حکمران، عوام اور تیسرا کان
پچھلے دنوں کہیں پڑھا تھا کہ ایک آسٹریلوی نوجوان اپنے جسم پر ‘تیسرا کان‘ اگانا چاہتا ہے۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ اس سے پہلے بھی یہ فنکار اپنے جسم پر مختلف تجربات کر چکا ہے۔ لندن کے کسی میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے پلاسٹک سرجن نے اس نوجوان کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس تیسرے کان سے سن نہیں سکے گا جبکہ آسٹریلوی نوجوان کا کہنا ہے کہ سننے کے لئے کون کافر یہ کان لگوا رہا ہے اس کے لئے تو اس کے پاس پہلے سے دو کان موجود ہیں، اس تیسرے کان سے کوئی اور کام لوں گا۔
اس خبر کر پڑھنے کے بعد مجھے ایک سردار صاحب کا لطیفہ یاد آ گیا۔ جس کی اتفاق سے ایک کروڑ کی لاٹری نکل آئی، اس لاٹری کی رقم سے انہوں نے ایک شاندار بنگلہ تعمیر کروایا۔ بنگلے کے وسیع و عریض صحن میں انہوں نے تین سوئمنگ پول تعمیر کروائے تو کسی دوست نے پوچھا کہ تین سوئمنگ پولوں کی کیا ضرورت تھی ایک ہی کافی تھا؟ سردار صاحب نے جواب دیا ‘بادشاہو! نیا زمانہ ہے، زمانے کے ساتھ چلنا پڑتا ہے، ایک سوئمنگ پول سردیوں کے لئے گرم پانی کا ہے، دوسرا سوئمنگ پول گرمیوں کے لئے ٹھنڈے پانی کا اور تیسرا سوئمنگ پول خالی‘۔ پوچھا گیا کہ خالی کیوں؟ سردار صاحب بولے ‘سرکار جب نہانے کا دل نہ ہو تو خالی تالاب میں چھلانگ لگا دیتا ہوں‘۔
غالباً اس آسٹریلوی نوجوان کا بھی یہی منصوبہ ہے کہ جب سننے کو دل نہ چاہے تو تیسرا کان آگے کر دیا کرے گا۔
ایک بات طے ہے کہ آسٹریلیا والے ہم سے بہت پیچھے ہیں۔ اس آسٹریلوی نوجوان کو تو تیسرے کان کا اب خیال آیا جبکہ ہماری حکومت پچھلے کئی سالوں سے ‘تیسرے کان‘ کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے استعمال میں لا رہی ہے۔
اب دیکھیں!!! عوام حکمرانوں کے کانوں میں چیخ چیخ کر کہتے آئے ہیں کہ ہر چیز کے نرخ دوگنا ہو گئے ہیں۔ خدارا اس بجٹ میں ریلیف دیں، بجلی، سوئی گیس، پیٹرول اور دیگر تمام روزمرہ کی اشیاء سستی کریں۔ مہنگائی نے ہماری کمر توڑ دی ہے۔ اس مہنگائی میں ہم بچوں کو مناسب تعلیم نہیں دے سکتے، بیماروں کا مناسب علاج نہیں کروا سکتے۔ مگر ۔۔۔ حکومت نے اپنے تیسرے کان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مرضی کا بجٹ پیش کر دیا۔ اب عوام لاکھ چیختی چلاتی رہے کہ آپ نے جو ٥٠٠ نئے یوٹیلٹی سٹورز کا وعدہ کیا ہے وہ کب قائم ہوں گے، بھوک تو آج کی ہے، آج کیا کھائیں گے، بچوں کو کیا کھلائیں گے مگر ہمارے وزیراعظم ‘پارٹ ٹائم‘ وزیر خزانہ صاحب اپنا تیسرا کان آگے کر دیتے ہیں، کہ نہ سنیں گے نہ جواب دینا پڑے گا۔
ہمارا حکمران طبقہ جب کبھی بھی کسی عوامی بیٹھک یا کسی جلسے میں شریک ہوتے ہیں تو ہمیشہ اپنا تیسرا کان استعمال میں لاتے ہیں مگر جب کبھی یہ ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف کے حکام کے درمیان بیٹھتے ہیں تو ‘جینوئن کان‘ استعمال کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کا کہا پتھر کی لکیر ثابت ہوتا ہے۔
تیسرے کان کی افادیت کو دیکھتے ہوئے میں یہاں اپنے سائنس دانوں اور ماہرین طب سے گذارش کروں گا کہ وہ بھی پاکستانی عوام کی سہولت کے لئے ‘تیسرے کان‘ کی تنصیب کے لئے کوشش شروع کر دیں۔ کیونکہ اس بیچاری عوام کے پہلے والے دونوں کان تو ویسے ہی ناکارہ ہو چکے ہیں۔ مثلاً ۔۔۔۔۔ حکمران کہتے ہیں کہ ٹیکس بروقت ادا کریں، کرپشن کے خلاف گواہی دیں، اپنے فرائض ایمانداری سے سر انجام کریں، برائیوں کے خلاف کمر کس لیں مگر عوام پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
١٢ مئی والے واقعہ کو ہی لے لیں یہ عوام صدر پرویز مشرف، وزیراعظم شوکت عزیز اور ایم کیو ایم کے مہاراج الطاف حسین کی باتیں سنی ان سنی کر دیتے ہیں، کسی بات پر کوئی یقین کرنے کو تیار ہی نہیں۔ ان حالات میں عوام کے لئے تیسرے کان کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ میرے خیال میں حکومت اور اپوزیشن کا اس امر پر اتفاق رائے بھی ممکن ہے۔ اگر عوام کے لئے ‘تیسرے کان‘ کی درآمد کا حتمی فیصلہ ہو جاتا ہے تو ایک بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ یہ تیسرا کان سننے والا بھی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ کانوں کے ذریعے سنی ہوئی آواز دماغ کے مختلف گوشوں میں داخل ہوتی ہے۔ مثلاً غمی اور پریشانی والی خبر انسان کے پریشان کرنے والے گوشے میں داخل ہوتی ہے تو انسان پریشان ہو جاتا ہے اسی طرح خوشی کی خبر مسرت و انسباط والے گوشے سے ٹکرا کر انسان کی خوشی کا موجب بنتی ہے۔ اب تیسرے کان کے نصب کرنے والے ماہرین کو کرنا یہ ہو گا کہ جب وہ تیسرا کان نصب کرنے لگیں تو اس کے کنکشن الٹ جوڑ دیں۔ پھر یوں ہو گا کہ جب حکمران بجلی، گیس، تیل اور دیگر روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں بڑھانے کا اعلان کریں گے تو پورا ملک خوشی و مسرت سے جھوم اٹھے گا، عوام حکومت زندہ باد کے نعرے لگاتی ہوئی سڑکوں پر نکل آئے گی۔ ہر طرف خیر سگالی جذبات اور فلاں ساڈا شیر اے، آوے ہی آوے کے فلک شگاف نعرے گونج رہے ہوں گے۔
اس طرح ہمارے سیاسی کلچر کی فضا میں بھی بڑی تبدیلی پیدا ہو گی کیونکہ عوام اس سے پہلے تو سال کا ماہ جون آنے کا سوچ کر ڈپریشن کا شکار ہو جاتے تھے مگر اب اس ‘تیسرے کان‘ کی بدولت جوں جوں سالانہ بجٹ پیش کرنے کی تاریخ نزدیک آتی جائے گی عوام کا جوش جذبہ قابل دید ہوتا جائے گا۔ آجکل تو صرف اپوزیشن خوش ہوتی ہے کہ بجٹ کے بعد تحریک چلانے کا موقع میسر آئے گا مگر پھر جون کے مہینے میں پریشان ہو جایا کرے گی۔
نئی صورتحال میں بجٹ جلسہ عام میں پیش کرنے کے اعلانات چھپا کریں گے۔ پھر ایسے اعلانات وزرائے اعظم جلسہ عام میں کیا کریں گے اور عوام سے خوب داد وصول کریں گے۔ میرے خیال میں تو اس وقت ہی کوئی وزیراعظم حقیقی معنوں میں عوامی کہلانے کا حق دار ٹہرائے گا۔
تیسرے کان کی بدولت ہمارے معاشرتی اور سماجی ماحول میں بھی قدرے بہتری واقع ہو گی جو عمرانی علوم کے ماہرین کے لئے خوشگوار حیرت کا باعث بنے گی۔ مثلاً جب کوئی بچہ بیماری یا بھوک سے بلکتے اور روتے ہوئے باپ کی طرف دیکھے گا یا کم تنخواہ کی وجہ سے بیوی اس کو طعنے اور کوسنے دے گی تو وہ آجکل کی طرح خود کشی کو نہیں دوڑ پڑے گا بلکہ ایک روشن خیال ذہن کے ساتھ اس صورت حال سے محفوظ ہو گا۔
جب کسی غریب کے ماں باپ علاج معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے کھانستے کھانستے نڈھال ہو جائیں گے تو ان کے پیلے زرد جھریوں سے بھرپور چہرے اور چارپائی سے نیچے لٹکے ہوئے سر اس کے لئے مسرت و انسباط کا باعث بنیں گے۔ اسی طرح وطن عزیز میں بڑھتی ہوئی خودکشی کی وارداتیں بھی کم ہو جائیں گے اور ملک سے بے چینی، ڈپریشن، فرسٹریشن کا بھی ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا۔ البتہ غلط نصب شدہ تیسرے کان کا ایک نقصان یہ ہوگا کہ جب ٢٠٠٨ میں حکومت انتخاب میں کامیابی کے بعد جشن منا رہی ہو گی تو پورا ملک دھاڑیں مار کر رو رہا ہو گا۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔