ٹیکس
عمر ایوب کا پیش کردہ بجٹ دیکھیئے اور عنایت علی خان کی ٹیکس پر لکھی گئی یہ نظم پڑھیئے۔
اپنے تاثرات قلم بند کرنا نہ بھولیئے گا۔
بلدیہ! تیرے ثنا خوانوں سے معمور ہے شہر
تو تو سیٹھانی ہے اس کی تیرا مزدور ہے شہر
ٹیکس بڑھ جائیں اگر حد سے تو مجبور ہے شہر
اس قدر ٹیکس ادا کرنے سے معذور ہے شہر
اُونچی کرسی سے یہ پستی کی صدا بھی سن لے
شاعرِ شہر سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
تو نے جو ٹیکس لگایا وہ اٹھایا ہم نے
تیرے احکام کو آنکھوں سے لگایا ہم نے
تیرے ہر بل کو بہر طور چکایا ہم نے
ٹیکس پہ ٹیکس لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
شہر کس کا ہے مری جان یہ گھر کس کا ہے
کس کی جرات کہ کرے تیری شکایت زنہار
تیرے احسان ہیں اتنے کہ نہیں جن کا شمار
ہر گلی کوچے میں پھرتی ہوئی کتوں کی قطار
رات بھر مچھروں کی فوج کی ہر سو یلغار
دجلہ و نیل کا سڑکوں پہ گماں ہوتا ہے
ہر گٹر طبلہء عطار یہاں ہوتا ہے
لیکن اس شہر کی رونق تیرے قدموں پہ نثار
اپنے شیدائوں کو اس طرح سے پیاسا تو نہ مار
ٹیکس پانی کا بڑھا کر تو نہ کر ایک سے چار
اس شہر کا بڑھ جائے نہ کوفے سے وقار
مفت کی چیز پہ اتنی نہ گرانی کر دے
یعنی پٹرول کے داموں تو نہ پانی کر دے
یہ شہر واقع ہے ایک بڑے دریا پر
یوں بھی ہوتا ہے کہ اس شہر کے باسی اکثر
تشنہ لب ماہی بے آب کی صورت گھر گھر
آبرو کو تری دیتے ہیں دعا بل بل کر
لب جو سوکھے گلہء آب رسانی نہ رہا
تجھ کو روکنے کے لئے آنکھ میں پانی نہ رہا
شاہراہوں کی عجب شکل بنائی تو نے
جنگ خندق کی ہمیں یاد دلائی تو نے
شہریوں کی نہ سنی ایک دُہائی تو نے
شہر کی شکل بیاباں سے ملائی تو نے
کون خوش بخت سڑک تھی جو کھدائی نہ گئی
ہاں جو کھدوائی گئی پھر وہ بنائی نہ گئی
کیا ستم ہے کہ لگاتی ہے ہر بات پہ ٹیکس
حسن اور عشق کی مسنون ملاقات پہ ٹیکس
شادی پر اور ولیمے کی مدارات پہ ٹیکس
اک نہیں ہے تو فقط مرگِ مفاجات پہ ٹیکس
بلدیہ ٹیکس لگانے پہ جب آ جاتی ہے
جلوہء کثرتِ اموات دکھا جاتی ہے
غم و ناز پہ انداز پہ انگڑائی پہ ٹیکس
کمرے پہ نالی پہ دالان پہ انگنائی پہ ٹیکس
سقہ پہ دھوبی پہ بقال پہ اور نائی پہ ٹیکس
سیٹھ تو سیٹھ بھنگی بھی نہ چھوڑا تو نے
بلدیہ! شہر کو بل دے کے نچوڑا تو نے
مرگِ عشاق پہ، پیدائش اولاد پہ ٹیکس
بر سرِ بزمِ سخن داد پہ بے داد پہ ٹیکس
گریہ و نالہ و بے تابہ و فریاد پہ ٹیکس
ہر دلِ شاد پہ اور ہر دلِ ناشاد پہ ٹیکس
زیست کا بوجھ اٹھانے پہ بھی لگ جائے نہ ٹیکس
ٹیکس پہ نظم سنانے پہ بھی لگ جائے نہ ٹیکس
افسروں کی ترے دن رات بنی بات رہے
ٹھیکیداروں ہی کے ہاتھوں سدا بات رہے
رات دن “قائدِ اعظم“ سے ملاقات رہے
فرق کیا پڑتا ہے گر ہم نہ بد اوقات رہے
تو نہ مٹ جائے گی ہم جیسوںکے مٹ جانے سے
تشنہء مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔