14 September, 2007

پاکستان اور سعودی حکمران












کنگ سود


سابق وزیرِ اعظم نواز شریف دس ستمبر کو وطن پہنچنے پر توقع کے مطابق ایئر پورٹ ہی سے سعودی عرب روانہ کر دیے گئے۔ چند ہفتے قبل عدالتِ عظمٰی کے فیصلہ کے بعد نواز شریف نے پاکستان واپس آنے کا اعلان کیا تھا۔
مشکلات کا شکار مشرف حکومت نے خود کو ایک اور سیاسی بحران میں پا کر سعودی حکومت سے رابطہ کیا۔ ابتدائی طور پر سعودی ردِ عمل زیادہ واضح نہیں تھا۔ لیکن ستمبر کے پہلے ہفتے میں سعودی ترجمان کے بیان اور پھر پرنس مقرن اور سعد حریری کی پاکستان آمد سے آئندہ واقعات کا رُخ بڑی حد تک طے ہو گیا۔ بلکہ سعودی مداخلت کے پسِ پردہ کارفرما بین الاقوامی جادوگر کی شناخت بھی مشکل نہ رہی۔
پاکستانی عوام کا عمومی سیاسی رویہ حقائق کی بجائے جذباتیت سے عبارت ہے۔ لیکن سعودی عرب کے بارے میں تو یہ جذباتیت مذہبی عقیدت کو جا پہنچتی ہے۔ حالانکہ اس تعلق کی تاریخ مذہبی رشتے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔
سنہ انیس سو دس میں سلطنتِ عثمانیہ کے جنوب مشرقی کونے میں ایک لق و دق صحرا تھا۔ خلیج فارس اور بحیرہ قلزم کے درمیان واقع اس خطے پر دو حکومتیں قائم تھیں۔ نجد کا حاکم ابنِ سعود انگریزوں کا حامی تھا جب کہ حجاز کا حکمران شریفِ مکہ عثمانی ترکوں کا اتحادی تھا۔
پہلی عالمی جنگ میں ترکوں کو شکست ہوئی اورخلافت کا دھڑن تختہ ہوگیا۔ حجاز کے حاکم شریفِ مکہ کی کیا حیثیت تھی۔ حجاز پر ابنِ سعود نے قبضہ کر لیا۔
سنہ انیس سو بتیس میں حجاز اور نجد کو ملا کر سعودی عرب نامی ملک کا اعلان کر دیا گیا۔اس مملکت کے قیام میں مقامی سمجھوتہ عبدالوہاب کے پیروکار مذہبی پیشواؤں سے تھا اور سیاسی سرپرستی برطانیہ بہادر کی تھی۔ سنہ انیس سو تینتیس میں ابنِ سعود نے امریکی کمپنی آرامکو کو ساٹھ برس کے لیے سعودی عرب میں تیل کی تلاش پر اجارہ داری سونپی۔ تفصیل کا یارا نہیں، عبدالعزیز ابنِ سعود کی شخصی اور سیاسی قامت جاننا ہو تو چرچل کی خود نوشت کے متعلقہ حصے پڑھ لیں۔
ہندوستانی مسلمان تحریک خلافت کی دُنیا میں بستے تھے۔ ترکی خلیفہ کے ساتھی شریفِ مکہ کی شکست پر بہت جزبز ہوئے۔ عبدالوہاب کے پیروکاروں نے مقدس ہستیوں کی قبریں مسمار کر دیں تو بےچینی اور بڑھی۔ بالآخر خلافت کمیٹی کا ایک وفد حجاز روانہ کیا گیا۔
وفد میں دیگر افراد کے علاوہ نامور صحافی ظفر علی خاں بھی شامل تھے۔ جنہوں نے ارکانِ وفد کی مخالفت کے باوجود ابنِ سعود سے تنہائی میں ملاقات کی اور واپس آ کر خلافت وفد سے الگ رپورٹ پیش کی۔ دو جملے ملاحظہ ہوں۔’خالص دینی زاویۂ نگاہ سے عبدالعزیز ابنِ سعود میرے نزدیک دنیائے اسلام کا بہترین فرد ہے ۔۔۔ وہ ایک روشن ضمیر مدبر، الوالعزم جرنیل، خدا کا سپاہی، معاملہ فہم حکمران، پُرجوش مذہبی مبلغ اور قوم کا سچا خادم ہے۔‘
اس رپورٹ کے بعد مسلمانانِ ہند میں پھوٹ پڑ گئی۔ خلافت کمیٹی اور مجلسِ احرار پنجاب کے راستے الگ ہوگئے۔ مولانا ظفر علی خاں نے نیلی پوش تنظیم بنا لی۔ مولانا داؤد غزنوی کے خانوادے کی آلِ سعود سے یاد اللہ کے ڈانڈے بھی اسی مناقشے سے ملتے ہیں۔
ابن سعود کی کھلی حمایت پر مؤرخ رئیس احمد جعفری کے مطابق، ظفر علی خان کو بھاری معاوضہ ملا۔ اسی رقم کی تقسیم پر جھگڑے میں مولانا غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک نے زمیندار سے الگ ہوکر سنہ انیس سو ستائیس میں ’روزنامہ انقلاب‘ نکالا تھا۔
سنہ انیس سو اڑتالیس میں سعودی عرب جہاں سے الگ اک جزیرہ نما تھا۔ جیسے تھرپارکر میں جاگیردار مزارعوں سے مونچھ ٹیکس وصول کرتے ہیں، جدہ بندرگاہ پر حاجیوں سے چھ سو پچاس روپیہ فی کس حج ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔
سعودی عرب کی مسکین اور پسماندہ حکومت کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ یہی حج ٹیکس تھا۔ پچاس کی دہائی میں تیل کی آمدنی شروع ہوئی تو حج ٹیکس بھی ختم ہوا۔
سنہ انیس اکہتر میں پاکستان تقسیم ہو گیا۔ پٹ سن کی کھڑی فصل کو دسمبر انیس سو اکہتر کا پالا مار گیا۔ اب نہ بانس کے پتوں کی ٹوکری تھی، نہ بانس کی بنی ماچس۔ کاغذ کے ٹکڑے پہ موم جما کر گندھک کا بلبلہ رکھا جاتا تھا۔ کئی برس اس موم لگی تیلی سے روشنی کرتے رہے ۔ تجارت کا خسارہ بڑھنے لگا۔
سرگودھا، پسنی اور سوات میں ماؤں کے بچے ابھی باقی تھے۔ یہی تجارت کی جنس ٹھہری۔ عرب کے صحراؤں میں تیل نکلنے سے دولت کا چشمہ پھوٹ بہا تھا۔ ہمارے میٹرک فیل ہزاروں کی تعداد میں کام آئے۔ پیسہ وافر، سیاسی حقوق زیرو، قانون نامعلوم، محمد دین اور دین محمد دونوں خوش۔
سعودی عرب میں پاکستانی مزدوروں کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان میں سعودی عرب کی کھلی مداخلت بھی شروع ہوئی۔ شاہ فیصل کی سیاسی بصیرت کا تقاضا تھا کہ پاکستان سے آنے والے ہزاروں نیم تعلیم یافتہ مزدوروں کو درہم و دینار کے علاوہ نظامِ اسلام کی افیون مفت بانٹی جائے۔
خدشہ یہ تھا کہ پاکستان میں تو عوام ووٹ کا حق مانگتے ہیں۔ وکیل بات بات پہ سڑکوں پہ آجاتے ہیں۔ صحافی سینہ تان کر حکومت مخالف اداریے لکھتا ہے۔ بچیاں یونیورسٹیوں میں تعلیم پاتی ہیں۔ عورتیں دفاتر میں کام کرتی اور سڑکوں پہ کار چلاتی ہیں۔ ایک بوڑھی عورت ایوب خان کے مقابلے میں انتخاب لڑتی ہے۔
مال روڈ پہ سلطانہ پشاوری سرِشام رقص کناں ہوتی ہے۔ لاہور میں حبیب جالب نظم لکھتا ہے تو سکھر میں شیخ ایاز ظلم کرنے والوں کی خبر لیتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ سستے پاکستانی مزدوروں کے ساتھ جمہوریت اور جدیدیت جیسی برائیاں بھی سعودی عرب میں چلی آئیں۔
پاکستان کا مسکین مزدور ٹھیک ہے لیکن پاکستان کا زندہ سیاسی ڈھانچہ اور کھلکھلاتا معاشرتی نظام درست نہیں۔ انہیں اُٹنگے پاجامے، داڑھی، لٹکواں لبادے اور منکوحہ حجاب کی خوراک درکار ہے۔ یہ مرگِ مفاجات پاکستانی غریبوں نے جاپانی ٹیپ ریکارڈر اور کھجوروں کے ہمراہ برداشت کی۔
فروری سنہ انیس سو چوہتر میں لاہور کی اسلامی کانفرنس کا میلہ بنگلہ دیش تسلیم کرنے کے لیے سجایا گیا تھا۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات کا تقاضا تھا کہ پاکستان ’بنگلہ دیش نامنظور‘ کے بےمعنی جھگڑے میں الجھنے کی بجائے مستقبل کی فکر کرے۔
چنانچہ کوئی پچپن ملکوں کے سربراہ پاکستان پہنچے۔ اسلامی دنیا کا راگ بار بار الاپا گیا۔ بادشاہی مسجد میں نماز جمعہ، شالامار میں شیخ مجیب اور سٹیڈیم میں کرنل قذافی۔ اس بارات کا دولہا شاہ فیصل تھا۔ جمیل الدین عالی کے ترانے ایسے بلند آہنگ تھے کہ کسی نے پاکستانی خیمے میں گھستے عربی اونٹ کو دیکھا ہی نہیں۔
ہفت روزہ اکانومسٹ نے فروری سنہ انیس سو چوہتر میں لکھا کہ ’سعودی عرب کے حکمران شاہ فیصل نے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ احمدی فرقے کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔‘
ربوہ کے ریلوے سٹیشن پہ نشتر میڈیکل کالج کے طابعلموں کا جھگڑا تو کہیں تین ماہ بعد ہوا۔ خادمِ حرمین شریفین کا حکم واضح تھا۔ دستور میں پہلی ترمیم کے ذریعے پاکستانی ریاست نے احکامِ الٰہی کی تشریح کا بیڑہ اُٹھا لیا۔
سنہ انیس سو ستتر میں بھٹو صاحب کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک پاکستان کا داخلی سیاسی تنازعہ تھا۔ پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر ریاض الخطیب تھے۔ بھٹو صاحب نے اُنہیں پاکستان کے داخلی سیاسی مکالمے میں ثالث بنایا۔ اُن کے اپنے ملک میں نہ حزبِ اقتدار نہ حزبِ اختلاف۔ بھٹو صاحب مذہب کے نام پر خطرناک کھیل کھیل رہے تھے۔
افغانستان میں روسی فوجیں اُتر آئیں۔ ضیاءالحق معاملہ فہم تاجر تھا۔ طے پایا کہ امریکہ افغانستان کے بھاڑ میں جو ڈالر جھونکے گا، سعودی عرب اس میں برابر کا حصہ ڈالے گا۔ پاکستانی مذہبی مدرسوں کو افغان جہاد میں اہم کردار دیا گیا تھا۔
سعودی عرب نے موقع سے فائدہ اٹھاکر اپنے پسندیدہ فرقے کو دل کھول کر پیسہ دیا۔ سنہ انیس سو ستتر میں پاکستان میں مذہبی مدرسوں کی تعداد پانچ سو سے کم تھی۔ آج پاکستان میں مدرسوں کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ ہے جن کی اکثریت اہلِ حدیث مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔
ضیاءالحق کی موت کے بعد بےنظیر وزیر اعظم ہوئیں تو قدامت پسند سعودی حلقوں کی بےچینی قابلِ دید تھی۔ بےنظیر نے خود بیان کیا ہے کہ سنہ انیس سو نواسی میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اسامہ بن لادن مالی اعانت کر رہے تھے، بلکہ اسامہ نے تو انہیں ہلاک کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔
اسامہ کی سعودی حکومت سے مخاصمت تو پہلی خلیجی جنگ کے موقع پر شروع ہوئی۔ سنہ انیس سو نواسی میں تو وہ سعودی ہیرو تھے۔ اکتوبر انیس سو چھیانوے میں بےنظیر کا تختہ الٹنے کی کوشش میں بھی عورت دشمن بین الاقوامی مذہبی حلقے ملوث تھے۔
سنہ انیس سو نوے سے دو ہزار دو تک پاکستان میں فرقہ ورانہ قتل وغارت میں محتاط اندازے کے مطابق پانچ سے چھ ہزار شہری ہلاک ہوئے۔ باخبر حلقوں کے مطابق فرقہ وارانہ خونریزی کے اس کھیل میں شیعہ ایران اور سنی سعودی عرب نے پاکستان کو میدانِ جنگ بنا رکھا تھا۔
یہ لڑائی گیارہ ستمبر دوہزار ایک کے واقعات کے بعد ہی دھیمی پڑ سکی۔ اس دوران پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والے کل تین ملک تھے۔ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات۔ گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے بعد پاکستان ہی نے اپنی پالیسی نہیں بدلی، سعودی حکومت نے بھی یہی کیا۔
پاکستانی حکومت اور نواز شریف میں معاہدہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھا، لیکن قانون سے قطع نظر، اس میں نواز شریف بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنی پاکستانی اور سعودی حکومتیں۔ نواز شریف نے مانا ہے کہ انہوں نے سعودی حکومت کی ماورائے قانون مداخلت تسلیم کی تھی۔
ان دنوں تو لاہور اور ملتان کے بازاروں میں ان کے حامی کھکھلا کر کہتے تھے کہ نواز شریف کو مدینے والے نے اپنے گھر بلایا ہے۔ تب سیاسی دباؤ سے نکلنے کے لیے سعودی عرب جانا نواز شریف کی مجبوری تھی۔ اب وطن واپس آنے کی کوشش سیاسی حالات کا تقاضا ہے، لیکن اس بیچ حکومت کی مجبوری آن پڑی ہے کہ انہیں ایک پھر مدینے والا بلا لے۔
یہ سعودی مداخلت کا گلا کرنے کا مقام نہیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس بار کس کس کو بلایا گیا ہے۔ فی الحال تو نواز شریف جدے بیٹھے ہیں۔


بحوالہ بی بی سی اردو

6 comments:

اجمل نے لکھا ہے

گستاخی معاف ۔ اس میں چند صحیح واقعات میں بھاری مقدار میں کھوٹ ملائی گئی ہے ۔ موٹی سی بات یہ ہے کہ اہلِ حدیث کے مدرسے بہت کم ہیں ۔ بنگلہ دیش شاہ فیصل کا منصوبہ نہیں تھا بلکہ اندرا گاندھی ۔ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو کا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو نے منت کر کے شاہ فیصل سے بھی ہاں کروائی مگر اس سے پہلے مغرب کے باجگذار مسلمان حکمرانوں سے ہاں کروا کر اسے متاثر کیا گیا ۔ یہ سب بھٹو اور مغربی طاقتوں کا کھیل تھا ۔ خیال رہے کہ شاہ فیصل اپنے باپ کی طرح مغرب کا پجاری نہیں تھا اور اعتراض کی وجہ سے ملک بدر کر دیا گیا تھا ۔

9/14/2007 08:45:00 PM
Raheel نے لکھا ہے

“خیال رہے کہ شاہ فیصل اپنے باپ کی طرح مغرب کا پجاری نہیں تھا اور اعتراض کی وجہ سے ملک بدر کر دیا گیا تھا ۔


mulk badar honay walay shah faisal kay baray bhai thay jinko shah faisal nay hee shraab noshee kee kasrat kee waja say takht say mazool karkay jala watn kiyya tha.
shah faisal kee mghrab parastee kee misaal...70 kee dahaee main bazahir amreeca ka tail band kiyya - jis say maghrab kay awaam ko muslamanoon kay khilaaf honay ka mauqa mila aur tail companion ko tail kee kamee ka bahana banakay qeemtain barhanay ka - lekin khufiyya tor pay tail kee supply jaree rakhee jo amreeca ko far east main jang jaaree rakhnay kay leeya zarooree thee.
yeah tareekhee haqaiq hain.
saud khandaan kay, maujooda dore main, amreekee hakoomat say taalaqaat ke noeeyat kay leeay Michael Moor kee mashhoor Fahrenheit 9/11 deakh lee jeeay.

9/15/2007 12:56:00 AM
میرا پاکستان نے لکھا ہے

ہر طرف مسلمانوں کی غداری کے چرچے ہیں۔ تاریخ کا کوئی بھی ورق الٹیے غدار دیمک کے کیڑوں کی طرح ملیں‌گے۔ کبھی کوئی قوم شکست کھا ہی نہیں‌سکتی جب تک اس قوم میں‌غدار نہ ہوں۔ مسلمانوں کو ہمیشہ غداروں نے مروایا ہے اور اب بھی مروا رہے ہیں۔

9/15/2007 06:16:00 AM
میرا پاکستان نے لکھا ہے

تحریر سے ہٹ کر ایک بات پوچھنی ہے۔ آپ کے ہیڈر میں پاکستانی کے عنوان سے جو فوٹو آپ نے لگائی ہے اس میں‌بش کی فوٹو کی کوئی تک نظر نہیں‌آتی۔ آپ یا تو عنوان بدل دیں‌یا پھر بش کی فوٹو ہٹا دیں۔

9/15/2007 06:18:00 AM
پاکستانی نے لکھا ہے

اصل میں بش کے لاڈ پاکستان میں اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اب ہمارے سیاستدانوں میں اور اس میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا. بہرحال میں مزید اس سے بہتر بنانے کی کوشش کروں گا.

9/15/2007 05:26:00 PM
راہبر نے لکھا ہے

اچھا لکھا ہے پاکستانی بھائی اور کچھ تلخ موضوعات پر بہت ہمت سے قلم اٹھایا ہے. جزاک اللہ

9/22/2007 06:07:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب