12 November, 2007

پاکستانی سیاست ۔۔ ایک جائزہ


ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاستدان تو بے شمار ہیں مگر سٹیٹس مین کا قحط ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ایک اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے اور دوسرا اگلی نسل کے بارے میں متفکر رہتا ہے۔ ایک اپنے بینک بیلنس اور رائٹ آف کے متعلق مشوش رہتا ہے اور دوسرا اپنی جائز تنخواہ اعزازی طور پر ایک روپیہ وصول کرتے ہوئے بھی ریاست کا ممنوں رہتا ہے۔ تو پھر ایک کو تاریخ اس کی زندگی میں ہی فراموش کر دیتی ہے اور دوسرے کے مزار پہ زندگی رقصاں رہتی ہے کہ زندہ لوگوں کی یہ بھی ایک نشانی ہے۔


انسانوں کے معیار کی بات کی جائے تو کچھ شخصیات تاریخ بدلتی ہیں اور کچھ جغرافیہ مگر بہت کم شخصیات ایسی ہیں جہنوں نے تاریخ و جغرافیہ دونوں کو بدلا ہے۔ محمد علی جناح ایسی ہی ایک شخصیت ہیں۔ تیس برس کم از کم سولہ گھنٹے روزانہ کام، کام اور کام کرنے والی ہستی کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں۔ ١٩٣٨ء میں پٹنہ سے نعرہ گونجا اور پھر ہر دل کی دھڑکن بن گیا اور دس برس میں قائد اعظم جنوبی ایشیاء کی سب سے بڑی شخصیت بن گئے۔ سٹینلے وال برٹ نے لکھا ہے کہ ‘چھٹی حس ان کا سب سے بڑا وصف تھا‘ لیکن حقیقت میں یہ ان کے کردار کی عظمت تھی کہ وہ ملت کا پاسباں اور ہر دور کے روح رواں ہو گئے۔


پاکستان معرض وجود  بعد میں آیا اس کے خلاف سازشوں نے پہلے جنم لینا شروع کر دیا۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے "شائد"  درست کہا تھا کہ پاکستان نظریاتی طور پر امریکہ کے زیادہ قریب ہے، اسی وجہ سے انہوں نے اپنے دورہ امریکہ میں پاکستان کا تعارف کرایا اور شبہات کے دھبے دور کئے۔ شہیدِ ملت جو مکا لہراتے اغیار کا دل کانپ کانپ جاتا۔ ١٦ اکتوبر ١٩٥١ء کو روالپنڈی کے جلسہ عام سے خطاب شروع ہی کیا تھا کہ ۔۔



He Heard the whine of bullets and tested the courage



 درست ہے کہ بڑوں کی غیر موجودگی میں بچے بگڑ جاتے ہیں۔ سب سے پہلے جمہوریت کی قبا کو تار تار کرنے والے سینئر سول بیوروکریٹ غلام محمد ہیں۔ جنہوں نے اکتوبر ١٩٥٤ء کو اس روایت کی بنیاد رکھی۔ یہ سچ ہے کہ پاور اکثر لوگوں کو کرپٹ کر دیتی ہے اور وہ اختیارات کے نشے میں اترانے لگتے ہیں۔ اپنے ماتحت افسر کا استقبال کبھی کبھار اس کے سر پہ گھنٹی کی ضرب کے گھومڑ سے بھی کرتے ہیں۔ تو جناب!



Who will bell the cat?



سبز انقلاب، صنعتی انقلاب اور معاشی استحکام کی شاہراہ پہ ملک کو گامزن کرنے والے جنرل ایوب خان اگر لوگوں کو مرعوب نہیں کرتے تو اپیل ضرور کرتے ہیں مگر ٥ مئی ١٩٦٠ء کو امریکہ کے فضائی جاسوسی کرنے والے طیارہ یوٹو کو روس کا گرانا اور پھر جنوری ١٩٧٦ء کی اشاعت میں نیو یارک ٹایمز کی سنسنی خیز خبر کہ ‘امریکہ کو خفیہ مراعات کے صلہ میں صدر ایوب اور سی آئی اے کے درمیان خفیہ معاہدے کے تحت انہیں ستر ہزار ڈالر سالانہ تاحیات ملتے رہے‘۔ پڑھ کر ایک محب وطن اچھل پڑتا ہے کہ



Brutus you too!



پھر زمام اقتدار ایک اہم موڑ پہ جنرل یحیٰی خان کے ہاتھ میں آتی ہے۔ ہمارا سنہرا بنگال بنگلہ دیش کے روپ میں طلوع ہوتا ہے تب کوئی قبر اقبال پہ پھول لے کے جاتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے کہ


پھول لیکر گیا، آیا روتا ہوا، بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں


عہد رفتہ کے سب سے کمزور رہنما جس کا شیوہ تھا۔



For God's sake hold your tongue, and let me love



لیکن سوال پیدا ہوتا ہے تب اسٹیبلشمنٹ کیا کر رہی تھی؟


ساٹھ کی دہائی کے وسط کے بعد ابھرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو۔ کمیونزم کا خوف بھٹو کے روپ میں پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے سروں پر ایسا سوار ہوا کہ چار عشرے بھی اس کی شدت کو کم نہ کر سکے۔ انہوں نے دنیا کے سب ایوان اقتدار کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا اس لئے موہوم آزادی (Myth of Independence) کا تصور دیا اور پھر وطن عزیز کے لئے ایٹم بم کے عزم نے بڑوں کو ان کا جانی دشمن بنا دیا اور وہ اپنی آخری تقریر میں منی سکرین پہ اپنے مخصوص انداز میں This white elephant this white elephant کہتے رہے اور وہ گھڑیاں بھی آئیں کہ



Smilingly he went to the gallows & .... said My will shall now be written by history. (Plus Episode)



 کرشمہ ساز قائد عوام کے بعد گیارہ سالوں کی مسافت نے اس بات کو دوبارہ ثابت کیا۔


 



Will not force the basis of state. MIU



مونگ پھلی کی پیشکش کرنے والوں نے جب پاکستان سے اپنی گیم تھیوری کے مطابق Cleansing کر لی اور سفید ریچھ کو نکیل ڈال لی تو پھر آم بھی تحفے میں دیئے۔ بہرحال جنرل ضیاء الحق کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ان کے جسم کا ہر اک انچ وطن عزیز کی خاطر ہی دشمنوں کی دہکائی آگ میں جلا اور امر ہو گیا۔


پاکستانی سیاست کا یہ باب کس قدر کربناک ہے اس بارے میں کوئی پی پی پی کی شریک چیئرپرسن محترمہ نصرت بھٹو سے پوچھتا جو مائیکل اینجلو کی مشہور پینٹنگ ‘Picta‘ کی میری محسوس ہوتی ہے، جس نے اپنے ہاتھوں میں دوسرے بیٹے کی لاش کو آخری چند لمحوں کے لئے تھاما۔



I do not grudge them: Lord, I do not grudge My two strong sons that I have seen go out To break their strength and die .... (The Matter – Padhraic Pearse)



اور مزید برآں یہ کہ بہن کو بھائی کے قتل میں شبہ کی نظر سے دیکھا گیا



That I have shot my arrow o'er the house, And hurt my brother. (Hamlet)



سیاست میں جنرل ضیاء الحق کے وارث میاں نواز شریف قرار پائے اور یوں دختر مشرق کے سب سے بڑے سیاسی حریف شیر پاکستان ہی ٹھہرے۔ دولت مند، صنعتکار، سیاستدانوں پر دولت کی چمک ہی سب سے بڑا الزام ٹھہرا۔ ایٹمی دھماکے اور طاقت کا نشہ انہیں لے ڈوبا، کیونکہ ہر درد کی دوا دولت نہیں ہوتی۔



Gold and iron are good to buy iron and gold. (Politics)



اقتدار کا ہما ایک بار پھر ایک فوجی کے کندھے پر آ بیٹھا اور جنرل پرویز مشرف پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو قرار پائے۔ چیف ایگزیکٹیو سے صدارت تک کا سفر کیا، سب سے پہلے پاکستان اور روشن خیالی کا نعرہ ان کی پہچان بن گیا۔ اتنی جلدی گرگٹ رنگ نہیں بدلتا جتنی جلدی وفاداریاں بدلی گئی۔ مخالفت اور پھر اپنائیت رشتے بدلنا کوئی ان سے سیکھے۔ ذاتی مفادات کی ایسی جنگ چھیڑی کہ ہر کوئی مفادات کے تالاب میں ڈبکیاں لگانا اپنی شان سمجھنے لگا ہے۔ ضیاء الحق نے کہا تھا کہ ‘میں جب بھی پکاروں گا یہ دم ہلاتے ہوئے میرے پاس چلے آئیں گے‘۔


ایمرجنسی، عدلیہ کا حشرنشر، وکلاء کی پٹائی، میڈیا پر پابندی پرویز مشرف نے خود کو ایک آمر کہوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یعنی انا ہی پاکستان کا مفاد ٹھہری۔ کہتے ہیں کہ ‘سیاستدان اپنی روش اور آمر اپنے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آتا‘۔



There are people in the world who take pleasure in teasing others



پاکستانی سیاست میں مادیت کا اس قدر عمل دخل ہو گیا ہے کہ عوام بیچارے سر پیٹ کے رہ گئے ہیں۔ اس وقت ہر طرف شور اور ہوہا برپا ہے لیکن اس شور میں بھی افتخار محمد چوہدری کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔



Where is life we have lost in living?
Where is wisdom we have lost in knowledge?
Where is knowledge we have lost in information?
The circle of heaven in 20 Centuries bring us Farther from God and nearer to dust..



اس بات کا غالب امکان ہے کہ آئندہ الیکشن کے بعد سیاستدان پھر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے پھریں گے کیونکہ حکومت بنانے کے لئے سکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔



Traveler there is no path. Paths are made by walking. (Tolstoy)



قائد اعظم کے پاس کھوٹے سکے تھے تو برملا اظہار کیا کہ ‘میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘ مگر موجودہ سیاستدانوں کی تو جیب ہی پھٹی ہوئی ہے۔

4 comments:

اظہر الحق نے لکھا ہے

بہت خوب ، سمندر کو کوزے میں سمویا ہے آپ نے ، پاکستانی سیاہ ست کی کہانی ایسی ہی ہے کچھ دلکش بھی اور کچھ درد سے بھری ہوئی

مگر آپ کی آخری بات سے اختلاف کروں گا کہ ہمارے سیاست دانوں کی جیب پٹھی ہوئی ہے ، ایسا ہوتا تو شاید کچھ لوٹے گر جاتے ۔ ۔۔ مگر اس جیب کو وردی کے دھاگے سے سیا جا چکا ہے ۔ ۔ ۔ اب یہ عمرو عیار کی زنبیل ہے ۔ ۔ ۔ جس میں سب کچھ ملے گا ۔ ۔ ۔ ۔

11/12/2007 06:41:00 PM
پاکستانی نے لکھا ہے

شکریہ اظہر بھائی
آپ کی دوسری بات بھی درست ہے، اصل میں اقتدار کی ہوس اور طاقت کا نشہ آرام سے نہیں بیٹھنے دیتا۔

11/12/2007 08:15:00 PM
میرا پاکستان نے لکھا ہے

اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے معیار پر ابھی تک کوئی بھی سیاستدان پورا نہیں‌اترا یعنی آپ کو کوئی بھی محب وطن حکمران نہیں‌ملا۔ ہم آپ سے اتفاق کرتے ہیں اگر حکمرانوں نے اچھے کام کیے بھی ہیں‌تو وھ بھی وطن کیلیے نہیں‌بلکہ اپنی کامیابی کیلیے۔
لیکن اب وقت بدلتا نظر آرہا ہے جس طرح میڈیا اور قوم کا پڑہا لکھا طبقہ وکلا کی شکل میں‌ آمریت کے پیچھے پڑا ہے کچھ نھ کچھ عوام کیلیے حاصل کرکے ہی چھوڑے گا۔

میرا پاکستان's last blog post..آپ بتائیں؟

11/12/2007 11:22:00 PM
راشد کامران نے لکھا ہے

نہایت خوبی سے بیان کی ہے داستان وطن۔ عوام کے لیے اتنا کہوں‌گا "مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے"‌ چناچہ اب ہمیں اپنا وضو ختم کرکے جماعت کھڑی کر لینی چاہیے تاکہ جب آپ تاریک (تاریخ( پاکستان میں مستقبل کا اضافہ کریں‌تو وردیوں‌ اور شیروانیوں‌کے علاوہ بھی کچھ ملے ۔ امید ہے سول سوسائٹی اب تہزیب کی جانب کچھ بڑھے گی اور وردیوں‌، سوٹوں‌ اور اچکنوں‌ کا چکر ختم ہوگا

راشد کامران's last blog post..سول سوسائٹی کی بقا کا فیصلہ کن معرکہ

11/13/2007 10:49:00 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب