجود کو مجسم کر دیا ہے۔
اج قاصد گونگا بن کے ونج
مونہو نہ الوائیں، مونجھ ڈسائیں
مونہو نہ الوائیں، مونجھ ڈسائیں
انہوں اضطراب و بے قراری کا اظہار نہ صرف ڈوہرے میں کیا بلکہ اسے اپنے رس بھرے گیتوں میں بھی خوب استعمال کیا۔
سوئیاں دھاگے پھولے اُچھلاں
مندری کان تعویز لکھانواں
ڈاج کھندانواں سندرے پھولاں
مندری کان تعویز لکھانواں
ڈاج کھندانواں سندرے پھولاں
اسی طرز کی بے قراری کا ایک اور شعر بھی ملاحظہ کیجیئے۔
جوسی سڈا جھترے پُھلا
گل باہیں وچ تعویز پا
در تے سدا دھوئیں
دُکھا حرمل دے پُک
گل باہیں وچ تعویز پا
در تے سدا دھوئیں
دُکھا حرمل دے پُک
احمد خان طارق سرائیکی وسیب کے کلچر کا شاعر ہے۔ بیٹ، ٹاہلی، کاہاں، سر، کاں، گاج، بانگاں یہ سب ہماری وسیبی مزاج کی باتیں ہیں۔ وہ مقامی ثقافت کے کامیاب مصور ہیں۔
مستقبل کے حوالے سے وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے۔
طارق غم دا کوئی غم کائینی
ول آسن غمخوار جیہاڑے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے تاں اپنی ذات دا عرفان حاصل کر گھنوں
ول اپنی طارق ذات دے گنبد توں باہر ڈیکھسوں
ول آسن غمخوار جیہاڑے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے تاں اپنی ذات دا عرفان حاصل کر گھنوں
ول اپنی طارق ذات دے گنبد توں باہر ڈیکھسوں
1 comments:
اج قاصد گونگا بن کے ونج
5/13/2007 02:15:00 AMمونہو نہ الوائیں، مونجھ ڈسائیں
اگر آپ اس نظم کی تفصیل بھی لکھتے تو مزہ آتا ۔ ۔ ۔ طارق ایک دفعہ جب سابق صدر فاروق لغاری سے ملنے گئے تو انہیں روکا گیا تو یہ نظم اسی وقت کی ہے ، میرے ایک سرائیکی دوست نے جب ایک ایک شعر کے ساتھ یہ سنائی تو بہت مزہ آیا ۔ ۔ ۔ اور اس مٹھڑی زبان کی چاشنی اور بڑھ گئی ۔ ۔
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔