کہانی کی بغاوت
مصنف خود پریشان ہے
کہ اس کے ہاتھ کی لکھی کہانی
اس سے باغی ہے
وہی تھا جو عدم کے دور افتادہ جزیروں پر
یونہی بکھرے ہوئے بے نام چہروں کو اٹھا لایا
انہیں سوز ِ دروں کی آنچ دے کر
زندگی بخشی
انہیں اپنی کہانی کے سبھی کرداردے ڈالے
حقیقت میں وہ خالق ہے
تراشیدہ یہ پیکر سب اسی کے ہیں
وہ محسن ہیں…
مگر کیا تعجب ہے کہ یہ بے جان سے پتلے
یہ ناشکرے…
وفا کی ریت کے منکر
اسی محسن سے باغی ہیں
مصنف نے انہیں کچھ راستے پر گامزن رہنا سکھایا تھا
بتایا تھا
کہاں، کس موڑ پر ان کو
قدم کیسے اٹھانا ہے
کہاں پر بولنا ہے اور کہاں خاموش رہنا ہے
کہاں سر کو جھکانا ہے، کہاں گردن اٹھانی ہے
مصنف خود بھی حیران ہے
کہ اب کردار اس کے ہیں
سنواب اس کی کہانی ہے!!
مناظر میں تغیر ہے
مودب سی نگاہوں کی جگہ
خونخوار آنکھیں ہیں
گلی کوچوں میں سناٹا
جہاں اس نے لکھا تھا، واں
ہجوم سرکشاں بڑھتا ہی جاتا ہے
وہ ششدرہے
کہ جن ذہنوں کو اس نے بانجھ لکھا تھا
اب ان میں خواب پکتے ہیں
جنہیں خاموش رہنا تھا
وہ اب آتش اگلتے ہیں
جوبے آواز سے لہجے کہانی میں پروتے تھے
کڑکتی بجلیاں ان میں
اچانک جاگ اٹھی ہیں
مصنف اب ہراساں ہے
کہ سب کردار باغی ہیں
کہانی بھی کہانی کا نتیجہ بھی
اب اس کے بس سے باہر ہے
اسے ڈر ہے
یہ سب کردار مل کر اس کہانی کو
کہیں وہ موڑ نہ دے دیں
کہ جس کے اس تصور سے ہی
اس کا دل لرزتا ہے
اسلم شاہد
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔