28 June, 2007

سرائیکی وسیب کی محرومیاں ۔ حصہ اول

سرائیکی وسیب کے دانشور ظہور احمد دھریجہ کاغور طلب خط ملاحظہ فرمایئے۔وہ لکھتے ہیں: نہایت ادب و احترام سے سپاس گزار ہوں کہ آپ علالت کے باوجود جمہوریت کے احیاء کے سلسلے میں قوم کے دلی جذبات کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں آپ کی سوچ ایک قومی رہنما اور ایک قومی مدبر کی سوچ ہے آپ نے کبھی بھی علاقائی حوالے سے نہیں سوچا، البتہ پاکستان کے جس علاقے میں کوئی کمی یا محرومی نظر آئی آپ نے اس کے حق میں آواز بلند کی۔ موجودہ بجٹ میں پسماندہ سرائیکی وسیب جو 17 اضلاع پر مشتمل ہے ، مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے، حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے آئین میں ایک شق شامل کرائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ دس سال کے لئے ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی کو موقوف کرکے پاکستان کے پسماندہ اور پس افتادہ علاقوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جائے گا مگر آئین کی اس شق، آئین پاکستان اور خود اس آئین کے خالق کا جو حشر ہوا اس بارے کچھ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ 60 سالوں میں کس کو کیاملا؟ یہ جاننے کے لئے گزشتہ 60 سالوں کے سالانہ میزانیوں کا جائزہ لے لیں تو پس منظر کی مکمل تصویر سامنے آسکتی ہے اوراس سے یہ صورتحال بھی واضح ہوسکتی ہے کہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے بعدمغربی پاکستان کے بلوچ، سندھی، سرائیکی یا پختون محرومی یا استحصال کا جو مسلسل شکوہ کرتے آرہے ہیں، اس میں کچھ حقیقت بھی ہے یا یہ سب جھوٹا پروپیگنڈہ ہے؟ مزید برآں اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوسکتی ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں سب سے زیادہ قصور شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات، جماعت اسلامی کی الشمس البدر تحریک یا ذوالفقار علی بھٹو کے نعرے ”اِدھر ہم اُدھر تم“ کا ہے یا پھرمغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فنانس ڈیپارٹمنٹ کے بجٹ ساز سب سے بڑے مجرم ہیں۔ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں بہت کچھ بتایا گیا ہے مگر حقیقت حال جاننے کے لئے حمود الرحمان کمیشن سے بڑا کمیشن ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ زیر نظر سطور میں موجودہ سالانہ بجٹ 2007-08ء میں پسماندہ سرائیکی علاقے سے ہونے والے سلوک کا جائزہ لیا گیا ہے جو کہ حاضر خدمت ہے۔ شکر گزار ہوں کہ آپ نے سالانہ بجٹ 2006-07ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے سرائیکی بیلٹ کے ساتھ ہونے والی حق تلفیوں کے بارے میری توجہ مبذول کرائی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ حق تلفیوں کا ازالہ ہوگا۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن جناب عطاء الرحمان نے بہاولپور کے سرائیکی دانشور غازی امان اللہ کی عرض داشت کے جواب میں لکھے۔ امسال کے بجٹ میں حلق تلفیوں کا کتنا ازالہ ہوا؟ اس کی چھوٹی سی جھلک ملاحظہ کریں، امسال وفاقی بجٹ میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے 275874.495 ملین کے 397 منصوبے حاصل کئے، ان میں ملتان کی بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کو 450 ملین جبکہ لاہور یونیورسٹی آف انجینئرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو مضبوط بنانے کے لئے 5000 ملین دیئے گئے۔ لاہور کی پنجاب یونیورسٹی کو مضبوط بنانے کے لئے 4000 ملین ملے، گورنمنٹ کالج لاہورکو 2500 ملین ملے۔ پانچ سال قبل ملتان کے جلسہ عام میں صدر پرویز مشرف نے ملتان میں انجینئرنگ یونیورسٹی اور خواتین یونیورسٹی کا اعلان کیا، گزشتہ چار سالوں کی طرح امسال بھی انجینئرنگ یونیورسٹی کے لئے کوئی بجٹ نہیں رکھا گیا البتہ چارسال کے شدید انتظار کے بعد ملتان کی خواتین یونیورسٹی کے لئے صرف 280 ملین رکھے گئے اس کے مقابلے میں سیالکوٹ کی انجینئرنگ یونیورسٹی کا اعلان گزشتہ سال ہوا اورموجودہ بجٹ میں سیالکوٹ انجینئرنگ یونیورسٹی کے لئے 36927 ملین رکھے گئے۔ یہ بجٹ ملتان کی خواتین یونیورسٹی کے مقابلے میں تقریباً پونے چار ہزار گنا زائد ہے، اس سے بڑھ کر ستم ظریفی کیا ہو سکتی ہے کہ لاہورکالج آف وومن کے دو سوئمنگ پولز کے لئے 98 ملین دیئے گئے جس کی پاکستان کرنسی میں مالیت 9 کروڑ 80 لاکھ بنتی ہے۔ ایک اور فرق ملاحظہ کریں کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کورحیم یار خان کیمپس کی تعمیر کے لئے 367ملین اور بہاولنگر کیمپس کی تعمیر کے لئے 388 ملین دیئے گئے جبکہ اس کے مقابلے میں فرنٹیئر یونیورسٹی آف انجینئرنگ کو جلوزئی کیمپس کے لئے 7792ملین دیئے گئے یہ رقم اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے دونوں کیمپس کو ملانے کے باوجود بھی سات ہزار گنا زائد ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین جناب عطاء الرحمان کی سائنس کیا بتاتی ہے کہ ترقی کے اس ہوشربا تفاوت یا پھر پسماندہ علاقوں کے استحصال کی بدترین شکل کے خطے کے معصوم طلبہ کو تعلیم کے بنیادی حق سے بہرہ مند کیاجا سکے گا؟ ہر سال بجٹ سے پہلے اور بجٹ کے بعد ہونے والی حق تلفیوں کی اس دہائی کوہم دہراتے ہیں، نہ جانے کیوں محروم اور پسماندہ خطوں کو پاکستان کا حصہ نہیں سمجھا جاتا، نہ جانے اس علاقے کے ارکان اسمبلی اوراس علاقے سے تعلق رکھنے والی وزراء کی فوج ظفرموج کیا کر رہی ہے؟ تعلیم کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں لکھا ہے کہ میں ڈیرہ غازی خان میں ڈپٹی کمشنر تھا، ڈیرہ غازی خان کے سردار تعلیم اور تعلیمی اداروں کے قیام کے سخت خلاف تھے، ایک دن ایک سردار میرے دفتر آئے، آتے ہی مجھے کہا ڈپٹی کمشنر صاحب !میں زمین دیتا ہوں فلاں علاقے میں فوری سکول قائم کریں، میں نے کہا ویری گڈ، اتنے اچھے کام کے لئے میں آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، سردار نے فوراً کہا میں یہ سکول خوشی سے نہیں بنوا رہا بلکہ فلاں سردار نے میرے خلاف سازش کرکے میرے علاقے میں سکول بنوایا ہے تاکہ میرے علاقے کے لوگ پڑھ لکھ کر میرے لئے مسئلہ بنیں اب میں اس سردار کو سبق سکھانے کے لئے اپنی زمین پر اس کے علاقے میں سکول بنوانا چاہتاہوں۔ ہمارے آج کے سیاستدان سرداروں کے مقابلے میں تو وہ سردار ہی بہتر تھے جنہوں نے ضد میں آکر ہی سہی سکول بنوانے کی کوشش تو کی۔ یہ تو ضد میں آکر بھی ایسا نہیں کرتے۔ ان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ بجٹ میں ہمارے علاقے کو کیا مل رہا ہے؟ اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی نہ تو یہ بجٹ کی تیاری میں حصہ لیتے ہیں، نہ بجٹ پڑھتے ہیں، ان کی کارستانیاں دیکھ کر ان کی اپنی روح بھی ان سے یقینا شرمندہ ہوگی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں فنڈز کی انتہائی غیر منصفانہ تقسیم کے بعد دوسرے محکموں کا جائزہ لیں تو سرائیکی وسیب کے حوالے سے صورتحال بد سے بدتر نظر آتی ہے مثلاً پانی و بجلی کی وزارت میں 513461.286 ملین کے 47 منصوبے منظور کئے گئے، ان میں سرائیکی علاقے کے لئے ایک بھی نہیں۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن 31 منصوبے مالیت 96265.496 ملین۔ پاکستان نیوکلیئر اتھارٹی منصوبوں کی تعداد 6 تخمیناً لاگت 207 ملین۔ وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل منصوبہ جات 22 مالیت 2709.563 ملین میں سے سرائیکی وسیب کی قسمت کا خانہ خالی ہے۔ وزارت مواصلات نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے84 منصوبے 354549.329 ملین کی لاگت کے لئے منظورکئے، ان 84 منصوبوں میں سرائیکی وسیب کے لئے محض دو منصوبے ایک لودھراں خانیوال روڈ اورایک فیصل آباد خانیوال موٹروے کے لئے بجٹ میں رقم رکھی گئی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ رقم بھی ریلیز ہوتی ہے کہ نہیں کیونکہ ماضی میں اکثر یہ ہوتا آیا ہے کہ سرائیکی وسیب کے لئے آٹے میں نمک کے برابر فنڈ بھی اپر پنجاب کی فوری ضرورتوں کی نذر ہوتے آئے ہیں۔ (جاری ہے

بشکریہ ۔۔ ارشاد احمد حقانی صاحب روزنامہ جنگ

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب