03 October, 2005

مذہبی تہوار یا سیزن

ڈاکٹر مظہر ایاز ایک بھلے مانس انسان ہیں وہ جتنے بڑے ڈاکٹر ہیں اس سے کہیں بڑھ کر بڑے انسان ہیں، اکثر کہتے ہیں کہ گھر میں ہماری قدر نہیں کبھی باہر چل کر دیکھو پھر ہماری حیثیت آپ لوگوں کو معلوم ہو گی وہ سچ ہی کہتے ہیں کیونکہ پچھلے دنوں وہ چین میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کر کے آئے ہیں۔ اس سے پہلے ملائشیا گئے تھے، ملائشیا جب پہنچے تو وہان ان کا کوئی قومی تہوار منایا جا رہا تھا تہوار کی خوشی میں پورے ملائشیا میں ریلوے فری چل رہی تھی اندرون ملک ائیرلائنز نے اپنے کرایے ریلوے کے برابر کر دئیے تھے کھانے پینے کی اشیاء بھی سستی تھیں، ہوٹلوں کے کرایوں میں کمی آ چکی تھی، یہ سب دیکھ کر وہ حیران رہ گئے کیونکہ وہ ایک ایسے ملک سے آئے تھے جہاں شب برآت، رمضان، عید، بڑی عید اور دیگر تمام تہواروں کو لوٹ کھسوٹ کے دن سمجھ کر منائے جاتے ہیں۔
اسی طرح یورپ میں ایسٹر اور کرسمس کے تہواروں پر دکاندار، تاجر اور کمپنیوں کے مالک قیمتوں میں از خود کمی کر کے “ نوپرافٹ نولاس“ پر دینا شروع کر دیتے ہیں اور حکومتوں کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ تمام دکانوں، شاپنگ سنٹروں پر کلیرنس سیل کے بورڈ لگے نظر آتے ہیں، یورپ کی تمام ائیرلائنز اپنے کرایوں میں کمی کر دیتی ہیں، ملازمین کو خصوصی الاؤنس دیا جاتا ہے ان ممالک میں حکومتوں نے نہ ہی کبھی ان تہواروں کے موقع پر اشیائے ضرورت کی ارزاں فراہمی کے لئے تاجروں سے مذاکرات کئے ہیں اور نہ ہی کبھی از خود قیمتیں مقرر کر کے تاجروں کو ان کا پابند بنایا گیا ہے، مگر اس کے برعکس یہاں پاکستان میں قومی اور مذہبی تہواروں کو سیزن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ شب برآت، رمضان، عید، بڑی عید کا منافع خور اور ذخیرہ اندوز بڑی بے چینی سے انتظار سے انتظار کرتے ہیں۔ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں تیس سے پچاس فیصد تک اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ پی آئی اے کی مثال ہی لے لیجیئے جو ماہ رمضان میں عمرہ کے کرایوں میں بے پناہ اضافہ کر دیتی ہے، ماہ محرم الحرام کے بعد جب عمرہ شروع ہوا تو کراچی جدہ کراچی کا کرایہ 24000 روپے تھا مگر ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اسے بڑھا کر 33600 روپے کر دیا گیا۔ ماہ رمضان تو اللہ تعالٰی کا مہینہ ہے مگر آپ ذرا بازار جا کر دیکھ لیں ماشاءاللہ اہل ایمان نے ہر چیز کے نرخ بڑھا رکھے ہیں۔ آٹا، گھی، چینی، سبزی، فروٹ، جوتے، کپڑے، مہندی، چوڑیاں غرض کسی بھی چیز کو ہاتھ لگائیں اس کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہوں گی۔ ہر رمضان اور عید کو درجنوں لوگ غربت کی سولی چڑھ جاتے ہیں، کیا یہی ہے ایک اسلامی، فلاحی ریاست کا رمضان اور عید ؟ اس سے لگتا ہے کہ ہم لوگ کس قدر اخلاقی، روحانی، اور مذہبی زوال کا شکار ہیں۔
اگر تمام دکاندار، تاجر اور کمپنیوں کے مالکان ایک مہینہ عوام کو دے دیں اور یہ عہد کر لیں کہ وہ اپنی اشیاء نوپرافٹ نولاس پر فروخت کریں گے تو عبادت کا یہ مہینہ آسان ہو جائے۔ اور خود کشیوں کا سلسلہ رک جائے۔

3 comments:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

بڑے افسوس کی بات کی بات ہے آپ نے ان کو اہل ایمان لکھ دیا جن کے دلوں میں ایمان اترا ہی نہیں ۔
سورۃ 49 الحجرات کی آیۃ 14 کا ترجمہ ۔ یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لاۓ ۔ ان سے کہو ۔ تم ایمان نہیں لاۓ بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہو گئے ۔ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے ۔

10/03/2005 05:17:00 PM
Shoiab Safdar Ghumman نے لکھا ہے

ہم لوگ شائد بے حس اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود پر لر لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

10/03/2005 09:09:00 PM
Saqib Saud نے لکھا ہے

سنا ہے آپ کے ڈیرے پر رادھا نچانے کے جرم میں چھاپہ پڑا ہے؟

اب جناب رمضان آگیا ہے ایسے کاموں سے توبہ کر لیں۔

آپکو رمضان مبارک ہو

10/04/2005 05:35:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب