نظربندی کے ساتھ زبان بندی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظر بندی ختم کرنے کی درخواست خارج کرتے ہوئے انہیں اندرون ملک اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لئے سفر کرنے کی اجازت دی ہے جبکہ ایٹمی پھیلاؤ سے متعلق بیانات پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے قریبی دوست بیرسٹر اقبال جعفری کی جانب سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست پر چیف جسٹس سردار محمد اسلم پر مشتمل عدالت نے سوموار کو اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ ڈاکٹر قدیر کو اپنے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں سے اپنے گھر اور ملک کے دیگر شہروں میں ملنے کی اجازت ہو گی۔ تاہم ایسا متعلقہ حکام کی جانب سے مناسب سیکورٹی کے بندوبست کے بعد ممکن ہو گا۔
بیرسٹر اقبال جعفری نے ایک رکنی بنچ کے اس فیصلے کے خلاف اسی عدالت میں نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
عدالت نے ڈاکٹر قدیر کو پابند کیا ہے کہ وہ ان قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کی فہرست سیکورٹی سے متعلق اداروں کو فراہم کریں گے جن سے ملاقات کی وہ خواہش رکھتے ہیں۔
عدالت نے ڈاکٹر قدیر کو ایٹمی پھیلاؤ سے متعلق بیان جاری کرنے یا اس موضوع پر اپنے کسی دوست یا رشتے دار سے گفتگو کرنے سے باز رہنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی پسند کے ڈاکٹر سے علاج کروا سکیں گے اور حکومت کو ان کی خواہش پر انہیں پاکستان سائنس فاؤنڈیشن جانے کا بندوبست کرنے کی بھی ہدایت جاری کی گئی ہے۔
بیرسٹر اقبال جعفری نے اس درخواست میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ ڈاکٹر قدیر کی نظر بندی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی نقل و حرکت اور میڈیا سے بات کرنے پر پابندی کو ختم کیا جائے۔
فیصلے کے بعد کمرہ عدالت کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر اقبال جعفری نے کہا کہ آج کے فیصلے سے یہ بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ ڈاکٹر قدیر زیر حراست ہیں۔
عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں ایٹمی سائنسدان کے لئے زیرحراست ہونے کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ جبکہ حکومت کا موقف رہا ہے کہ ڈاکٹر قدیر قطعی طور پر نظر بند نہیں ہیں اور یہ کہ ان کے گھر کے باہر پولیس حفاظتی نکتہ نظر سے تعینات ہے کیونکہ بطور ایٹمی سائنسدان وہ دشمنوں کے لئے فوجی ہدف جتنی اہمیت رکھتے ہیں۔
بیرسٹر اقبال جعفری کی اس استدعا پر کہ ڈاکٹر قدیر کو میڈیا کے سامنے آنے کی اجزات دی جائے، عدالت نے کہا کہ ڈاکٹر قدیر سمیت ملک کے تمام اہم افراد اور وزیروں کو روایتی پروٹوکول سے اجتناب برتنا چاہیے۔ وکیل کی اس زبانی درخواست پر عدالت نے کہا کہ جتنا غیر ضروری پروٹوکول ہمارے ملک میں رائج ہے، دنیا میں کہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
اسی عدالت میں ڈاکٹر قدیر کی اہلیہ کی ایک درخواست زیرسماعت ہے جس میں انہوں نے استدعا کی ہے کہ عدالت ایک کمیشن کے ذریعے ایٹمی پھیلاؤ میں ملوث افراد کی نشاندہی کا بندوبست کرے۔
کیا واقعی عدالتیں آزاد ہیں؟ یا کروڑ کمانڈرز (کور کمانڈرز) کے احکامات عوام الناس کے لئے نشر کرنے کی جگہیں؟
یہ تو فوجی عدالتیں Military Courts ہیں۔ جہاں کروڑ کمانڈرز کے پاس سے آیا ہوا فرمان پڑھ کر سنایا جاتا ہے اور اس سے زیادہ تو ان کی کوئی حیثیت پہلے کبھی تھی نہ آج ہے، نہ موجودہ ‘ملازموں‘ میں سے کوئی ان حالات کو بدلنے کے حق میں کبھی ہو گا۔
یقیناََ اگر فخرامت ڈاکٹر عبدالقدیر خان زبان کھولیں گے تو جرنیلوں کا ڈالر کمانے کا نیو کلئیر کاروبار جو ہر چہار طرف پھیلا ہوا ہے وہ دنیا کو پتہ چلے گا۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جب یہ سب کچھ دنیا کو معلوم ہو کر ہی رہے گا۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔