خودداری
غیرت نہ تو خودی ہے نہ ہی اناء، غیرت تو ایک جذبہ ہے جو قوموں کی حمیت کو برقرار رکھتا ہے، نہ کہ قوموں کو بےقرار، یہ ایسا جذبہ ہے کہ اگر قوموں میں بےقراری آجائے تو جراری کی تاریخیں رقم ہوجایا کرتی ہے۔معاشرہ میں ہائی جیک ہوئے جذبوں میں سے ایک خوبصورت جذبہ “غیرت“ ہے۔ جب غیرت قوموں میں سے رخصت ہو جائے تو وُہ قومیں اقوام میں شمار نہیں ہوا کرتی۔ بلکہ اُن کا شمار کسی بھی مرتبہ میں نہیں رہتا۔ یہ بات صرف اقوام کی حد تک نہیں ہمارا معاشرہ بھی یہی ہمیں سمجھاتا ہے۔ ہمارے رشتوں میں ؛جو رشتے ہاتھ پھیلاتے رہتے ہیں، وُہ رشتے رشتہ داری میں شمار نہیں کیے جاتے۔ اکثر اُنھیں اچھوت کی طرح سمجھا جانےلگتا ہے۔اللہ کسی کو بھی ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہ کرے۔ جب انسان کا وزن نہ رہے تو اُسکی بات کا بھی وزن نہیں رہتا، جسکا جہاز ڈوب جائےلوگ اُسی کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔خوددار قومیں اپنا وزن غیرت سے برقرار رکھتی ہیں۔ تبھی خوددار قومیں مر جاتی ہیں مگر اپنی غیرت کا سودا نہیں کیا کرتیں۔ بہت سےقبائل کا ایک مقولہ رہا: ”سر کٹوا سکتے ہیں مگر جھک نہیں سکتے“
ایک فلمی کہانی کچھ یوں تھی: ایک جاگیر دار غریب کسانوں سے زمین خریدنے کی کوشش کرتا ہے مگر کوئی کسان بھی اُسکی بات خاطر میں نہیں لاتا، ایک رات وُہ تمام کھلیانوں میں پکی فصل کوآگ لگواتا ہے۔ اگلی ہی صبح جاگیر دار اظہار ہمدردی میں مدد کوآتا ہے۔ بغیر کسی شرط کےگندم، چاول، دال کی بوریاں بطور خوراک مدد دیتا ہے، و ُہ ایک سال تک ایسے ہی امدادی خوراک دیتا ہے، کچھ عرصہ بعد معمولی سے سود پربحالی امداد کا قرض دیتا ہے، اس عرصہ کے دوران، وُہ گاؤں والوں میں شراب اور جواء کی لَت ڈالتا ہے، پھر اُن خوددار گاؤں والوں کو کام کےعادی سے کام چوری کی عادت پڑتی ہے۔ تمام گاؤں جاگیردار کی جوتیاں چاٹنے کیلیے سب کچھ کرنےکو تیار ہوتا ہے۔ وُہ اپنی عورتوں کو قحبہ خانہ کی نظر کرتے ہیں۔ آخر اُنکی تمام زمینیں قرض وسود کےعوض جاگیردار باآسانی ہتھیاتا ہے۔ ماضی کے غیرت مند وُہ گاؤں والے نشے میں دھت ہیں یا کچھ اپنی بے بسی پر کراہتے ہیں اور کسی مسیحا کےانتظار میں وقت بیتانےلگتے ہیں۔
اسلام میں ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کرو، یوں مدد کرو کہ کسی کو محسوس بھی نہ ہونے پائے، مقصد یہ ہے کہ مدد بھی ہوجائے اور کسی کی خوداری کو ٹھیس بھی نہ پہنچ پائے۔
غیرت یہ نہیں کہ غیرت کےنام پر قتل کیا جائے، غیرت تو یہ ہے کہ اپنی خوداری کا قتل نہ کرے۔ایسی خود سوزی سے موت کو گلےلگا لینا زیادہ بہتر ہے۔
غیرت ہے کیا؟ اپنے حق پر کسی کو ڈاکا نہ ڈالنے دینا اور کسی سے اُسکا حق چھیننا گوارہ نہ کرنا۔ اپنی حد میں رہتے ہوئے، پورے شان اور وقار سے زندگی دوسروں کے لیے بسر کرنا۔ کسی بھی حال میں دوسرے کےمال پر نظر نہ رکھنا اور اپنے مال میں سے ضرورت مندوں میں تقسیم کرتے رہنا۔ ہاتھ پھیلانے کی بجائے، خدا کے حضور سر کٹوا لینا کو ترجیح دینا۔ فقیرانہ حالت میں بھی شاہانہ انداز سے زندگی بسر کرنا ہی خودار اقوام کا طرز زندگی ہے۔ خوددار افراد کسی بھی صورت اپنا اُدھار باقی نہیں رکھتی۔ وُہ فوراً ہی کچھ نہ کچھ ادا کر کے معاملہ ہی چکا دیتے ہیں۔
ہمارے خطہ کا شمار غیور اور خودار اقوام میں ہوتا رہا ہے؟ سکندراعظم کےحملہ سے موجودہ دور تک خودداری کی انمول مثالیں تاریخ بنی۔ ابراہیم لودھی اور مرہٹہ ؛عوام پر مظالم کے باوجود غیرت مند شکست خوردہ شخصیات ہیں۔ ٹیپوسلطان، نواب سراج الدولہ، سید احمد شہید کی سوانح حیات خودداری کی علمبردار رہی۔ برصغیرمیں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے سات شاتم رسولوں کو سات عظیم شہداء (غازی علم دین شہید، غازی عبدالقیوم شہید، غازی محمد صدیق شہید، غازی عبداللہ شاہ شہید، غازی عبد الرّشید شہید، غازی میاں محمد شہید، غازی مرید حسین شہید) نے محبت رسول میں جہنم واصل کیا۔
معاشرتی رسم و رواج میں بیٹی کو غیر گھر میں بیاہ دینے کے بعد، وہاں سے پانی نہ پینا، غیر اور دشمن کے مہمان کو بھی اپنا مہمان سمجھ کر بھرپور مہمان نوازی کرنا، کسی بھی انجان کی پکار پر لبیک کہنا، کسی کی جاہ وجلال کے آگے جھکنے کی بجائے اپنے اصولوں پر ڈٹ کر فیصلہ کرنا ہی اس خطہ کی روایات رہی ہیں۔
قائد اعظم ایک خوددار رہنما تھے، اُنھوں نے قوم کو بھی خودداری کی تعلیم دی، جبکہ کہا جاتا ہے کہ گاندھی کی پالیسی انا پرستی کی حد تک رہی۔ اقبال کی خودی میں ہم قائد کی خودداری بھی دیکھتے ہیں۔
انا اور خوداری میں یہی فرق ہے کہ انا اپنی ذات کے لیے ہوتی ہے اور خوداری دوسروں کی بھلائی کے لیے ہوتی ہے۔ خودداری قوموں میں اصلاح کا عمل پیدا کرتی ہے، انا انسان میں بیگاڑ لاتی ہے۔ انا ضد لاتی ہے، خودداری اُصول پرڈٹے رہنا سکھاتی ہے۔ شخصیت وُہ خودی ہے جو زندگی کو منظم بناتی ہے۔
یہ مثالیں صرف کتب یا تاریخ میں نہیں ملتی بلکہ آج بھی حقیقی زندگیوں میں حقیقت کا روپ بھر رہی ہیں، نہ ہی یہ عمل طبقات تک محددو ہے۔ ہمارے ملک ہی کے ایک نامور مزاح نگار کچھ دہائیوں قبل جب بیمار تھے تو اُنھوں نے اپنےحالات کی تنگدستی کے باعث شہر کو خیرباد کہنے کا ارادہ کرلیا، جب وقت کےسپاہ سالار اعظم کو یہ خبر ہوئی تو اُس نے فوری ملاقات کی اور شہر نہ چھوڑنےکی گزارش فرمائی اور عرض کیا کہ آپ ایک درخواست لکھ دیں تو صدر ِپاکستان اُنکا وظیفہ مقرر فرما دیں گے۔ اُنھوں نےاس بات کو اہمیت نہ دی، کچھ عرصہ بعد وُہ جنرل صاحب درخواست کے کاغذات خود لے کر آئے کہ اِن کو پُر کر دیجیے، مگر اُن مزاح نگار نے بات پھر ٹال دی، اگلی مرتبہ جنرل صاحب فارم بھر کر لے آئے اور کہا دستخط فرما دیجیے مگر مزاح نگار نےایسا نہ کیا۔ اُنکا مئوقف تھا، میں کیوں بھیک مانگو؟ اگر صدر مملکت میری مدد فرمانا چاہتے ہیں تو اس کاغذی بھیک کے بغیر فرمائے۔ دراصل اُنکی غیرت کو گوارہ نہ تھا کہ اُنکو کوئی خیرات دی جائے جبکہ حالات تنگ دستی کاشکار تھے۔ آج وُہ تینوں شخصیات حیات نہیں مگر ایک خوداری کی تازہ ترین مثال چھوڑ گئیں۔
تجربہ کار پروفیسر حضرات اپنے زعم میں سیاسیات پر گفتگو میں فرماتے ہیں، کہ حاکم نےقوم کو منگتی قوم بنا دیاہے، مگر کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے، ہمارے رویےبھی کچھ تعمیری نہیں۔ ہم ایک ڈرائیور کو کھانا لینے کے لیئے بھیجتے ہیں، وُہ کھانا لاتا ہے، ہم کھانا ڈالتے ہیں، وُہ ایک پلیٹ آخر میں پھیلائے لاتا ہے اور ہمارا ہی بچا ہوا کھانا ڈالتا ہے اور اُسی انداز سےواپس مڑ کر کہیں باہر بیٹھ کر کھانا کھاتا ہے، ہم یہ اسلام کی تعلیم دیتے ہیں؟ اختلاف یہ نہیں کہ وُہ آخر میں کھانا کیوں ڈالتا ہے۔ اصل بات یہ ہے، ملازم جس انداز میں کھانا لیتا ہے وہاں خودداری کا پہلو کمزوری کا شکار ہوتا ہے۔ ہم اُسکو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کیوں نہیں کھلاتے؟ چلو ساتھ نہ بٹھائے اُسکے حصہ کا کھانا ڈال کر اُس تک پہنچا تو سکتے ہیں۔ پلیٹ پھیلائے لانا خودداری کو دفن کرتا ہے۔ سرکاری ملازمت میں گریڈ کےچکر نے انسان کی سوچ کو سرِکا کر سرکار ہی بنا ڈالا ہے۔ جبکہ اسلامی تربیت کے ماحول میں دسترخوان پر نہ کوئی مالک ہے اور نہ کوئی ملازم۔ آج بھی ایسے کھلےدِل کے افراد ہمارے معاشرے میں بیشمار ہیں۔جو کھانے کےدوران آقا و غلام کا فرق نہیں رکھتے بلکہ ایک ہی پلیٹ میں مل کر کھانا نوش فرماتے ہیں۔
یہ بات ایک دفتر کی حد تک نہیں، ملازمین سے لیکر آقا تک سب ہر روز کچھ نہ کچھ مانگ رہے ہیں، بھکاری کو دیکھیں، واسطےدے کر مانگ رہے ہیں۔ کیا آج اس قوم کی تربیت بھیک میں روپیہ مانگنا ہی ہے۔ شائد ضرورت روپیہ کی نہیں، روپیہ ضرورت ہے۔ کیا یہ تربیت سکول کے اُساتذہ، ملک کے سیاستدانوں کی ہی رہ گئی ہے جو کہ والدین، خاندان، معاشرہ، محلہ اور ہمسایوں کی مشترکہ ذمہ داری بھی ہے۔
ایک گھر میں اگر وقتی طور پر چائے کیلیے اگر چینی یا چائےکی پتی ختم ہو جائے تو کسی دوسرے سےمانگنے کی بجائےمناسب ہے کہ اُسکے بغیر ہی گزارہ کر یں یا بازار سے خرید لیں۔ مگر وُہ ایسی کسی تعاون کی درخواست آئے تو وُہ دینے سے انکار نہ کرے۔ یوں معاشرہ میں مانگنےکی عادت نہ رہےگی۔
ایک درویش کےہاں یہ منظر تھا کہ اُنکا ضروریات زندگی کا سامان ایک گٹھری اور بنیادی طبی امداد سے زیادہ نہ تھا، وُہ جہاں پہنچتے، عقیدت مند تحائف کےساتھ آموجود ہوتے تھے۔ وُہ کچھ تحائف رکھ لیتے اور بعد میں آنے والوں کو وُہ اُنکی ضرورت کے مطابق وُہ تحائف بانٹ دیتے۔ اکثر تو وُہ تحفہ لانے والےکو کہتے فلاں کو بلاؤ، وُہ آتا تو کہتے، یہ اِسکو میری طرف سےدے دو۔اُس درویش کا ایک خاص وصف یہ تھا کہ وُہ کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹنے دیتا تھا۔ اُسی درویش نے ایک مرتبہ کسی کوکچھ یوں کہا تھا کہ”فقیر کبھی بھی کسی کا اُدھار نہیں رکھتا، کچھ نہیں تو کام کی بات بتا دیتا ہے۔“
یہ ملک پاکستان درویشوں نے مل کر بنایا، آج درویش ہمیں اپنی عملی زندگی سےخودداری کی عملی تربیت دینے میں مصروف عمل ہے۔
ہمیں اپنی ضد کو خوداری کا نام نہیں دینا چاہیے بلکہ اپنی انا کو ”میں “ سے باہر رکھ کر خودداری سے فیصلے کرنے چاہیں۔
(فرخ نور)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔