24 January, 2010

نصیب

کنفیوشش نےکہا تھا ”اگر ہم زندگی کو نہیں جانتےتو ہم موت کو کیسے جان سکتے ہیں۔ زندگی بہت سادہ ہے مگر ہم مسلسل اُسکو مشکل ترین بنانے پر زور دیتے ہیں۔“
اپنی محرومی کو بدنصیبی سمجھ لینے والوں، محرومی تو عطاء کاجوڑا ہے۔ رات دن، اندھیرا اُجالا، مایوسی امید، سزا جزا کی طرح محرومی اور عطاء کا یہ جوڑ نصیب ہے۔
شہرت ہر کسی کا نصیب نہیں ہوا کرتی۔ نصیب توسب کا ہوتا ہے مگر کامل نصیب کوئی کوئی ہوتا ہے۔لوگ تقدیر کے بہانوں کی تلاش میں ہیں۔ مقدر کےحسن کو مقدر کےلکھے پہ ٹھوکر مارتے ہیں۔ نصیب والا نصیب سے ناراض ہے، مقدر والا مقدر سے خوش نہیں۔خداکی قدرت دیکھیئے ،وُہ ذات قدیر بھی ہے اور باعث توقیر بھی، مگر انسان جانتے یا نہ جانتے ہوئے اُس ذات قدیم سے اختلاف کی جسارت کر ڈالتا ہے۔
حسن دیکھیئے! انسان اپنے آپ سےخوش نہیں دراصل وُہ اللہ سےخوش نہیں۔ درویش اللہ کی راہ میں اپنی مرضی چھوڑ کر درویشی اختیار کرتا ہے۔ بس یہی نکتہ اللہ والوں کو ہر حال مطمئن رکھتا ہے۔ یہی نقطہ ہمیں (مادی خواہشات والوں کو) ہر حال بےچین بھی رکھتا ہے۔
انسان آسودہ حال زندگی کےلیئے نہ جانے کتنے جتن کرتا ہے مگر ناکام و نامراد رہا۔ ایک لمحہ میں کسی کی رفاقت زندگی گزارنے کا نظریہ بدل دیتی ہے۔ یہ نگاہ کرم ہے جو مقدر میں لکھا، نصیب بن گیا۔ قسمت کو الزام دینے والا ، دوشی سےدھنی بن گیا۔
تقدیر پہ بحث کرنے والا، قدیر کی ذات سے باخبر نہیں۔ خبر کی بات میں ایسی بے خبری محسوس ہوتی ہے، جیسےکسی کی خیر نہیں۔ مخیر تو اس بات کا قادر ہے کہ ہر عمل میں خیر ہی خیر ہے۔
تمام زمانوں کی خبر رکھنےوالا ہی آنے والےدور کی پیش گوئی کے انداز میں خبر کی مخبری بھی دیتا ہے۔ انسان اللہ کی مرضی کے آگے بند باندھتا ہے مگر باوجود اِس کے مقدر پھر بھی نہ بدلا۔ مشیت الٰہی ہو کہ رہتی ہے۔ بدل نہیں جایا کرتی۔ اسی طرح فرعون نےایک خواب دیکھا، تعبیر معلوم کی اور تدبیر بھی بنائی مگر تقدیر جو لکھی تھی، وُہ ہو کہ رہی۔ یہاں نصیب دیکھیئے، ایک گروہ اللہ پر یقین رکھنےوالا ، حالت ظلم میں بھی مطمئن، صابر اور شاکر رہا، دوسرا گروہ ظلم ڈھا کر بھی خوف میں مبتلا رہا۔اللہ پر یقین رکھنے والے اللہ کی مرضی کے آگےجھک جایا کرتے ہیں، تراکیب سوچا نہیں کرتے۔ منصور حسین بن حلاج کا نصیب خود ایک منصب ٹھہرا۔
ہر بندے کا اپنا اپنا نصیب ہے، کسی کا نصیب زمانے میں عزت کا مقام حاصل کرنا ہے، کوئی دولت کا نمائندہ بنتا ہے، کسی کو علم کی میراث ملتی ہے، کوئی اُولاد کی نعمت سے مالا مال ہے، کسی کو زبان کا ملکہ حاصل ہوا تو کسی کو قلم کی طاقت نصیب ہوئی۔ کبھی اللہ کی جانب سے دی ہوئی صلاحیت کا ہنر نصیب بنا تو کہیں اللہ کی عطاء کی ہوئی رحمت نصیب بنی، اللہ کے توسل سے لوگوں کا عطاء کیا گیا رویہ، مرتبہ، مقام بھی نصیب ہی ٹھہرا۔ کیسے کہہ سکتا ہے کوئی انسان کہ اُسکا نصیب نہیں؟ نصیب پہچان ہے۔ جیسے ہر فرد کا نام ہے، اُس کا کردار ہے، ایک نام والدین رکھتے ہیں آپکا اسم ِمبارک، ایک نام معاشرہ دیتاہے، آپکا کردار، ایک پہچان اللہ آپکو عطاء کرتا ہے، نصیب۔ آج انسان اپنےنام سے بھاگتا ہے، معاشرہ جو پہچان دیتا ہے اُس سے فرار ہو کرکسی اور لیبل کے لگوانے کی تگ و دو میں ہے، اور جو نام اللہ عطاء کرتا ہے اُسکے باوجود دوسرے نام ”ارتھا“ کے پیچھے بھاگتے ہیں۔نصیب ہمارا اپنے پاس ہے ہم تلاش کہیں اور کرتے ہیں۔
زندگی میں سوال ہی سوال، جواب کی تلاش میں سوال ہے۔ سوال آپکا اپنا ہو تو جواب خود بخود دورانِ تلاش ہی مل جاتا ہے۔ جواب دِل میں رکھ کر سوال کی تلاش کرنا سوال کی بےحرمتی ہے۔ بہر کیف ایسے سوال سائل کو بھٹکا دیا کرتے ہیں۔
ہم تقدیر کےنام پہ تقدیر سےاُلجھ پڑتے ہیں، یونہی کچھ سوال اپنے آغاز سے ہی بے بنیاد ہوتے ہیں۔ تقدیر، قسمت، نصیب اور مقدر جیسےالفاظ کا استعمال کر کے شکوہ کرنا مناسب نہیں۔ شکوہ اگر حق ہے تو جواب ِشکوہ برحق۔ ضرور سوچ لیجیئے شکوہ کے جواب کی تاب لاسکیں گے۔ مشیت الہٰی پہ اعتراض، اللہ کےفیصلہ سے انکار ہو سکتا ہے۔ اللہ سے ناراضگی کی بات تو کرتے ہیں مگر اللہ کی ناراضگی کا تاپ برداشت کر سکیں گے۔ اُس نے آپکو بھیجا ہے، اس دُنیا میں تو اُسکے پروگرام کو تسلیم کر لیں۔ اُلجھیئے مت، ورنہ اُلجھتے رہےگے۔ ہونا تو وہی ہے، جو منظور خدا ہے۔
لوگ عہدوں کو اپنا نصیب سمجھتے ہیں، اختیار زمانہ کو اپنا مقدر جانتے ہیں۔ تقدیر کے نام پہ خود کو مالک تقدیر سمجھتے ہیں۔ قسمت کےدھنی کہلانے والوں، نصیب ایسے نہیں ہوا کرتے ہیں۔ چہرہ کی طرح ہر بندے کا نصیب طے ہیں، یہی چہرہ کی تاثیر ہے۔ جدا جدا تاثیر میں چہرہ پُر تاثیر۔ یونہی نصیب بھی پُر اثر انگیز ہے۔ اللہ والوں کا نصیب اور ہے، اختلاف رکھنے والوں کا نصیب اور، آسودہ حال چہرہ اور پریشان حال چہرہ نصیب ہی ہیں۔ رضائےالٰہی کی کوشش ہر نصیب والے کو بانصیب فرماتی ہے، بےنصیب کوئی نہیں ہوا کرتا۔
نصیب امارت نہیں، مطمئن حال رہنا ہے۔ ایسا نہیں تو نصیب آپکا تو ہے مگر آپ خود نصیب کےنہیں۔ جس میں حال صرف بےحال ہونا ہی ہے۔ حل اتنا ہی ہےکہ ذات باری تعالیٰ پر یقین بحال کرو۔

تجھے کام کرنا ہے او مردِ کار
نہیں اُس کے پھل پر تجھےاختیار
کئے باعمل اور نہ ڈھونڈ اُس کا پھل
عمل کر عمل کر نہ ہو بےعمل(١
)

حوالہ جات:
(١)۔ دِل کی گیتا اُردو نظم میں (شریمد بھگوت گیتا، (دوسرا ادھیائی،شلوک٧٤)) از خواجہ دِل محمد ایم اے

کنفیوشش: (چھٹی صدی قبل مسیح ) چین میں جنم لینےوالے مذاہب میں سے ایک مذہب کنفیوشش مت کا بانی۔ جس نےاخلاقی فلسفہ اور ریاست کےبہترین نظم و نسق کےساتھ ساتھ عقائد کےاعتبار سے چینی عوام کو ایک نظریہ فکر عطاء کیا۔ شمالی ایشیائی ممالک میں جنم لینے والے تمام مذاہب اخلاقی فلسفہ سے بڑھ کر بات نہیں کرتے۔

فرخ نور

2 comments:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

کیا انگریزی کا لفظ کنفیوز اسلئے بنایا گیا تھا کہ کنفیوشس کی تصحیک کی جائے ؟
.-= افتخار اجمل بھوپال´s last blog ..چوتھا ستون ۔ معیشت =-.

1/25/2010 03:17:00 PM
فرخ نور نے لکھا ہے

جناب نام اور صورتحال میں کافی واضح فرق ہوتا ہے۔ چلے آپ ہی کی بات کو لیتے ہیں انگریزی کا لفظ cum اور اُردو کا ”کم“ کیا ایسے ہی معنی دیتے ہیں۔ ہسپانوی کا casa اور عربی کا ”کاسا“ کیا ایک دوسرے کی تضحیک کرتے ہیں۔ چلے چھوڑیئے پنجابی ہی کو لیجیئے ایک علاقہ میں لفظ شودا کسی بیچارہ کے لیے استعمال ہوتا ہے تو کسی اور ہی دوآبہ میں یہ لفظ لڑکا کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ہند کو میں مچ اور اردو کے مچ میں کیا فرق نہیں۔

ہمارا ایسا یکطرفہ رویہ زبانوں اور اُنکے الفاظ کی توہین بھی کرتا ہے اور تضحیک بھی۔ میں نے یہ امثال مختلف زاویوں سے دی ہے۔ جن کے تحت کنفیوشش اور کنفیوژن کا سوال اٹھانا ہی سوال کی بے حرمتی ہے۔ سوال کے لئے ضروری ہے کہ اُس کے جواب کی طلب ہو نہ کہ ایسا سوال بنایا جائے جو ذہنی نشہ کو ظاہر کرتاہوں۔

آپکا نام بہت خوبصورت بھی ہے اور معنی خیز بھی آپ اس نام کے معنی کو سمجھے اور ان جیسا نہ صرف خیال پائیے بلکہ عمل اور حال بھی ویسا ہی رکھے تو تحریرات کے تبصروں پر بھوپال کا ایک خوبصورت کنول کا پھول کھلا ہوگا۔

2/03/2010 05:07:00 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب