شیروں کو گدھا نہ بنائیے
کچھ دن پہلے میں نے تعلیم کے موضوع پر ایک تحریر ‘تعلیم، ماں اور ریاست‘ لکھی تو چند دوستوں نے مطالبہ کیا کہ اسی موضوع پر اور بھی لکھا جائے، ان کا کہنا تھا کہ اتنے اہم موضوع پر اتنا کم لکھنا زیادتی ہے۔ آج جب میں لکھنے بیٹھا تو سوچا کیوں نا دوستوں کا مطالبہ پورا کیا جائے۔ تو لیجئے جناب تعلیم پر ایک اور تحریر حاضر ہے پڑھئیے اور اپنی رائے دیجیئے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی طالب علم اپنی تعلیمی زندگی میں جو پہلا مستند امتحان دیتا ہے وہ میٹرک کا امتحان ہوتا ہے جس میں کامیابی کے بعد اسے پہلی سند ملتی ہے، یہ سند آنے والی زندگی میں اس کے لئے کتنی معاون ثابت ہوتی ہے اس سے قطع نظر قابل غور بات یہ ہے کہ اس طالب علم کو پڑھایا کیا جاتا ہے؟ ایک سائنس کے طالب کو لے لیں، وہ میٹرک تک وہ مضامین پڑھتا ہے جو اسے ایسے چوراہے پر لے آتے ہیں جہاں پہنچ کر وہ اپنی منزل، اپنی سمت کا تعین کر سکتا ہے۔ میٹرک میں اچھے نمبر حاصل کرنے کے بعد عموما ایک طالب علم میں ایسے شعبوں میں جانے کو ترجیح دیتا ہے، اگر وہ ڈاکٹر بننا چاہتا ہے تو اسے اردو، انگلش، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے لازمی مضامین کے ساتھ فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کے مضامین اختیاری طور پر پڑھنے پڑتے ہیں اور اگر وہ انجینئر بننا چاہتا ہے تو اسے لازمی مضامین کے ساتھ فزکس، کیمسٹری اور ریاضی کے مضامین اختیار کرنا پڑتے ہیں۔ آپ سوچیں! ایک ایسا طالب علم جو مستقبل میں ڈاکٹر یا انجینئر بننا چاہتا ہے آنے والے وقت میں لازمی مضامین اس کے لئے کتنے کارآمد ہیں؟ ورڈزورتھ، ولیئم بلیک، ایس ٹی کولرج اور جان کیٹس کی شاعری، ارنیسٹ ہیمنگوے کے ناول، شیکپیئر کے ڈرامے اور مینس فلیڈ، جے کے جیروم اور جیمز تھربر کے افسانے مرض کی تشخیص کرنے کے کام آتے ہیں؟ بڑی عمارتوں کی تعمیر میں استعمال ہوتے ہیں؟ یا انسانی سہولت کے لئے کوئی نئی ایجاد کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں؟ غالب کی غزلیں کون سے آپریشن میں مفید ثابت ہوتی ہیں؟ میر تقی میر، میر درد، میر انیس، احسان دانش، میرداغ اور اکبر الہ آبادی کی شاعری، انتظار حسین کے افسانے، رضیہ بٹ اور ڈپٹی نذیر احمد کے ناول انجینئرنگ کے کون سے فارمولے حل کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں؟ کیا یہ ادب پارے میڈیکل کے طالب علم کو کوئی نئی میڈیسن ایجاد کرنے میں فائدہ دیتے ہیں؟ کسی انجینئر کے لئے تکنیکی اعتبار سے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں کیا ادب کا یہ خزانہ جو انٹرمیڈیٹ میں سائنس کے طالب علموں کو دو سال پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے انہیں آئین سٹائین، نیوٹن، فراڈے، بوائل، چارلس، پاسکل، گراہم بیل، جے جے تھامسن یا ڈاکٹر عبدالقدیر خان بنا سکتا ہے؟ یقینا نہیں بنا سکتا، بلی کے گھر شیر کی پیدائش کا امکان ہی دنیا کا انتہائی نامعقول خیال ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسقبل کے مسیحاؤں اور معماروں کو فزکس، کیمسٹری، ریاضی اور بیالوجی کے مساوی نمبروں کے حامل اردو اور انگلش پڑھا کر نجانے وطن عزیز کی کون سی خدمت کی جارہی ہے۔
١٨٥٧ء کی کہانیاں اور ١٧٢٣ء کی نظمیں پڑھا کر آخر ہم معصوموں سے حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ایک بچے نے ان زبانوں اور ادب ریزوں سے جو کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے وہ میٹرک تک ہی حاصل کر لیتا ہے بعد میں ایک ہی چیز کو طوطے کی طرح رٹانے کا فائدہ؟۔
اب آئیے میٹرک سے آگے ایف ایس سی کی طرف ایک میڈیکل کے طالب علم کے لئے فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کے تینوں مضامین پڑھنے کتنے ضروری ہیں؟ ہم سب جانتے ہیں کہ فزکس مادے اور توانائی کی ساخت، تبدیلیوں اور تعلامات کے مطالعے کا نام ہے جبکہ کیمیا مادے کی ساخت، ہیئت، ترکیب، تبدیلی اور مادے سے وابستہ توانائی کی تبدیلیوں کے مطالعے کا نام ہے۔ بیالوجی تو ویسے بھی زندہ اشیاء کا مطالعہ کہلاتا ہے۔ اجزاء کے اعتبار سے کیمسٹری، بیالوجی کے زیادہ قریب ہے یہ دونوں مضامین باہمی مطالعہ میں ایک دوسرے کے سود مند معاون ثابت ہوتے ہیں جبکہ فزکس بیالوجی کے طالب علم کے لئے پانچ فیصد بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوتی، لیکن اس کے باوجود میڈیکل کے طالب علم کو دو سال طبعیات کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہی حال پری انجینئرنگ کے طلباء کا ہوتا ہے کیمسٹری جس کا ریاضی سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں طلباء پر یہ آضافی بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ عقل کے دروازے کھول کر دیکھیں تو ایف ایس سی میں داخلہ لینے والے طالب علم کو ہم تین ایسے اضافی مضامین پڑھا دیتے ہیں جو ان کے لئے زندگی میں کبھی ثمرآور ثابت نہیں ہوتے۔ان مضامین کی جگہ میڈیکل اور انجینئرنگ کے ان کے لئے معاون مضامین کے ایڈوانس کورسز پڑھائے جا سکتے ہیں۔ یہ ایڈوانس کورسز کرا کے یقینا ہم سات سو سالوں کی ترقی صرف سات سال میں طے کر سکتے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کے کھوئے ہوئے قافلے کو صرف چند سالوں میں پکڑ سکتے ہیں۔
جو طلباء اردو اور انگلش پڑھنا چاھتے ہیں وہ ان مضامین کو اختیاری طور پر یہ مضامین پڑھ سکتے ہیں۔ دنیا میں ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا کہ ایک چیز لازمی بھی ہو اور اختیاری بھی یہ ‘معجزہ‘ صرف پاکستان میں ہو سکتا ہے کہ اردو لازمی بھی ہے اور اختیاری بھی، انگلش لازمی بھی ہے اور اختیاری بھی، اسلامیات لازمی بھی ہے اور اختیاری بھی، مطالعہ پاکستان لازمی بھی ہے اور اختیاری بھی ہے۔
ہمیں اختیاری مضامین کے ایسے کمبی نیشن بنانے ہوں گے جو ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ثابت ہوں جن کا آپس میں کوئی جوڑ، کوئی تعلق بھی بنتا ہو۔ اگر ہم شرخ شلوار کے ساتھ سفید قمیض پہن لیں یا تھری پیس سوٹ کے ساتھ ہوائی چپل پہن لیں تو خود ہی مذاق بن جائیں گے۔ اس لئے خدارا آپ ان معصوم بچوں پر سے کتابوں کا بوجھ اتاریئے، انہیں ذہنی طور پر ہلکا پھلکا کیجیئے پھر دیکھیئے یہ شیر کیا کرتے ہیں کیونکہ ایک گدھا بھی بوجھ کم ہونے پر مالک کے کہے بغیر اپنی سپیڈ تین گنا کر لیتا ہے، یہ پھر بھی شیروں کی قوم ہے۔ اس لئے خدارا ان شیروں پر رحم کیجئے ان پر لدھے اضافی بوجھ کو ختم کریں ورنہ سب جانتے ہیں بوجھ تو شیروں کو بھی گدھا بنا دیتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی طالب علم اپنی تعلیمی زندگی میں جو پہلا مستند امتحان دیتا ہے وہ میٹرک کا امتحان ہوتا ہے جس میں کامیابی کے بعد اسے پہلی سند ملتی ہے، یہ سند آنے والی زندگی میں اس کے لئے کتنی معاون ثابت ہوتی ہے اس سے قطع نظر قابل غور بات یہ ہے کہ اس طالب علم کو پڑھایا کیا جاتا ہے؟ ایک سائنس کے طالب کو لے لیں، وہ میٹرک تک وہ مضامین پڑھتا ہے جو اسے ایسے چوراہے پر لے آتے ہیں جہاں پہنچ کر وہ اپنی منزل، اپنی سمت کا تعین کر سکتا ہے۔ میٹرک میں اچھے نمبر حاصل کرنے کے بعد عموما ایک طالب علم میں ایسے شعبوں میں جانے کو ترجیح دیتا ہے، اگر وہ ڈاکٹر بننا چاہتا ہے تو اسے اردو، انگلش، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے لازمی مضامین کے ساتھ فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کے مضامین اختیاری طور پر پڑھنے پڑتے ہیں اور اگر وہ انجینئر بننا چاہتا ہے تو اسے لازمی مضامین کے ساتھ فزکس، کیمسٹری اور ریاضی کے مضامین اختیار کرنا پڑتے ہیں۔ آپ سوچیں! ایک ایسا طالب علم جو مستقبل میں ڈاکٹر یا انجینئر بننا چاہتا ہے آنے والے وقت میں لازمی مضامین اس کے لئے کتنے کارآمد ہیں؟ ورڈزورتھ، ولیئم بلیک، ایس ٹی کولرج اور جان کیٹس کی شاعری، ارنیسٹ ہیمنگوے کے ناول، شیکپیئر کے ڈرامے اور مینس فلیڈ، جے کے جیروم اور جیمز تھربر کے افسانے مرض کی تشخیص کرنے کے کام آتے ہیں؟ بڑی عمارتوں کی تعمیر میں استعمال ہوتے ہیں؟ یا انسانی سہولت کے لئے کوئی نئی ایجاد کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں؟ غالب کی غزلیں کون سے آپریشن میں مفید ثابت ہوتی ہیں؟ میر تقی میر، میر درد، میر انیس، احسان دانش، میرداغ اور اکبر الہ آبادی کی شاعری، انتظار حسین کے افسانے، رضیہ بٹ اور ڈپٹی نذیر احمد کے ناول انجینئرنگ کے کون سے فارمولے حل کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں؟ کیا یہ ادب پارے میڈیکل کے طالب علم کو کوئی نئی میڈیسن ایجاد کرنے میں فائدہ دیتے ہیں؟ کسی انجینئر کے لئے تکنیکی اعتبار سے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں کیا ادب کا یہ خزانہ جو انٹرمیڈیٹ میں سائنس کے طالب علموں کو دو سال پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے انہیں آئین سٹائین، نیوٹن، فراڈے، بوائل، چارلس، پاسکل، گراہم بیل، جے جے تھامسن یا ڈاکٹر عبدالقدیر خان بنا سکتا ہے؟ یقینا نہیں بنا سکتا، بلی کے گھر شیر کی پیدائش کا امکان ہی دنیا کا انتہائی نامعقول خیال ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسقبل کے مسیحاؤں اور معماروں کو فزکس، کیمسٹری، ریاضی اور بیالوجی کے مساوی نمبروں کے حامل اردو اور انگلش پڑھا کر نجانے وطن عزیز کی کون سی خدمت کی جارہی ہے۔
١٨٥٧ء کی کہانیاں اور ١٧٢٣ء کی نظمیں پڑھا کر آخر ہم معصوموں سے حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ایک بچے نے ان زبانوں اور ادب ریزوں سے جو کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے وہ میٹرک تک ہی حاصل کر لیتا ہے بعد میں ایک ہی چیز کو طوطے کی طرح رٹانے کا فائدہ؟۔
اب آئیے میٹرک سے آگے ایف ایس سی کی طرف ایک میڈیکل کے طالب علم کے لئے فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کے تینوں مضامین پڑھنے کتنے ضروری ہیں؟ ہم سب جانتے ہیں کہ فزکس مادے اور توانائی کی ساخت، تبدیلیوں اور تعلامات کے مطالعے کا نام ہے جبکہ کیمیا مادے کی ساخت، ہیئت، ترکیب، تبدیلی اور مادے سے وابستہ توانائی کی تبدیلیوں کے مطالعے کا نام ہے۔ بیالوجی تو ویسے بھی زندہ اشیاء کا مطالعہ کہلاتا ہے۔ اجزاء کے اعتبار سے کیمسٹری، بیالوجی کے زیادہ قریب ہے یہ دونوں مضامین باہمی مطالعہ میں ایک دوسرے کے سود مند معاون ثابت ہوتے ہیں جبکہ فزکس بیالوجی کے طالب علم کے لئے پانچ فیصد بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوتی، لیکن اس کے باوجود میڈیکل کے طالب علم کو دو سال طبعیات کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہی حال پری انجینئرنگ کے طلباء کا ہوتا ہے کیمسٹری جس کا ریاضی سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں طلباء پر یہ آضافی بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ عقل کے دروازے کھول کر دیکھیں تو ایف ایس سی میں داخلہ لینے والے طالب علم کو ہم تین ایسے اضافی مضامین پڑھا دیتے ہیں جو ان کے لئے زندگی میں کبھی ثمرآور ثابت نہیں ہوتے۔ان مضامین کی جگہ میڈیکل اور انجینئرنگ کے ان کے لئے معاون مضامین کے ایڈوانس کورسز پڑھائے جا سکتے ہیں۔ یہ ایڈوانس کورسز کرا کے یقینا ہم سات سو سالوں کی ترقی صرف سات سال میں طے کر سکتے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کے کھوئے ہوئے قافلے کو صرف چند سالوں میں پکڑ سکتے ہیں۔
جو طلباء اردو اور انگلش پڑھنا چاھتے ہیں وہ ان مضامین کو اختیاری طور پر یہ مضامین پڑھ سکتے ہیں۔ دنیا میں ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا کہ ایک چیز لازمی بھی ہو اور اختیاری بھی یہ ‘معجزہ‘ صرف پاکستان میں ہو سکتا ہے کہ اردو لازمی بھی ہے اور اختیاری بھی، انگلش لازمی بھی ہے اور اختیاری بھی، اسلامیات لازمی بھی ہے اور اختیاری بھی، مطالعہ پاکستان لازمی بھی ہے اور اختیاری بھی ہے۔
ہمیں اختیاری مضامین کے ایسے کمبی نیشن بنانے ہوں گے جو ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ثابت ہوں جن کا آپس میں کوئی جوڑ، کوئی تعلق بھی بنتا ہو۔ اگر ہم شرخ شلوار کے ساتھ سفید قمیض پہن لیں یا تھری پیس سوٹ کے ساتھ ہوائی چپل پہن لیں تو خود ہی مذاق بن جائیں گے۔ اس لئے خدارا آپ ان معصوم بچوں پر سے کتابوں کا بوجھ اتاریئے، انہیں ذہنی طور پر ہلکا پھلکا کیجیئے پھر دیکھیئے یہ شیر کیا کرتے ہیں کیونکہ ایک گدھا بھی بوجھ کم ہونے پر مالک کے کہے بغیر اپنی سپیڈ تین گنا کر لیتا ہے، یہ پھر بھی شیروں کی قوم ہے۔ اس لئے خدارا ان شیروں پر رحم کیجئے ان پر لدھے اضافی بوجھ کو ختم کریں ورنہ سب جانتے ہیں بوجھ تو شیروں کو بھی گدھا بنا دیتا ہے۔
2 comments:
جناب عالی ! میں اپنے علم اور تجربہ کی بنیاد پر آپ سے متفق نہیں ہوں ۔ جن معروف اشخاص کے نام آپ نے بطور مثال تحریر کئے ہیں (آئین سٹائین، نیوٹن، فَیراڈے، بوائل، چارلس، پاسکل، گراہم بیل، جے جے تھامسن یا ڈاکٹر عبدالقدیر خان) اِنہوں نے سائنس کے جن شعبوں میں نام پیدا کیا اُس کی روائتی یونیورسٹی تعلیم بہت کم حاصل کی تھی ۔ ڈاکٹر عبدلقدیر ہی کو لے لیجئے ۔ اُنہوں نے وہ سارے مظامین پڑھے تھے جن کو آپ نے گدھے کا بوجھ قرار دیا ہے بلکہ تاریخِ ہندوستان کے علاوہ تاریخِ انگلستان بھی پڑھی تھی ۔ اُنہوں نے ساری عمر میٹالرجی کی تعلیم حاصل کی جبکہ ایٹمی دھماکہ ہو یا میزائل ۔ نام مکینیکل انجنیئرنگ کے شعبہ میں پیدا کیا ۔ آپ عبدالقدیر خان کے مشاغل پر غور کریں تو آپ اُنہیں تاریخ دان اور مُلّا پائیں گے ۔
1/16/2006 03:04:00 PMاصل مسئلہ ہمارا رٹّا یا گوٹا لگا کر امتحان پاس کرنے کا نظام ہے جو ہونہار طالب علموں کا دُشمن ہے اور نا اہلیت کے فروغ کا باعث ۔
آپ تعلیم کو صرف ووکیشنل تعلیم سمجھ رہے ہیں۔ میرے خیال سے ہر طالب علم کو نہ صرف سکول اور کالج میں بلکہ یونیورسٹی میں بھی سائنس، ریاضی، معاشرتی علوم اور ادب وغیرہ پڑھنے چاہیئیں۔
1/17/2006 01:18:00 AMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔