معمہ
ہمارے صدر صاحب معمے حل کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، پہلے بھی وہ قوم کی رہمنائی کے لئے نت نئے نسخے فراہم کرتے رہے ہیں، کچھ عرصہ پہلے ہی کی تو جب ہے جب پوری قوم ٹماٹر مہنگے ہونے کی وجہ سے پریشان تھی تو صدر صاحب نے قوم کی پریشانی کو اپنی بے پناہ ذہانت سے سیکنڈوں میں حل کر دیا اور ارشاد فرمایا کہ اگر ٹماٹر مہنگے ہیں تو دہی استعمال کی جائے۔
اس کے کچھ عرصہ بعد مختاراں مائی کیس اور اُس کے بعد شروع ہونے والے گینگ ریپ کے سلسلے میں صدر صاحب نے اپنے جاسوسوں کے ذریعے فوراََ معلوم کر لیا کہ ایسا کس وجہ سے ہو رہا ہے، ارشاد فرمایا کہ اگر آپ باہر جانا چاہتے ہیں یا آپ کو کیینڈا کا ویزا اور شہریت چاہیے اور آپ کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں تو خود کو ریپ کروالیں، یعنی یہ سارا باہر جانے کا بکھیڑا تھا۔
٢٧ دسمبر کی منحوس شام میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہونے والے قتل کے سلسلے میں جہاں پوری قوم غم سے نڈھال ہے، وہاں حکومت وقت بظاہر شہادت کی تحقیات میں مصروف نظر آتی ہے، یہاں تک کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم بھی یہاں پہنچ کر محدود اختیارات کے ساتھ اپنی تحقیات کا آغاز کر چکی ہے ‘مگر‘ ہمارے صدر صاحب نے یہ مشکل معمہ بھی صدر ہاؤس میں بیٹھے بیٹھے حل کر لیا، اور ایک بار پھر ارشاد ہوا کہ ‘ہ گاڑی میں کھڑے ہونے سے قتل کی ذمہ دار بینظیر خود ہیں کوئی اور نہیں‘ اللہ اللہ خیر صلا
پیپلز پارٹی خوامخواہ حکومت پر الزام تراشی کر رہی کہ حالانکہ انہیں اتنی آسان بات سمجھ جانی چاہیے۔ صدر صاحب کے اس بیان پر جنگ کے معروف کالم نگار جناب ارشاد حسین حقانی صاحب لکھتے ہیں کہ صدر کے اس ارشاد کی روشنی میں نہ صرف بینظیر کیس بلکہ کئی دیگر تاریخی معمے بھی” حل“ ہوگئے ہیں۔ مثلاً کہا جاسکتا ہے کہ خلیفہ راشد حضرت عمر بن خطاب اگر نماز فجر کے لئے مسجد جانے سے مستقل پرہیز کرتے تو کبھی بھی ایرانی غلام ابولولو فیروز کے خنجر کا شکار نہ ہوتے۔ حضرت علی نے اس واقعہ کے باوجود احتیاط نہ برتی اور محافظوں کے بغیر مسجد جاتے رہے۔ ظاہر ہے انہیں ایک نہ ایک روز ابن ملجم کے زہر میں بجھے خنجر کا نشانہ تو بننا ہی تھا۔ لیاقت علی خان کو کیا سوجھی کہ١٦اکتوبر١٩٥١ ء کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں بھرے جلسے سے خطاب کے شوق میں سید اکبر کے ریوالور کے سامنے آگئے۔ ضیاء الحق کو کس حکیم نے مشورہ دیا تھا کہ وہ سی١٣٠طیارے میں سفر کریں۔ شاید اسی لئے آج تک ان کی موت کا ذمہ دار خود انہیں سمجھا جاتا ہے۔ چھ ماہ قبل سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار حماد رضا اگر اپنے ہی گھر کے بیڈ روم میں سونے سے پرہیز کرتے تو آج ہمارے درمیان ہوتے۔ خود صدر مشرف کو ١٤دسمبر٢٠٠٣ء کو راولپنڈی کے جھنڈا چیچی پل پر سے گزرنے کی کیوں ضرورت پڑی۔ اگر پل کے ساتھ ساتھ خدا نخواستہ ان کی گاڑی بھی اڑ جاتی تو ذمہ دار کون ہوتا۔ لگتا ہے صدر مشرف کو اس وقت کسی نے یہ بتانے کی جرات نہیں کی کہ غلطی آپ کی ہے، ورنہ اس حملے کے دس روز بعد ٢٥دسمبر کو سڑک پر نکل کر دوسرے خود کش حملے کی زد میں نہ آتے۔ حیرت ہے صدر کی غلطی پکڑنے کے بجائے تحقیقاتی ایجنسیوں نے آٹھ افراد کو نہ صرف پکڑا بلکہ کورٹ مارشل کے ذریعے ان میں سے پانچ کو سزائے موت اور تین کو سزائے قید بھی سنادی گئی، لیکن اب جبکہ صدر پرویز مشرف اس نتیجے پر پہنچ ہی گئے ہیں کہ بینظیر بھٹو کا قتل خود بینظیر کی غلطی کے سبب ہوا ہے تو یہ بحث فضول ہے کہ انہیں بیت اللہ محسود نے مارا ، کسی ایجنسی کا شکار ہوئیں یا اپنوں کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ صدر کو چاہئے کہ سکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم کو بھی اب جلد از جلد روانہ کردیں تاکہ قوم اور قومی خزانہ اور زیر بار نہ ہوں۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔