22 September, 2012

شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے

فرض کیجیے کہ آپ پاکستانی نہیں ہیں، پاکستان سے باہر رہتے ہیں لیکن حالات حاضرہ میں دلچسپی اور عالمی خبروں پر نظر رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پچھلی ایک دہائی میں دہشتگردی سے متعلق خبروں کی وجہ سے پاکستان بھی آپ کی توجہ کا مرکز رہا ہو گا۔

یہ عین ممکن ہے کہ دنیا میں کروڑوں اور لوگوں کی طرح آپ کی یہ دلچسپی محض خبریں سننے تک ہی محدود ہو اور پاکستان کو اس سے زیادہ سمجھنے کا نا تو آپ کے پاس وقت ہو اور نہ ہی خواہش۔ لیکن حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے زیادہ تر لوگوں کی طرح آپ بھی خبروں کی بنیاد پر پاکستان کے بارے میں رائے قائم کرنے میں کوئی خاص ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے ہوں۔

تو جمعہ اکیس ستمبر کو جب پاکستان میں ہونے والے احتجاج یا بقول حکومت وقت کے پاکستان میں منائے جانے والے یوم عشقِ رسول کی کوریج دنیا بھر کے میڈیا پر آپ نے دیکھی ہو گئی تو اس سے کیا نتیجہ نکالا ہو گا؟

ظاہر ہے میں نے بھی ٹیلی ویژن پر یہ کوریج دیکھی۔ پشاور میں ایک سینما ہال جل رہا ہے۔ کسی جگہ ایک موٹر سائیکل سے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔ چند لوگ ایک بند دکان کے شٹر پر دھڑا دھڑ ڈنڈے برسا رہے ہیں۔ سڑکوں پر جگہ جگہ ٹائر یا پرانے فرنیچر کے ٹکڑے جل رہے ہیں۔ پھر ہسپتال کے مناظر نشر ہوتے ہیں۔ خون میں لت پت ایک شخص کو ایمرجنسی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے یہ کسی دشمن رسول نہیں بلکہ عاشقان رسول کے ہاتھوں گھائل ہوا ہے۔ سڑکیں، چوراہے اور بند بازار آنسو گیس کے بادلوں سے اٹے ہوئے ہیں۔

ہمیں بار بار بتایا جا رہا ہے کہ پولیس مظاہرین کے سامنے بے بس ہے۔ اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مظاہرین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جہاں کہیں بھی کسی چینل کا کیمرہ مین کوئی نیا شعلہ تلاش کر لیتا ہے وہ چینل اس شعلے کی تصاویر کے سامنے ایکسکلوسیو کی پٹی چلانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ سب مناظر دیکھنے کے بعد، اگر آپ پاکستان سے باہر رہنے والے ایک غیر پاکستانی ہیں، تو آپ کے ذہن میں کیا سوالات اٹھیں گے؟

ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ خیال آئے کہ کیا یہ عشق ہے جو دھکم پیل، مارا ماری، گھیراؤ جلاؤ، آگ اور خون کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے؟ اگر ہاں تو عجب بھیس ہے۔ جس کا سینما گھر یا موٹر سائیکل جلا، جس کی دکان ٹوٹی یا جس کو اپنی تمام تر مجبوریوں کے باوجود اپنا کاروبار بند کرنا پڑا، کیا وہ عاشقِ رسول نہیں ہے؟ جس کا بچہ یوم عشقِ رسول منانے گھر سے نکلا لیکن خون میں لت پت ہسپتال جا پہنچا، کیا پیغمبرِ اسلام کے لیے اس کی محبت مشکوک تھی۔

لیکن یقیناً آپ کے ذہن میں سب سے اہم سوال یہ ہو گا کہ محبت کے اظہار کا یہ کیسا طریقہ ہے جس میں اپنوں کی ہی املاک جلائی جا رہی ہیں اور اپنوں کے ہاتھوں اپنے ہی گھائل ہو رہے ہیں۔ اور کیونکہ یقیناً اس سوال کا کوئی منطقی جواب نہیں تو شاید آپ یہ پوچھنے پر مجبور ہو جائیں کہ کیا ان بھڑکے ہوئے جذبات کے پیچھے عشقِ رسول ہے یا کچھ اور؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ عشق کی آڑ میں کوئی ایسی بھڑاس نکالی جا رہی ہے جس کا نا تو عشق سے کوئی تعلق ہے اور نا ہی کسی پیغمبر سے۔

دنیا میں اور بھی کئی ممالک میں اسلام مخالف فلم پر مظاہرے ہوئے ہیں۔ اس لمبی فہرست میں مصر، اردن، اسرائیل، یمن، لبنان، تیونس، سوڈان، بھارت، عراق، ایران، بحرین، افغانستان، ملائیشیا، انڈونیشیا، نائجیریا، لیبیا اور شام شامل ہیں۔ ان میں کئی ایک جگہوں پر یہ مظاہرے پرتشدد بھی ہو گئے لیکن کیا وجہ ہے کہ خود اذیتی کا عنصر سب سے زیادہ صرف پاکستان میں ہی دیکھنے کو ملا ہے۔

پاکستانیوں کو اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ دنیا انہیں یا تو صحیح طور پر سمجھتی نہیں یا دانستہ انہیں صحیح رنگ میں پیش نہیں کرتی۔ لیکن کیا یہ جلاؤ گھیراؤ کرنے والے لوگ دنیا کو سمجھا سکتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ دنیا کو تو کیا وہ پاکستان میں بسنے والے کروڑوں عاشقان رسول کو نہیں سمجھا پا رہے جیسا کہ ہماری ویب سائٹ پر قارئین کی رائے سے صاف ظاہر ہے۔

سو پاکستان سے جو مناظر آج دنیا بھر میں نشر ہوئے ہیں ان سے تو شاید یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان مظاہرین کو عشق نہیں۔ اپنے آپ سے بھی، قوم سے بھی، ملک سے بھی، مذہب سے بھی اور اپنے محبوب سے بھی۔

اسلام آباد میں میرے ساتھی طاہر عمران بی بی سی اردو کے لیے سوشل میڈیا پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کلِک آج کا کالم ضرور پڑھیے گا۔ ایک جھلک یہاں شامل کرتا ہوں۔ ضیاالرحمٰن نے ٹوئٹر پر لکھا ’براہ مہربانی آج اپنی دکان نہ کھولیں نہ ہی کام پر جائیں کیونکہ شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے‘۔ مکمل شعر کچھ یوں ہے۔ 
 
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر
  شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے۔

1 comments:

Unknown نے لکھا ہے

thanks for share arabic good post.

Quran Tutor At Home

12/21/2012 12:36:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب