اے خدا!
پروین شاکر مرحومہ کی ایک نظم جو انہوں نے ١٩٨٧ء میں لکھی ہے لیکن یہ آج بھی برمحل ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٢٠ سال گزرنے کے باوجود ان میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ زمانہ بدل گیا، چہرے بدل گئے لیکن حالات جوں کے توں موجود ہیں۔
نظم ملاحظہ فرمائیے۔
٦ ستمبر ١٩٨٧ء کے لئے ایک دعا
اے خدا!
میرے پیارے سپاہی کی تلوار میں زنگ لگنے لگا ہے
اذانوں سے پہلے جو بیدار ہوتے تھے
اب دن چڑھے تک
چھپر کھٹ سے نیچے اترتے نہیں
دھوپ اگر سخت ہو جائے
بارش ذرا تیز ہو جائے تو
یہ جواں سال
گھر سے نکلتے نہیں
سرحدوں کے نگہبان اب کرسیوں کے طلب گار ہیں
اپنے آقا کے دربار میں
جنبش چشم و ابرو کی پیہم تلاوت میں مصروف ہیں
سر خمیدہ ہیں
شانے بھی آگے کو نکلے ہوئے
بس نصابِ تملق کی تکمیل میں منہمک!
میرا دل رو پڑا ہے
اے خدا!
میرے پیارے وطن پر یہ کیسی گھڑی ہے
تراشے ہوئے جسم
آسائشوں میں پڑے
اپنی رعنائیاں کھو رہے ہیں
ذہن کی ساری یکسوئی مفقود ہے
اہل طبل و علم
اہل جاہ و حشم بن رہے ہیں
اور اس بات پر
دیکھتی ہوں کہ مغرور ہیں!
اے خدا!
میرے پیارے سپاہی کو سرحد کا رستہ دکھا
عشق اموال و حبِ مناصب سے باہر نکال
اس کے ہاتھوں میں
بھولی ہوئی تیغ پھر سے تمھا!
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔