15 September, 2011

میراخاموش رویہ اور مداح (مداحوں کے نام تحریر)

میں گزشتہ خاصے عرصہ سے خاموش ہوں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ میرے ترکش میں شاید تیر ختم ہو چکے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں میری باتیں افسانوی داستانیں معلوم ہوتی ہیں۔ بہت سے افراد میرے متعلق بہت سے گمان بھی رکھتے ہیں مگر میں چپ ہوں۔ میرے پاس کہنے، لکھنے، سنانے اور گھڑ لینے کو بہت کچھ ہیں مگر میں موڈ میں نہیں تھا۔ میں نےاکثر لکھا تو مرضی سے نہ لکھا بلکہ بے اختیار ہو کر دل کی آواز پرخود سے باتیں کرتےبہت کچھ آپ کے لیے لکھا۔گزشتہ ایک سال سے بے شمار انوکھے اور عام موضوعات میرے سامنے آتے رہے، اکثر سوچا ان پر کچھ اپنی بات کہہ ڈالوں مگر نہ جانے کیوں !پھر خود کو خاموش کر لیا۔

میں لکھتا ضرور ہوں مگر صفحہ کالا نہیں کرتا۔ میں لکھنے کا موڈ اُن لوگوں کے لیے کیوں بناؤں؟ جو پڑھتے بھی ہیں تو ذہن کو کالا کرنے کے لیے۔ کچھ دنیا کے لیے اخلاقی رویوں کا بھجن مجھے سناتے ہیں۔ ہائے میرا بھاجن! صرف پڑھا جاتا ہے۔ اُس پر رائے دی جاتی ہے، اصلاحانہ، ناقدانہ، اعتراضانہ، تعریفانہ آرائیں۔۔۔۔۔ مگر میرے پڑھنے والوں میں چند کی اخلاقی گراوٹیں پستیوں میں جا پہنچی ہے۔ جبکہ اکثر کو میں اپنی تحریر کے ذریعہ سے اشاراتاً، کوئی راہ بتلا ہو رہا ہو تا تھا۔

میں اپنے مداحوں کی خیر خبر رکھتا رہا۔ سب کے لیے نیک راہوں کی دعائیں مانگتا رہا۔ جس کسی کو کوئی مسئلہ تھا۔ اُس میں اُس کی اگر عملی نہیں تو اخلاقی مدد کسی نہ کسی حوالے سے ہوتی رہی۔ آج میں اپنے چند مداحوں کی زندگیوں کے تلخ تجربات سے نہایت گھبراگیا ہوں۔ ابھی ہم لوگوں کو ماسٹرز کیے پانچ برس بھی نہیں ہوئے۔ بہت سے رشتہ ازدواج کے بندھن سے بندھ گئے؛اُن سب کو مبارک دیتا ہوں۔ مگر کچھ افسوس کے ساتھ ایسے بندھنوں سے آزاد ہوچکے۔ کس قدر زندگی کے تلخ تجربات ہیں کہ ابھی زندگی کی ۳۰ بہاریں بھی مکمل نہ ہو پائی تھی کہ ایک طویل اور شاید مستقل خزاں نے اُن پر ڈیرہ ڈال دیا۔اور بہت سے ان جانے خوف زدگیوں کے ڈیرے۔اللہ سب کی زندگیوں کو سدا بہار بنائے۔

ایسے ہی کچھ تلخ تجربے میرے مطلبی اور مفاد پرست نام نہاد مداحین نے مجھے دیے۔ مشترکہ مفاد تھا؛ تعلق زندہ تھا۔ مفاد ختم اور طرز گفتگو کچھ یوں ہوا۔۔۔۔۔میں فرخ نور بات کر رہا ہوں۔ کیا حال ہے آپ کا؟ خاصا طویل عرصہ ہو گیا۔ کوئی خیر خبر نہیں تو سوچا خیریت جان لو اورحیرانگی کے ساتھ خفگی انداز میں جواب ملتا ہے ۔ آپ کون فرخ؟ میں تو ایسے کسی فرد کو نہیں جانتا۔ کچھ عرصہ بعد ان ہی مطلبی دوستوں کا کوئی مسئلہ پھنسا ہو تو ایک unknown نمبر سے فون آتا ہے۔ فرخ صاحب میں فلاں جگہ سے ، فلاں شخص بات کر رہا/رہی ہوں۔ میرا فلاں رول نمبر تھا۔میرا لاہور میں فلاں کام ہے کردیں۔

کیا میری حیثیت مفاد دینے کی ہے؟ ہرگز نہیں! خلوص اور محبت ہر اس فرد کے لیے ہے جو دل میں عزت کرتا ہوں۔ باقی سب کے لیے انکار ہے جیسے طلاق دے کر تعلق ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے۔

انٹرنیٹ کی دنیا پر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس نے میرے آرٹیکلز مسلسل اپنے ناموں سے شائع کرنے پر زور دے رکھا ہے۔ کچھ تو موضوع کا نام بدل دیتے ہیں، کچھ پہلا اور آخری پہرا خود لکھ دیتے ہیں اور باقی میرا آرٹیکل ہوتا ہے۔کچھ کو میں نے براہ راست اس ڈاکہ زنی پر منع کیا اور کچھ پر خاموش ہوا کہ اس وطیرہ کا کوئی حل نہیں۔ان لوگوں کو ذاتی projection درکار ہیں اور میں رہا گمنامی کو پسند کرنے والا۔ خیر ایسے افراد پر خاموشی کے سواء کیا کروں۔ کیونکہ ہر چیز آپ کے نام سے منسوب اچھی بھی نہیں لگتی۔ میرا ایک چھوٹے بھائیوں کی طرح کا دوست خاصا عرصہ مجھے اس بات پر آمادہ کرتا رہا کہ میں اپنے آرٹیکلز اکٹھے کر کے دو۔ وہ اُن کو کچھ قابل اشاعت کروانا چاہتا تھا۔آخر میں ہنستے ہوئے ، اُس سے رضا مند ہو گیا۔ اور دل میں سوچنے لگا۔ میں اس کو کیا سمجھاؤں کہ ہر تحریر ریکارڈ میں نہیں رکھی جاتی۔ بہت کچھ متروک کرنا پڑتا ہے۔خیر وہ کامیاب ہوا اور طے ہوا کہ میں ان تحریروں کو اکٹھا کر کے پرنٹ نکالوں اور اس کے نانا جان کو پڑھنے کے لیے دو تاکہ اگر کوئی مذہبی، ثقافتی یا قومی سطح پر قابل اعتراض جملہ یا لفظ ہو تو اس کو خارج کیا جاسکے۔میں نے جب اپنی تحریریں خاصے عرصہ بعد پڑھی تو مجھے لگا کہ میں تو خود کو آزاد خیال فرد سمجھتا تھا مگر ان میں تو مذہبی رنگ خاصا نمایاں ہے۔ پھر کچھ تحریریں اُس مخصوص وقت میں تو اچھی تھی مگر آج ہو سکتا ہے ، اُن میں دم نہ ہو۔ دیکھتے دیکھتے میں نے بہت کچھ ردّ کرکے ردّی کی نظر کرنے والا تھا کہ اس دوست نے روک دیا اور یوں میں نے اُس کی فرمائش کو ٹال دیا۔میرے نزدیک جو تحریریں expire ہو چکی ہے؛ لوگ اُن کو اپنے نام سے منظر عام پرلا کر نقصان ہی پائے گےمگر لوگوں کا کوا سفید ہے اور ہمارا معاشرتی رویہ ایسا بنتا جا رہا ہے کہ ہمیں اپنی مرضی کا اسلام اور انصاف چاہیے، رب کے حکم کانہیں۔

ایسے ہی معذرت کے ساتھ کچھ لوگ نہایت بے ہودہ ہے۔ ہر عید پر مجھے کم از کم ایک یا زائدایسے افراد کچھ یوں فون کرتے ہیں کہ آواز بدلتے ہیں اور عید کے روز نہایت فحش الفاظ اور غلیظ گالیاںبکتے ہیں۔ ایسے افراد کو فوری طور پر میں نے اپنے قبیلہء مداحین سے خارج کردیا اور اس عید پر میں نے چند ہی فون کالز سنی۔ ایک وجہ یہ تھی کہ میری کچھ ذاتی مصروفیات تھی دوسرا مذکورہ بالا رویہ تھا۔

خیرمیں نے فیصلہ کیا ہے کہ خود ساختہ تمام رشتے جو آپ لوگوں سے بنائے تھے، توڑنے کا اعلان کرتا ہوں۔ آپ سب کے لیے اب ایک ہی صیغہ مخصوص کر دیا "پیارے "جس میں آپ محترم بھی ہے، بھائی بھی اور دوست بھی ہے۔اب آپ میرے لئے نہ کوئی بھائی ہے، نہ بہن، محترم۔ یہ سب القابات میرے سگے رشتوں کے لیے مخصوص ہو تو کافی ہیں۔ہاں دوستی اور احترام کا رشتہ ؛میں اپنے چاہنے والوں کے لیے؛ ہمیشہ کے لیے رکھتا ہوں۔ تمام مفادی، مطلب پرست لوگوں کو میں نے اپنے احباب کی فہرست سے نکال دیا ہے۔

میرے چند مداح میری تحریروں کا ناصرف بے چینی سے انتظار کرتے ہیں بلکہ میں حیران ہوتا ہوں میرا نمبر کہاں سے اور کیسے تلاش کرتے ہیں اور ڈرتے ، ڈرتے فون نہیں کرتے مگر ایس ایم ایس کر کے اپنا مختصر تعارف یا غائبانہ انداز میں تعارف کرواتے ہیں اور میری تحریروں کا احوال جانتے ہیں کہ میں خاموش کیوں ہو۔ کچھ مجھے ای میل یامیری وال پر پوسٹ کرتے ہیں کہ وہ میری نئی تحریرکے منتظر ہیں۔

میں گزشتہ تین ہفتے سے سوچ رہا ہوں کہ ان مخلص افراد کی خاطر کچھ لکھوں۔ کل رات جب میں سلسلہ روزگار سے فارغ ہو کر گھر پہنچا تو ایک غائبانہ قریبی دوست کا فون آیا۔ اُس نے بھی یہی سوال کیا۔ اُس سے بہت سے موضوعات کا ذکر کیااور پھر بتایا کہ خاموش ہو۔پھر اُس نے ایک موضوع پر رائے دی کہ وہ مناسب ہوگا۔ سوچا کہ بیٹھ کر وہی موضوع لوں اور آرٹیکل لکھوں مگر ذاتی کالم لکھنے لگا۔

شاید میرے مخلص احباب کاحق ہے کہ اُن کو آگاہ کروں کہ ان کی حوصلہ افزائی کس قدر کا رآمد ہوتی ہے اور مجھے ہمت دلاتی ہے کہ میرے قارئین میرا انتظار کر رہے ہیں۔ جن سے شاید زندگی بھر ملاقات نہ ہوسکے مگر وہ اپنے تصور میں میری تحریروں کی ایک شکل و صورت بنائے بیٹھے ہیں۔ امید اور تعمیر کی صورت۔

آپ لوگ ہی تھے جنھوں نے مجھے شاعر کہا جبکہ میں کبھی بھی شاعر نہ تھا، آپ ہی میں سے اکثر نے مجھے کالم لکھنے والا کہاجبکہ میں نے کبھی کالم نہ لکھا تھا، آپ ہی میں سے چند نے کہا مجھے پڑھانا چاہیے یا کم از کم اپنی ہی یونیورسٹی کو جوائن کرنا چاہیےمگر میں کوئی رہنمائی والا نہ تھا مگر آپ نے اچھی امیدیں وابستہ کی اور میں جن معاملات سے بھاگتا تھا۔ آپ نے کچھ ایسے جراثیم مجھ میں داخل کرڈالے کہ گزشتہ برس بچوں کی نظمیں لکھ ڈالیں، یونیورسٹی کی ملازمت اب ماضی کا حصہ بن چکی اور آج مضمونیہ انداز سے ہٹ کر پہلا کالم والا انداز لکھ ہی ڈالا۔

ابھی اس سوچ میں ہو کہ تاریخ، جغرافیہ، بین الاقوامی حالات، ڈوبتی معیشت، ثقافت، فن تعمیرات، ادبی مباحث یا چندخرافاتی فضول مباحث پر بات کروں۔فلسفہ جھاڑوں، نفسیات پر لکھوں یا شخصیات کی بات کہویا بین الاقوامی فریب پر لکھوں۔

یہ سب سوچتا ہوں اور پھر یہی خود سے کہتا ہوں ۔ بھئی چپ ہی رہو تو بہتر ہے۔ لوگ باتیں انفارمیشن بڑھانے کے لیے پڑھتے ہیں، نالج بڑھانے، سمجھنے یا عقل بڑھانے کے لیے نہیں پڑھتے۔

منو بھائی نے پندرہ برس پہلے اپنے کالم میں ایک قول لکھا تھا۔"ذہانت کی طرح جہالت بھی ابھی پوری طرح دریافت نہیں ہوئی"۔

میں یہ سب دیکھ کر پھر چپ ہی ہوجاتا ہوں کہ کہیں لوگ میری کسی بات کو جانبداری یا تعصب قرار نہ دینے لگے۔ پنجابی میں ایک مقولہ ہے: اک چپ تے سو سکھ (ایک چپ اور سو سکھ)

کوشش کروں گا کہ آپ کی چاہتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک خوبصورت بلکہ سلسلہ تحریرات سامنے لاؤں۔ جو ہمیں مثبت اور تعمیر ی سوچ اور راہیں مہیا کریں۔ اور ہمیں تعصبات سے پاک کریں۔ نفرتوں کی بجائے ہم محبتیں بانٹنا سیکھے۔

آپ کا مخلص دوست
فرخ نور

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب