ایک پرچی کی مار
جو کام ایک طاقتور فوجی حکومت درجنوں الٹے سیدھے قوانین بنا کر اور کروڑوں روپے خرچ کر کے آٹھ سال میں نہ کر سکی، وہ کام پاکستان کے غریب اور بےبس عوام نے صرف ایک پرچی کی مدد سے ایک دن میں کر دکھایا۔
پاکستان کی حالیہ تاریخ میں سیاسی احتساب کی ایسی مثال شاید ہی کہیں ملے۔ یہ ایسا احتساب تھا جو ایوان صدر سے شروع ہوا اور اس پولنگ سٹیشن تک پہنچا جہاں صدر مشرف نے اپنے حمایتیوں کے حق میں اپنا ووٹ ڈالا۔
طاقت کے بل بوتے پر غرانے والے، غریب پاکستانیوں کو جاہل اور ان پڑھ کہنے والے اور خود کو مختار کل سمجھنے والے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر انہیں غریبوں کی جوتیوں کے نیچے آ گئے ہیں۔
لیکن 18 فروری کے انتخابات میں عوام نے طاقت اور غرور کے برج ہی نہیں الٹے، پاکستان کے وفاق کو بھی ایک نئی زندگی دی ہے۔ اگر وہ دھاندلی کے خلاف اس قدر پکا عزم نہ دکھاتے یا دہشتگردی کے خوف سے گھروں میں دبکے بیٹھے رہتے تو آج پاکستان بھر میں نظر آنے والے ہنستے مسکراتے چہرے یا تو گھروں میں بند وفاق کی یکجہتی کا سوگ منا رہے ہوتے یا مغربی سفارتخانوں کے باہر ویزوں کی قطاروں میں نظر آتے۔
صدر مشرف کے جو چند حمایتی اب بھی کچھ کہنے سننے کے قابل رہ گئے ہیں اب یہ دلیل دے رہے ہیں کہ ان کو صاف اور شفاف انتخابات کرانے کی شاباش ملنی چاہئیے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے میں آپ پر گولی چلاؤں، نشانہ خطا ہو اور میں آپ سے اپنے غلط نشانے کی داد چاہوں۔
اٹھارہ فروری کے انتخابات میں جس قدر بھی دھاندلی ممکن تھی، وہ ہوئی۔ صرف پنجاب میں ہی صوبے کے چونتیس اضلاع میں سے بائیس میں مقامی حکومتوں نے مسلم لیگ قاف کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کیا ہوا تھا۔ ان بائیس میں سے کم از کم چودہ ایسے تھے جہاں مقامی ناظمین کے رشتہ دار قاف لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے۔ پولنگ والے دن بھی جس قدر داداگیری ممکن تھی، ہوئی۔
لیکن عوام نے طے کر رکھا تھا کہ اب بہت ہو چکی۔ اور یہ امر فوج کی موجودہ قیادت پر بھی پولنگ سے قبل ہی عیاں ہو چکا تھا۔ بینظیر بھٹو کے قتل سے پہلے تک آئی ایس آئی کراچی اور صوبہ سرحد میں، ایم آئی اندرون سندھ اور بلوچستان میں جبکہ انٹیلیجنس بیورو پنجاب میں مثبت نتائج کے متلاشی تھے۔
لیکن پچھلے سال ستائیس دسمبر کے بعد سے ان کی سرگرمیاں مسلسل محدود نظر ہوتی دکھائی دیں۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ صدر مشرف کی جو بھی خواہش ہو، فوجی قیادت یہ سمجھ چکی ہے کہ اٹھارہ فروری کے انتخابات خراب ہونے کی صورت میں حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔
اگر فوجی قیادت جیسا ہٹ دھرم طبقہ بھی یہ ماننے پر مجبور ہو گیا ہے کہ اب ان کی سیاسی مسیحائی کسی بھی بیمار کو قبول نہیں تو فوجی طالع آزماؤں کے سیاسی انقلابیوں کو چاہئیے کہ وہ اپنی ناکام سیاست کو خاموشی سے دفن کر کے زبان خلق پر توجہ دیں کیونکہ عوام نے ثابت کر دیا ہے کہ زبان خلق میں ایسے ایسے سبق پنہاں ہیں جو پڑھنے والے کو لافانی کر سکتے ہیں۔
پہلا سبق تو یہ ہے کہ عوام کو کبھی جاہل یا ان پڑھ نہیں سمجھنا چاہیے۔ پاکستان کی فوجی قیادت آج تک اسی غلط فہمی میں مثبت انتخابی نتائج کی تلاش میں رہی، یہاں تک کہ ان کی یہ خام خیالی ملک کو بارہا تباہی کے دھانے پر لے آئی۔ صدر مشرف نے کہا کہ قبل از انتخابات سروے نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ پاکستانی اتنے ان پڑھ اور ذات برادری کے شیطانی چکر میں پھنسے ہیں کہ وہ اپنا برا بھلا نہیں جانتے۔
شاید انہی جاہل لوگوں میں سے بہت سے اب یہ سوچ رہے ہوں کہ فوجی حکمران کبھی کبھی اپنے ہی پھیلائے ہوئے جال میں ایسے پھنس جاتے ہیں کہ وہ اپنا بھلا برا بھی بھول جاتے ہیں۔ ویسے بھی موجودہ انتخابی نتائج کے بعد اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پڑھا لکھا کون ہے اور جاہل کون ۔
دوسرا سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ ضلعی اور قومی سیاست دو مختلف جانور ہیں اور ان کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے والا بالاخر ٹھوکر کھاتا ہے۔ ذات برادریوں کی جو سیاست مقامی انتخابات کی روح ہوتی ہے قومی سطح پر اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔
یہ سبق صرف سیاستدانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ میڈیا کو بھی سیکھنا چاہیے۔ یہ ایک حیران کن بات تھی کہ عدالتی بحران، بینظیر بھٹو کے قتل، اشیاء خورد نوش کی قلت اور بجلی اور گیس جیسے بحرانوں کی موجودگی میں تمام کا تمام مقامی میڈیا مسلم لیگ قاف کی سیاست کی مضبوطی کا اندازہ اس کی ضلعی حکومتوں سے رشتوں کی بنیاد پر لگا رہا تھا۔
پاکستانیوں نے جس سیاسی سنجیدگی کا ثبوت دیا ہے اس کے بعد اس حقیقت کو قبول کرنا چاہیے کہ ذات برادری کی سیاست کی جگہ گلی محلہ تو ہو سکتے ہیں لیکن قومی اسمبلی یا سینیٹ نہیں۔
تیسرا سبق ہمیں ان تجزیوں سے ملتا ہے جن کے مطابق توقع کی جا رہی تھی کہ بینظیر بھٹو کے قتل سے اٹھنے والی ہمدردی کی لہر پاکستان پیپلز پارٹی کو سیدھا ایوان اقتدار میں لے جا ٹپکے گی۔ ایسا نہ صرف پنجاب میں کہیں دیکھنے میں نہ آیا بلکہ سندھ میں بھی کہیں کہیں مسلم لیگ فنکشنل کو سیٹیں گئیں۔
اس میں شک نہیں کہ بینظیر بھٹو کے قتل پر پورے ملک میں سوگ ہوا، دوست دشمن سبھی غمگین ہوئے اور آج بھی لوگ انہیں یاد کر کے آنسو بہاتے ہیں۔ لیکن انتخابی نتائج میں یہ نظر آیا کہ ایک سیاسی رہنما کے لیے لوگوں کے غم کو اس کے سیاسی وارثوں کی حمایت نہیں سمجھا جا سکتا۔
بےشک پاکستانی ووٹر آٹھ سال سے ایک انتہائی مغرور آمریت کی گرفت میں رہا لیکن سیاسی طور پر اٹھارہ فروری کے انتخابات میں وہ جوان نظر آیا۔ اس نے ثابت کر دیا کہ وہ اپنے سیاسی فیصلے دل و دماغ سے کرتا ہے نہ کہ جذبات سے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہی کچھ پاکستان کے سیاستدانوں کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے؟
انتخابات انتقال اقتدار کا صرف دیباچہ تھے۔ ابھی پوری کہانی باقی ہے۔ نتائج سے صاف ظاہر ہے کہ ملک سیاسی طور پر بٹ چکا ہے۔ وفاقی سطح پر جو بھی کھچڑی بنے، صوبائی نتائج بتاتے ہیں کہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ نواز اور سرحد میں عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت میں صوبائی حکومتیں بنیں گی۔ رہا بلوچستان تو وہاں آج تک کیا ہوا اور کیا نہیں، اس کی آج تک کس نے پرواہ کی؟
یہ بھی واضح ہے کہ نئی حکومت کے لیے اقتدار کی سیج پر پھول نہیں سجے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی، اقتصادی اور سماجی سطح پر جو مشکلات نئی حکومت کو ورثے میں ملیں گی اس سے پہلے شاید کسی نئی حکومت کو اتنے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔
گویا مخلوط حکومت تو بن جائے گی لیکن جب اس کے سر پر مشکلات کا پہاڑ ٹوٹے گا تو کیا وہ متحد رہ سکے گی؟ پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کا سب سے بڑا حصہ ہو گی اور مسلم لیگ نواز اس کی سب سے بڑی حمایتی جماعت۔ کون کہہ سکتا ہے کہ مشکل وقت میں آج کی محبت کل کی نفرت نہیں بنے گی۔
اور یہ تو معلوم نہیں کہ شریف زرداری محبت پنجاب سندھ محبت میں تبدیل ہو سکے گی یا نہیں لیکن اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ان میں جھگڑا باآسانی دو صوبوں کے بیچ جھگڑے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
عوام نے اس بار تو وفاق کو اپنی فوجی و سیاسی قیادت کی مجرمانہ حماقتوں سے بچا لیا لیکن کیا وہ دوبارہ ایسا کر پائیں گے؟
عامر احمد خان، بشکریہ بی بی سی اردو
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔