28 March, 2011

اسٹیٹ بینک کا تجزیہ

اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ ریاستی اور اقتصادی ڈھانچے میں بامقصد اصلاحات نہ کی گئیں تو معیشت کو لاحق خطرات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ لاہور میں اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس ہوا جس میں زرعی پالیسی کا جائزہ لیا گیا ، اور آئندہ 2 ماہ کے لیے شرح سود کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، پاکستان کی معیشت کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آمدنی اور اخراجات میں فرق بڑھتا جارہا ہی، اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قرض کی پالیسی اختیار کی گئی ہی، اس پالیسی نے ملکی معیشت کو نہ صرف یہ کہ تباہ کیا ہے بلکہ قومی آزادی و خود مختاری بھی سلب کر لی ہی، پاکستان کی معیشت کی تباہ حالی کا اشارہ اسی ہفتے شائع ہونے والی 2 رپورٹوں میں سامنے آیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے عالمی ادارہ خوراک نے پاکستان کے بارے میں رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں گندم سمیت زرعی پیداوار وافر ہوئی ہی، ضرورت سے زیادہ گندم کی پیداوار کے باوجود اس کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ 23 فیصد افراد اپنی غذائی ضروریات پوری نہیں کر سکتی، اسی طرح کچھ عرصہ قبل بھی اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ جاری کی تھی، اس رپورٹ کے مطابق گندم کے ذخائر اس لیے محفوظ رہ گئے ہیں کہ بہت بڑی آبادی اپنی آمدنی میں گندم کی خریداری کی استطاعت بھی نہیں رکھتی، دوسری طرف معیشت و تجارت کی سرگرمیوں کی صورت حال کا اندازہ اس رپورٹ سے کیا جاسکتا ہے کہ تقریباً 100 کے قریب صنعت کاروں نے اپنی صنعتیں پاکستان سے بنگلہ دیش، سری لنکا جیسے ملکوں میں منتقل کر لی ہیں، پاکستان میں معاشی اور اقتصادی بحران کے باوجود 2 عوامل ایسے ہیں جس نے حالات کو سنبھالا ہوا ہے۔ ایک عامل یہ ہے کہ پاکستان میں زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے اور دوسرا عامل یہ ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر نے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو ضرورت کے مطابق برقرار رکھا ہوا ہے۔ ان دونوں عوامل میں حکومت پاکستان اور اس کے اقدامات و پالیسیوں کا کوئی دخل نہیں ہی، پاکستان گزشتہ دنوں سیلاب کی بدترین تباہ کاری کا شکار ہوا، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور زرعی اجناس کے ذخائر محفوظ رہی، سیلاب کے بعد زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہی، سیلاب کی تباہ کاری کے دوران حکومت کہیں نظر نہیں آئی، اسٹیٹ بینک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے حالات کا اثر پاکستان پر پڑ سکتا ہی، کیونکہ اگر ان علاقوں میں شورش بڑھتی رہی تو زرمبادلہ کی ترسیلات متاثر ہو سکتی ہیں۔ پاکستانی معیشت کو درپیش مثبت اور منفی عوامل کے باوجود مرکزی بینک کی سفارشات میں ملکی معیشت کی اصلاح کے لیے حقیقی تجاویز موجود نہیں ہیں۔ معیشت کی تباہی کی جڑ سودی معیشت ہے۔ جس زری پالیسی کو اسٹیٹ بینک سخت پالیسی قرار دیتا ہی، اس کے تحت شرح سود بڑھا دی جاتی ہی، اس وقت شرح سود سب سے اونچی شرح یعنی 14 فیصد ہی، نئی پالیسی یعنی پرانی شرح کو برقرار رکھا گیا ہے۔ تمام ماہرین معیشت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شرح سود میں اضافے سے مہنگائی بڑھتی ہے کیونکہ اس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا ہی، ان تجربات کے بعد اس بات کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ ملکی معیشت کی تباہی کا سبب سودی معیشت ہے۔ سود کو اللہ نے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ اور انسانوں کے اوپر ظلم کا سبب قرار دیا ہے۔ ایک زمانے میں سیکولر اور مغرب زدہ طبقہ یہ کہا کرتا تھا کہ سود کے بغیر معیشت ترقی نہیں کر سکتی، لیکن ان تجربات نے بتا دیا ہے کہ سودی معیشت ظلم و استحصال کا سب سے بڑا سبب ہے سود خود مہاجن اپنی فطرت کے اعتبار سے ظالم اور سفاک ہوتا ہی، دنیا میں کبھی بھی بینکار کو ماہر معیشت کا درجہ حاصل نہیں رہا، جب سے پاکستانی معیشت بلکہ سیاست تک معین قریشی، شوکت عزیز، شوکت ترین جیسے عالمی سود خور مہاجنوں کے مشورے پر چل رہی ہے پاکستان کی معیشت تباہ و برباد ہو گئی ہے۔ پاکستان زرعی پیداوار میں خود کفیل ہے لیکن بھوک اور افلاس کی وجہ سے غریب مائیں اپنے بچوں سمیت خودکشی کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں، بے روزگاری کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہی، یہ صورت حال ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی سود خور اداروں نے پاکستان پر مسلط کی ہیں۔ اب ان کا مشورہ یہ ہے کہ سود خوروں کے سود کی ادائیگی کے لیے پاکستان میں مظلوم عوام کے اوپر مزید ظالمانہ ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا جائی، اس بات کو گورنر اسٹیٹ بینک سمیت تمام نام نہاد ماہرین معیشت ”اسٹرکچرل ریفارم“ یا ڈھانچا جاتی اصلاحات کا نام دیتے ہیں۔ خوبصورت اصطلاحات کے پردے میں بیرونی قوتوں کی غلامی کو چھپایا جاتا ہے۔ یہ کام وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کا رشتہ اپنی قوم سے کمزور ہو، وہ ضمیر فروش اور بدعنوان ہوں، جو اپنے مفادات کے لیے قوم کو فروخت کر دیں، میر جعفر اور میر صادق سے لے کر آج تک قوم فروش حکمرانوں کا طبقہ پاکستان کے مسلم عوام کی گردنوں پر مسلط ہی، بیرونی غلامی، بدعنوان اور ضمیر فروش طبقہ کی حکمرانی کی دہری مصیبت پاکستان کے عوام پر مسلط ہے۔ پاکستان کے عوام اربوں روپے کے بیرونی اور اندرونی قرضوں کی معیشت میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان قرضوں کا کوئی فائدہ پاکستان کے عوام کو نہیں ملا ہی، حکومتی وسائل صرف تین کاموں میں صرف ہو جاتے ہیں بیرونی اور ملکی قرضوں کا سود، دفاع کے نام پر فوجی اخراجات اور افسر شاہی کے لیے انتظامی اخراجات بہت ہی مختصر رقم ترقیاتی اخراجات کے لیے باقی بچتی ہے۔ حکومت نے انسانی فلاح و بہبود کے شعبوں کو بھی تجارت بنا دیا ہے اور صحت و تعلیم جیسا بنیادی شعبہ سرمایہ داروں کے استحصال کا سبب بن گیا ہی، دفاع کے نام پر پاکستان پر دہشت گردی کے خاتمے کی نام نہاد امریکی جنگ مسلط کر دی گئی ہے۔ پاکستان کے عوام کی رگوں سے خون نچوڑ لینے والے ٹیکسوں سے خریدا جانے والا اسلحہ پاکستان کے عوام کے سینوں کو شکار کر رہا ہے۔ بلوچستان سے لے کر قبائلی علاقہ جات تک فوجی آپریشن کے نام پر پاکستانی فوج اپنے ہی شہریوں سے برسر جنگ ہے۔ دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے اور وہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کر رہے ہیں، ان حالات میں پاکستان کے حالات بھی تیونس اور مصر کی طرح ہو گئے ہیں۔ لیکن پاکستان کے حکمراں اب بھی سبق سیکھنے پر تیار نہیں ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر اور بورڈ آف ڈائریکٹر نے حکومت کو جو مشورہ دیا ہے اس کا لب لباب صرف یہ ہے کہ وہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت عوام پر نئے ٹیکسوں کو نافذ کری، معیشت کی جس تباہی سے ڈرایا جارہا ہے اس کو تو قوم بھگت ہی رہی ہے۔

1 comments:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

اصل قصور تو ان عوام کا ہے جو چوروں ۔ لُٹيروں اور دغابازوں کو ووٹ دے کر کامياب کرتے ہيں کہ مزيد لُوٹ مار کريں

3/28/2011 02:55:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب