بنام اردو بلاگرز
میں کیا کہنا چاہتا ہوں؟ ۔۔۔ لکھنے کے بعد میں مسلسل سوچتا رہا ہوں کہ آخر میں کہنا کیا چاہتا ہوں؟، کس سے، کیوں اور کس لئے کہنا چاہتا ہوں؟ سوچتا ہوں کہ لکھنا تو ایک بہانہ ہے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا، مگر پھر ایک سوال میرے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے کہ کیا تمام دوسرے بلاگرز بھی صرف اس لئے لکھتے ہیں؟ صرف دل کی بھڑاس کے لئے یا اس کے پیچھے کچھ اور بھی مقاصد ہوتے ہیں؟
ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے مجھے بلاگ شروع کئے ہوئے، مگر میں آج تک ایک بات نہیں سمجھ پایا کہ ہم لوگ اپنی تحریروں میں کس قوم، کن عوام اور کون سے لوگوں کی باتیں کرتے رہتے ہیں؟ کن کی محرمیوں، ذلتوں اور حقوق پر کڑھتے رہتے ہیں؟ انہی لوگوں میں رہتے ہوئے، ان کی نفسیات جانتے ہوئے انجان بن جانتے ہیں۔ ہم لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ عوام نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔ یہ تو ایک بے سمت ہجوم ہے، ایک بھیڑ ہے جس میں ہم لوگ بلاوجہ چلا چلا کر گلا پھاڑ رہے ہیں۔ ہم دیوانے بھی کن لوگوں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں؟ کسے پکار رہے ہیں؟ کسے جگانے اور جھنجھوڑنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں؟ یہ لیڈر ان کو لوٹ رہے ہیں تو ٹھیک کر رہے ہیں، دال، چینی سستی کر کے یوٹیلٹی سٹورز کے باہر لمبی لائنیں لگوا کر ان کو بے عزت کر رہے ہیں تو ٹھیک کر رہے ہیں۔
جن لیڈروں کے ہاتھوں یہ پٹ رہے ہیں، لٹ رہے ہیں، مر رہے ہوتے ہیں،اجڑ رہے ہوتے ہیں انہی لیڈروں کے جلسوں کو بھی بھر رہے ہوتے ہیں۔ بےنظیر ہو یا نوازشریف، قاضی حسین احمد ہو یا فضل الرحٰمن، پرویزمشرف یا شوکت عزیز یہی عوام ان کے جلسوں میں جھنڈے اٹھائے حلق پھاڑ پھاڑ نعرے لگا رہے ہوتے ہیں کہ ان کا ہر جلسہ ‘ہاؤس فل‘ جاتا ہے۔
یہ سب کچھ اس لئے لکھا جا رہا ہے کہ اپنی بربادی کا رونا رونے والے عوام اپنا اصلی چہرہ بھی دیکھ سکیں۔
کون ہے جو کرپٹ نہیں؟
جس کا جتنا بس چلتا ہے، اتنا ہی دوسرے کو لوٹ لیتا ہے۔
پنکچر لگانے والا سواری کے مالک کو غافل پا کر ٹیوب میں دوچار اور سوراخ کر دیتا ہے۔
دکاندار کم تولتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔ واقف کار کی کھال زیادہ اتارتا ہے کیونکہ وہ اس پر اعتبار کرتا ہے۔
کوئی سرکاری دفتر ایسا ہے جہاں سرعام رشوت نہ چلتی ہو، چپڑاسی سے لیکر افسر تک سبھی نے اپنے ریٹ مقرر کئے ہوئے ہیں۔
عوام عوام کو نوچ کھانے کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کی آنکھوں سے بھوک اور منہ سے رال ٹپکتی نظر آتی ہے، چیلوں کی طرح ایک دوسرے کی کھال نوچتے ہیں۔
خواص ہی نہیں ۔۔۔ عوام عوام کے دشمن ہیں، اپنی ذات کے بدذات کو ووٹ دیں گے چاہے وہ بےغیرت اور بدمعاش ہی کیوں نہ ہو۔ چند کلو چینی،دال، گھی اور چند تھیلے آٹے کے لئے تو یہ ضمیر بیچ دیتے ہیں۔
اردو بلاگرو!
اللہ نے آپ کو بہت جاندار قلم دیا ہے، اپنی جان ہلکان نہ کریں، اسے کسی اور کام لگائیں، کچھ اور لکھیں جس سے نام بھی زیادہ، دام بھی زیادہ۔
ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے مجھے بلاگ شروع کئے ہوئے، مگر میں آج تک ایک بات نہیں سمجھ پایا کہ ہم لوگ اپنی تحریروں میں کس قوم، کن عوام اور کون سے لوگوں کی باتیں کرتے رہتے ہیں؟ کن کی محرمیوں، ذلتوں اور حقوق پر کڑھتے رہتے ہیں؟ انہی لوگوں میں رہتے ہوئے، ان کی نفسیات جانتے ہوئے انجان بن جانتے ہیں۔ ہم لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ عوام نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔ یہ تو ایک بے سمت ہجوم ہے، ایک بھیڑ ہے جس میں ہم لوگ بلاوجہ چلا چلا کر گلا پھاڑ رہے ہیں۔ ہم دیوانے بھی کن لوگوں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں؟ کسے پکار رہے ہیں؟ کسے جگانے اور جھنجھوڑنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں؟ یہ لیڈر ان کو لوٹ رہے ہیں تو ٹھیک کر رہے ہیں، دال، چینی سستی کر کے یوٹیلٹی سٹورز کے باہر لمبی لائنیں لگوا کر ان کو بے عزت کر رہے ہیں تو ٹھیک کر رہے ہیں۔
جن لیڈروں کے ہاتھوں یہ پٹ رہے ہیں، لٹ رہے ہیں، مر رہے ہوتے ہیں،اجڑ رہے ہوتے ہیں انہی لیڈروں کے جلسوں کو بھی بھر رہے ہوتے ہیں۔ بےنظیر ہو یا نوازشریف، قاضی حسین احمد ہو یا فضل الرحٰمن، پرویزمشرف یا شوکت عزیز یہی عوام ان کے جلسوں میں جھنڈے اٹھائے حلق پھاڑ پھاڑ نعرے لگا رہے ہوتے ہیں کہ ان کا ہر جلسہ ‘ہاؤس فل‘ جاتا ہے۔
یہ سب کچھ اس لئے لکھا جا رہا ہے کہ اپنی بربادی کا رونا رونے والے عوام اپنا اصلی چہرہ بھی دیکھ سکیں۔
کون ہے جو کرپٹ نہیں؟
جس کا جتنا بس چلتا ہے، اتنا ہی دوسرے کو لوٹ لیتا ہے۔
پنکچر لگانے والا سواری کے مالک کو غافل پا کر ٹیوب میں دوچار اور سوراخ کر دیتا ہے۔
دکاندار کم تولتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔ واقف کار کی کھال زیادہ اتارتا ہے کیونکہ وہ اس پر اعتبار کرتا ہے۔
کوئی سرکاری دفتر ایسا ہے جہاں سرعام رشوت نہ چلتی ہو، چپڑاسی سے لیکر افسر تک سبھی نے اپنے ریٹ مقرر کئے ہوئے ہیں۔
عوام عوام کو نوچ کھانے کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کی آنکھوں سے بھوک اور منہ سے رال ٹپکتی نظر آتی ہے، چیلوں کی طرح ایک دوسرے کی کھال نوچتے ہیں۔
خواص ہی نہیں ۔۔۔ عوام عوام کے دشمن ہیں، اپنی ذات کے بدذات کو ووٹ دیں گے چاہے وہ بےغیرت اور بدمعاش ہی کیوں نہ ہو۔ چند کلو چینی،دال، گھی اور چند تھیلے آٹے کے لئے تو یہ ضمیر بیچ دیتے ہیں۔
اردو بلاگرو!
اللہ نے آپ کو بہت جاندار قلم دیا ہے، اپنی جان ہلکان نہ کریں، اسے کسی اور کام لگائیں، کچھ اور لکھیں جس سے نام بھی زیادہ، دام بھی زیادہ۔
5 comments:
ہم آپ کي راۓ سے سو فيصد متفق ہيں ليکن ايک بات ياد رکھيں کہ ہمت ہارنا گناہ ہے ہميں کوشش کرتے رہنا چاہيۓ اور نتيجہ اللہ پر چھوڑ دينا چاہيۓ۔
6/09/2006 07:52:00 AMجن حالات میں ھم رہ رہے ھیں کیا کبھی ھم نے یہ سوچا ھے کہ یہ حالات کہاں سے اور کس اصول کے تحت ہم پر اتے ھیں؟ زمین سے جس قسم کے اعمال اٹھتے ھیں اسی قسم کے حالات اسمان سے بھیجے جاتے ھیں۔ اپ صرف پاکستان کے حالات کو دیکھ کر مایوس ہورھے ھیں۔ ھمیں ساری امت کے حالات کے اوپر سوچنا چاھیے اور اس کے لیے اپنی قوت کے مطابق کوشش کرنی چاھیے۔ جتنی بڑی نیت ھوگی اتنا ھی زیادہ اجر ملے گا۔ناامیدی اور مایوسی سے بچنا اور ان پر قابو پانا کامیابی کی اولین شرط ھے۔ ہمیں یہ سیکھنا ھوگا کہ جب کوئی امید نہ ہو تب بھی امید کا دیا روشن رہے اور جب راستے بند نظر ایئں تب بھی سفر جاری رھے محنت اور مسلسل محنت، کوشش اور مسلسل کوشش ہی کامیابی کی کنجی ھے اور اگر باالفرض ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو تب بھی ہمیں یاد رھے کا اللہ کے حضور نتیجے کا نھیں بلکہ کوشش کا سوال ھوگا!!!!!!
6/12/2006 12:21:00 AMمیرا پاکستان
6/15/2006 04:43:00 PMاسیر صاحب
سولہ آنے سچ کہا ہے آپ نے کہ ‘ہمت ہارنا گناہ ہے‘ اللہ تعالٰی معاف کرنے والا ہے ورنہ ہم انسان تو بس دوچار کوششوں میں ہی ہمت ہارنے لگتے ہیں، ایک بار گر گئے تو پھر اٹھنے کی سکت نہیں رہتی، اسی لئے کہا گیا ہے کہ بڑا انسان وہی ہے جو گرتوں کو سنبھالا دے۔ علامہ صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
پلٹنا چھبٹنا، چھبٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
اسیر صاحب آپ کی تشریف آوری کا بہت شکریہ یوں ہی تشریف لا کر اپنی قیمتی مشوروں سے نوازتے رہیئے گا۔
بہت شکریہ
بھائی جان ہمت نہیں ہارنی چاہئیے اور ویسے بھی مایوسی گناہ ہے
8/25/2010 11:50:00 AMمیں آپ کی بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ یہ قوم ایسی ہی رہے گی
8/30/2010 09:51:00 AMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔