وفا کا نوحہ
آج ١٦ دسمبر ہے، سقوط ڈھاکہ کا دن۔ بطور قوم ہم نے اس تاریخی المیے کو کس حد تک یاد رکھا اور اس سے سبق سیکھ کر اپنے سیاسی رویوں کو بہتر بنایا، اس بارے کچھ نہ کہا جائے تو بہتر ہے۔ اتنے سالوں بعد بھی اگر وفاق اور صوبوں کے تعلقات کو دیکھا جائے تو شرمندگی ہوتی ہے کیونکہ ہم نے تاریخ کے اس عظیم سانحہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ہم ان غلطیوں کا اعادہ نہیں کر رہے جو جمہوری اور سیاسی حوالے سے مشرقی پاکستان کی المیے کا سب سے بڑا سبب تھیں۔
آج کے المناک اور تڑپا دینے والے دن کے حوالے سے پروفیسر شاہدہ حسن کی ایک نظم ‘وفا کا نوحہ‘ اس امید کے ساتھ پیشِ خدمت ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے اس المناک واقعے سے سبق سکھیں گے اور ہمارا حال اور مستقبل ہمارے ماضی کے کردار سے بہتر ہو گا۔
وفا کا نوحہ
(١٦ دسمبر ١٩٧١ء کی یاد میں)
ہماری تاریخ کے عقوبت کدے کا سب سے سیاہ لمحہ،
کہ جب ہماری جھکی نگاہیں
زمیں کے پاتال میں گڑی تھیں
ندامتوں کے عرق سے تر ہو گئی تھیں پیشانیاں ہماری
ہمارے ہاتھوں کو پشت سے باندھا جا رہا تھا
ہم اپنے دشمن کے روبرو
بےزبان و بےبس کھڑے ہوئے تھے
اور اُن کے قدموں میں ایک اک کر کے
اپنے ہتھیار رکھ رہے تھے
نہ جانے آنکھوں نے کیسے جھیلے وہ سب نظارے
جب ایک جنت نما جزیرے کی پھول وادی میں
صرف کانٹے اُگے ہوئے تھے
بہت سے مانوس اور غمگسار چہرے
دھوئیں کے بادل لگ رہے تھے
نہ اپنے مانجھی کے گیت دہرا رہی تھی گنگا
نہ بانس کے جنگلوں سے
نغموں کی نرم آواز آ رہی تھی
نہ کھیت میں
دھان کی پنیری لہک رہی تھی
نہ گھاٹ سے کشتیاں
روانہ ہوئیں سفر پر
حسین اور سرسبز مرغزاروں میں
چائے کے باغ کی خوشبوؤں سے بوجھل ہوا میں
اور ریشمی دھان کی کھڑی فصل میں
اچانک
بہت سے شعلے بھڑک اٹھے تھے
یہ آگ بس پھیلتی جا رہی تھی ہر سو
دلوں کے اندر
گھروں کے اندر
تمام چہرے پگھل رہے تھے
اور اس میں مٹتی ہوئی شناسائیوں
اور قربتوں کے
تمام احساس جل رہے تھے
زمین سہمی ہوئی تھی
اور آسمان چپ تھا
تمام لمحوں کو جیسے سکتہ سا ہو گیا تھا
ہزاروں لاکھوں دلوں کی گہری اداسیوں میں
بس ایک عفریت جاگتا تھا
وہ ایک ساعت ۔۔۔۔
کہ ہم نے انیس سو اکہتر کے اُس دسمبر کی
سولہویں شب
جسے خود اپنے وجود میں
موت کے تجربے کی صورت اترتے دیکھا
وہ برہمی کے بھنور میں جکڑے وجود
اک دوسرے کے بہتے لہو سے
ہولی منا رہے تھے
وطن کے پرچم کو، اپنی پلکوں سے تھام کر
چلنے والے ساتھی
وطن کا پرچم جلا رہے تھے
سقوط ڈھاکہ!
سراغ ملتا نہیں ہے
جس کے کسی سسب کا!!!
کہ ہم نے ہونٹوں کو جانے کیوں
مصلحت کے ریشم سے سی رکھا ہے!!!!
نہ جانے کیوں
ہم نے اپنے دل کی عدالتوں پر
لگا لئے قفل خامشی کے
فقط اسی وقت بولتے ہیں
کہ جب ہمیں ایک دوسرے پر بہتان باندھنے ہوں
وہ اوجڑی کیمپ ہو
کہ سی ایک سو تیس (C-130) طیارے کی تباہی
شہید ملت کا خوں ہو، یا
کارگل کا قصہ
نہ جانے کیوں آج بھی ہمارے
تمام ہی المیوں پہ چپ کے دبیز پردے
پڑے ہوئے ہیں
کٹے ہوئے پھل کی طرح جیسے
ہمارے سینے ۔۔۔۔ بہت سے قاشوں میں بٹ گئے ہیں
دہائیاں اب گزر چکی ہیں
وطن کی مٹی کی خوشبوؤں کو ترسنے والے
ابھی تلک ریڈکراس کے کیمپس میں
اذیت کے اور انتظار کے دن بِتا رہے ہیں
اور آتی جاتی رُتوں کو
اپنی وفا کا نوحہ سنا رہے ہیں۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔