08 June, 2007

چیف جسٹس کے جواب میں حلفیہ بیانات


 


چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری کے سپریم کورٹ میں داخل کرائے گئے بیان حلفی کے جواب میں حکومت نے جمعرات کو ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کے سربراہوں سمیت کئی سرکاری اہلکاروں کے حلفیہ بیانات جمع کرائے ہیں۔


جن کی تفصیل درج ذیل ہیں۔


جنرل حامد جاوید کا بیان حلفی


صدر مشرف کے چیف آف سٹاف جنرل حامد جاوید نے اپنے حلفیہ بیان میں کہا ہے کہ چیف جسٹس افتخار چودھری صدر سے ملاقاتیں کرتے رہتے تھے اور سات اکتوبر 2004 سے نو مارچ 2007 تک دونوں شخصیات کے درمیان دس ملاقاتیں ہوئیں، جن میں سے دو جسٹس افتخار کے بطور جج اور آٹھ بحیثیت چیف جسٹس کے تھیں۔
ان کے بقول آٹھ مارچ کو چیف جسٹس نے صدر کے ملٹری سیکرٹری سے رابطہ کر کے صدر سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ صدر نو مارچ کو کراچی جا رہے ہیں اور فوری ملاقات ممکن نہیں۔ تاہم چیف جسٹس کے اصرار پر نو مارچ کے روز دن کے گیارہ بج کر پینتیس منٹ پر ملاقات کا وقت طے کر دیا گیا۔
جنرل حامد جاوید کے مطابق پشاور ہائیکورٹ کے جج جسٹس جہانزیب رحیم کی درخواست کا معاملہ صدر نے نہیں بلکہ چیف جسٹس نے خود ہی ان کے سامنے اٹھایا۔ ان کے مطابق صدر نے اس سے قبل جسٹس جہانزیب کی شکایت پر مبنی فائل دیکھی ہی نہیں ہوئی تھی۔
انہوں نے اپنے حلفیہ بیان میں کہا ہے کہ خفیہ اداروں ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کے سربراہوں کے ساتھ چیف جسٹس کے دوستانہ مراسم تھے اور ایک دفعہ انہوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ سے بھی ملاقات کی تھی۔
جنرل حامد نے الزام لگایا ہے کہ جنوری 1999 میں بلوچستان ہائیکورٹ میں تعیناتی کے دوران جسٹس افتخار نے کراچی میں فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ سکیم فیز II میں غیر قانونی طور پر پلاٹ حاصل کیا جبکہ پٹرول کی مد میں حکومت سے کوئٹہ کے ایک ایسے فِلنگ سٹیشن کی رسیدیں دکھا کر لاکھوں روپے وصول کیے جہاں صرف ڈیزل فروخت ہوتا تھا۔
انہوں نے چیف جسٹس پر قوانین کے خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے اہل خانہ کے لیے سفری و رہائشی اخراجات وصول کرنے کا بھی الزام لگایا ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس کی طرف سے لگائے گئے الزام کہ نو مارچ کے بعد ان کے ٹیلیفون منقطع کر دیئے گئے تھے کی تردید کرتے ہوئے اپنے بیان حلفی میں لکھا ہے کہ جسٹس افتخار کے بیٹے کے موبائل پر نو مارچ شام پانچ بجے سے لیکر تیرہ مارچ تک تین سو کے لگ بھگ کالز سنی اور کی گئی اور فون کرنے والوں میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی شامل تھے۔
صدر کے چیف آف سٹاف نے چیف جسٹس پر ججوں کو ہراساں کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اپنے بیان حلفی میں کہا ہے کہ وہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس اختر شبیر، جسٹس شیخ عبداللہ، جسٹس عبدالشکور پراچہ اور جسٹس شبر رضا رضوی، سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس مشیر عالم، جسٹس عارف حسین خلجی، جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس افضل سومرو اور پشاور ہائیکورٹ ک جسٹس شاہجہان خان، جسٹس اعجازالحسن خان اور جسٹس جہانزیب رحیم کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنا چاہتے تھے۔


جنرل ندیم اعجاز کا بیان حلفی


ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ میجر جنرل میاں ندیم اعجاز نے اپنے حلفیہ بیان میں کہا ہے کہ ان کے چیف جسٹس کے ساتھ خوشگوار تعلقات تھے۔ ایک دفعہ ان کے کہنے پر ملاقات ہوئی تو انہوں نے سیاسی معاملات پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلیاں درد سر بن گئی ہیں اور صدر کو انہیں برخاست کر دینا چاہیے۔
جنرل ندیم کے بقول اسمبلیوں کی برخاستگی کے بعد چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں انتخابات کرانے کی تجویز بھی دی اور یقین دلانے کی کوشش کی کہ اس طرح معاملات خوش اسلوبی سے نمٹ جائینگے۔
ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ کے مطابق چیف جسٹس نے ان سے اپنے خلاف چھپنے والی خبریں رکوانے کے لیے بھی کہا۔ ان کہ مطابق سات مارچ کو چیف جسٹس نے انہیں فون کیا کہ وہ اپنے خلاف کی گئی جسٹس جہانزیب رحیم کی شکایت کی تفصیلات جاننا چاہتے ہیں۔
جنرل ندیم کے مطابق انہوں نے اگلے روز جسٹس جہانزیب کی چیف جسٹس کے خلاف شکایت کی کاپی حاصل کر لی۔ آٹھ مارچ کی رات کو چیف جسٹس نے انہیں فون پر بتایا کہ جسٹس جہانزیب کی شکایت کے حوالے سے وہ نو مارچ کو صدر مشرف سے ملاقات کر رہے ہیں۔
ان کے بقول نو مارچ کو صدر کے کیمپ آفس میں دوپہر ایک بجے سے دو بجے تک چیف جسٹس سے ملاقات کے دوران ان کے خلاف ریفرنس زیر بحث رہا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ ریفرنس کا سامنا کرینگے۔
دوپہر دو بجے صدر مشرف جمعہ نماز کے لیے تشریف لے گئے تو وزیر اعظم، صدر کے چیف آف سٹاف اور ملٹری سیکرٹری بھی ساتھ چلے گئے۔ اس کے بعد وہ (جنرل ندیم)، انٹیلیجنس بیورو کے سربراہ اعجاز شاہ، آئی ایس آئی کے سربراہ اور چیف جسٹس کمرے میں رہ گئے اور ریفرنس کے نقاط پر بات چیت کرتے رہے۔ اس دوران کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
چیف جسٹس نے چونکہ صدر اور وزیر اعظم پر بھی واضح کر دیا تھا کہ وہ ریفرنس کا سامنا کرینگے، اس لیے اس حوالےسے ان کے ساتھ کوئی بات نہ کی گئی اور نہ ہی ان کے سامنے کوئی مطالبات رکھے گئے۔ آئی ایس آئی اور آئی بی کے سربراہ تھوڑی دیر بعد رخصت ہو گئے۔
جنرل ندیم کے مطابق چیف جسٹس نے صدر سے ایک اور ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ صدر آرمی ہاؤس سے کراچی کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔ اس پر صدر کے کراچی پہنچنے کا انتظار کیا جانے لگ گیا۔ لہذا یہ غلط ہے کہ چیف جسٹس کو ان کی مرضی کے خلاف صدارتی کیمپ آفس میں رکھا گیا تھا۔
ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ کے مطابق صدر مشرف کراچی پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ چیف جسٹس ان سے ایک اور ملاقات کرنا چاہتے ہیں، لیکن صدر نے معذرت کر لی۔


بریگیڈئر اعجاز شاہ کا بیان حلفی


انٹیلیجنس بیورو کے سربراہ بریگیڈئر (ریٹائرڈ) اعجاز احمد شاہ نے سپریم کورٹ کو دیئے گئے اپنے بیان حلفی میں کہا ہے کہ ان کے چیف جسٹس کے ساتھ اس وقت سے اچھے تعلقات تھے جب وہ پنجاب میں ہوم سیکرٹری کے طور پر کام کر رہے تھے۔
’انٹیلیجنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل بننے کے بعد بھی میرے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے مراسم انتہائی دوستانہ رہے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ان کی چیف جسٹس سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں، جس کے دوران دفتری کاموں کے علاوہ ملک کی سیاسی صورتحال اور سپریم کورٹ میں دائر مقدمات کے بارے میں بات چیت ہوتی رہتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ وہ کئی دفعہ چیف جسٹس سے ملاقات کرنےگئے جبکہ کئی دفعہ چیف جسٹس خود ان سے ملاقات کرنے آئے۔
بریگیڈئر اعجاز شاہ نے کہا کہ چیف جسٹس اپنے خلاف چھپنے والی خبروں سے پریشان تھے اور انہوں نے انہیں کہا کہ وہ تحقیق کریں اور ان خبروں کو چھپنے سے روکوانے میں ان کی مدد کریں۔
انہوں نے کہا وفاقی حکومت نے بھی انہیں چیف جسٹس کے خلاف خبریں چھپنے کے معاملے کی چھان بین کرنے کا کہا تھا، کیونکہ چیف جسٹس نے تیرہ فروری کو صدر جنرل مشرف سے ملاقات کے دوران اپنے خلاف چھپنے والی خبروں کی شکایت کی تھی۔
بریگیڈئر اعجاز شاہ نے کہا کہ نو مارچ کو ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی کے ہمراہ چیف جسٹس اور صدر کی ملاقات کے موقع پر وہ بھی موجود تھے۔ ’ چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ ان کے مستعفی ہونے سے انکار پر جنرل مشرف طیش میں آ گئے تھے حقائق پر مبنی نہیں ہے‘۔
انہو ں نے کہا کہ چیف جسٹس سے ملاقات کے دوران صدر جنرل پرویز مشرف باادب اور پرسکون رہے اور کسی موقع پر نہ تو غصے اور نہ ہی طیش میں آئے۔
انہوں نے کہا صدر پرویز مشرف کے چلے جانے کے بعد وہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہ کے ساتھ چیف جسٹس سے بات چیت کرتے رہے۔ تین بجے ڈی جی آئی ایس آئی اور وہ صدر کے کیمپ آفس سے چلے آئے تو ڈی جی ایم آئی اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔


  بشکریہ بی بی سی اردو


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کبھی کبھی ميرے دل ميں خيال آتا ہے
کہ يہ وطن تو بنايا گيا ہے فوج کے لیے
وہ اب سے پہلے بھي کرتی رہی ہے عيش سدا
اسے تو چسکا لگايا گيا ہے موج کے لیے
کبھی کبھی ميرے دل ميں خيال آتا ہے
کہ جمہوريت بھی نہیں اس کی آرزو بھی نہیں
بھٹک رہا ہے يوں جنرل کے ہاتھ سے يہ وطن
اسے کسی کے سہارے کی جستجو بھی نہیں
ويسے آج کل يہ خيال اکثر ہی آتے ہيں

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب