تاریخ ڈیرہ غازی خان ۔ ١ حصہ اول
اس سے پہلے یہاں ڈیرہ غازی خان کے حوالے ‘سنہرا مستقبل‘ اور ‘حضرت پیر عادل‘ کے عنوان سے لکھا جا چکا ہے، مگر اس میں کچھ باتیں تشنہ طلب تھیں اور پھر تاریخ کے حوالے سے بھی بہت کچھ لکھنا باقی تھا اس تحریر میں ان تمام باتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ضلع ڈیرہ غازی خان اپنے محل وقوع، سندھی، پنجابی، بلوچی اور پٹھانی زبان کے ساتھ علاقائی تہذیبوں کا سنگم ہونے کی وجہ سے پاکستان کی وحدت کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس کی اس حیثیت کے باوجود اس علاقے کو اب تک کی حکومتوں نے مسلسل نظرانداز کئے رکھا جس کی وجہ سے یہ ضلع اپنا صحیح مقام حاصل نہیں کر سکا اور ہر معاملے میں پسماندہ ہے، ڈیرہ غازی خان کو قومی اسمبلی میں دو تین دفعہ دارالحکومت بنانے کی تجویز پیش کی گئی، کیونکہ چاروں صوبوں کا مقام اتصال ہونے کے علاوہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے مگر افسوس کہ دارالحکومت تو بہت دور کی بات ہے اس ضلع کو اس کے جائز حقوق بھی نہیں دیئے گئے۔ اسلام آباد، آزادکشمیر اور اس کے گردونواع میں آنے والے حالیہ زلزلے کے بعد ایک بار پھر یہ افواہ زیرگردش ہے کہ ڈیرہ غازی خان کو دارالحکومت بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں مگر بات وہی ہے کہ ‘ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک،۔
ضلع ڈیرہ غازی خان کی عوام نے یہاں کے سیاستدانوں کو عروج تک پہنچایا، فاروق احمد خان لغاری صدارت کی سیٹ پر، ذوالفقار علی خان کھوسہ سینئروزیر پنجاب اور گورنر پنجاب کی سیٹ پر فائز رہے چکے ہیں مگر اس کے باوجود ترقی ڈیرہ غازی خان کو چھو تک نہیں گزری سابق صدر فاروق احمد خان لغاری کے دور میں ڈیرہ غازی خان میں کچھ کام ہوا اس کے بعد سے اب تک ایک طویل خاموشی چھائی ہوئی ہے، جسے صدر پرویز مشرف کی روشن خیالی اور شوکت عزیز کی جدیدیت بھی دور نہ کر سکی۔
یہ تو تھا ڈیرہ غازی خان کا مختصر سا تعارف، اب آئیے ڈیرہ غازی خان کی تاریخ کی طرف۔
ڈیرہ غازی خان کی تاریخ بہت پرانی ہے، اس علاقے میں کئی سوسال پہلے کی تہذیبوں کے آثار اب بھی پائے جاتے ہیں، موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی طرح ڈیرہ غازی خان بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے، اس میں موجود کھنڈرات کی اگرچہ کھدائی نہیں ہوئی لیکن اوپر کی تہہ سے حاصل ہونے والی اشیاء کئی ہزار سال پہلے کی داستان سنا رہی ہیں۔
ڈیرہ غازی خان کی باقاعدہ تاریخ اور حوالہ جات سکندراعظم کے حملے سے پہلے کے زمانے کے نہیں ملتے کیونکہ آریاؤں نے یہ علاقے تباہ کر دیئے تھے سکندراعظم کے حملہء ہندوستان کے وقت اس علاقے پر داریوش نامی ہندو بادشاہ کی حکومت تھی، سکندراعظم ہندوستان میں لوٹ مار اور اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد اس علاقے سے گزرا، اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس نے کوٹ مٹھن کے قریب سے دریائے سندھ کو عبور کیا اور ڈیرہ غازی خان میں داخل ہوا۔ ان دنوں ڈیرہ غازی خان کا علاقہ داریوش نے اپنی چہتی بیٹی نوشابہ کو دے دیا تھا، کہا جاتا ہے کہ نوشابہ سکندراعظم کی بیوی بنی۔
سکندراعظم کی واپسی کے دو سال بعد پنجاب اور سندھ میں بغاوت کر کے سکنداعظم کی حکومت ختم کر دی گئی، اس بغاوت کا روح رواں مگدہ کے راجہ کا باغی جرنیل چندرگپت موریا تھا، چندرگپت موریا اس علاقے کا حکمران بن گیا، چندرگپت کے خاندان کی حکومت اس وقت ختم ہو گئی جب حکمران کو اس کے جرنیل پشپامتر نے ١٨٨ ق م میں قتل کر دیا چندرگپت کے خاندان کے بعد تاریخی کڑیاں پھر گم ہو جاتی ہیں لیکن اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ ١٨٨ق م سے لیکر پانچویں صدی تک اس علاقے میں باختری، یونانی، پارتھین، ساکا، کشان، حیطال، ہن، گوجر، ساسانی اور مانی نام کے خاندانوں کی حکومت رہی۔ مانی خاندان کے خاتمے پر یہ علاقے ایرانی سلطنت میں شامل ہو گئے، پانچویں صدی کے آخر میں ایرانی سلطنت کمزور پڑ گئی جس کی وجہ سے یہاں رائے خاندان نے بغاوت کر کے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ رائے خاندان کا پایہ تخت ایلور (اروڑ) تھا جس کے کھنڈرات آج بھی جامپور میں داجل کے قریب موجود ہیں۔ رائے خاندان کی حکومت کے وقت ملتان سے لیکر کشمیر تک کے علاقے پر چج نامی خاندان کی حکومت تھی۔ چج حاکم نے آخری رائے حکمران کی رانی سے شادی کر لی اور یوں چج اس علاقے کا حکمران بن گیا یہ واقعہ ٦٣١ء کا ہے۔ چج نے باقی تمام زندگی اس علاقے کی ترقی میں گزاری۔ چج نے اس علاقے پر چالیس سال سے زیادہ عرصہ تک حکمرانی کی۔ چج کے بعد چج کا بھائی چندا اس علاقے کا حکمران بنا۔ چندا کی موت کے بعد اس کا بھتیجا اور چج کا بیٹا داہر حکمران بنا۔ داہر ایک ظالم شخص تھا۔ اس نے عربوں کا ایک جہاز لوٹ لیا، اس پر حجاج بن یوسف ثقفی نے اپنے بھتیجے عمادالدین کو داہر کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔ عمادالدین تاریخ میں محمد بن قاسم کے نام سے مشہور ہے۔ محمد بن قاسم نے ٧١١ء میں داہر کا پایہ تخت الور فتح کر لیا، اس طرح برصغیر میں اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔ محمد بن قاسم کو عبدالملک نے بلا بھیجا اور ذاتی عناد کی بنا پر قید میں ڈال دیا اور اسی قید میں ہی برصغیر میں اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھنے والا محمد بن قاسم فوت ہو گیا۔ برصغیر میں اسلامی مملکت کے قیام کے بعد چالیس برس تک سندھ اور اس علاقے کے لئے حکمران بغداد سے آتے رہے کیونکہ امیوں نے اس علاقے پر اپنی گرفت مضبوط رکھی، لیکن عباسیوں کے سلطنت کے قبضے کے بعد سندھ پر بغدادی حکومت کی گرفت کمزور پڑ گئی، کمزور نظم و نسق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں قرامطی عرب قابض ہو گئے جن کا مرکز ملتان تھا۔ جس وقت سبکتگین غزنی کا حکمران تھا اس وقت اس علاقے پر حمید لودھی کی حکومت تھی۔ حمید لودھی سبکتگین کے خلاف ملتان کی حکومت کی تمام پونجی جے پال کے حوالے کر دیتا اور اس کے ساتھ مل کر سلطنت غزنی کے علاقوں میں لوٹ مار کرتے، تنگ آ کر سبکتگین نے ملتان پر حملہ کر دیا، جےپال کو شکست کا سامنا کرنا پڑااور حمیدلودھی نے خراج کے عوض صلح قبول کر لی۔ اس صلح کے نتیجے میں وہ ہر سال غزنی حکومت کو خراج دیا کرتا تھا لیکن حمیدلودھی کا پوتا ابوالفتح داؤد ہندو راجہ اننگ پال کی حمایت کرنے لگا اور دونوں مل کر محمود غزنوی کے علاقوں میں لوٹ مار مچانا شروع کر دی۔ آخر محمود غزنوی نے ملتان پر حملہ کر دیا، ابوالفتح داؤد بھاگ گیا۔ اہل شہر کو امان ملی، مگر سلطان محمود غزنوی کے حکم پر قرامطیوں کا قتل عام ہوا۔ سلطان نے ملتان کا الحاق غزنی سے کر دیا۔ محمود غزنوی کی وفات کے بعد اس کا بیٹا سلطان محمود حکمران بنا مگر نو سال کے بعد اسے قتل کر دیا گیا اس کے بعد سات حکمران اور بنے مگر سب یکے بعد دیگرے یا تو قتل ہوئے یا طبعی موت مر گئے۔ سلطان شہاب الدین غوری جب حمکران بنا تو اس نے دہلی فتح کر لیا اور ڈیرہ غازی خان کے علاقے کو دہلی کے ساتھ شامل کر لیا۔
ضلع ڈیرہ غازی خان اپنے محل وقوع، سندھی، پنجابی، بلوچی اور پٹھانی زبان کے ساتھ علاقائی تہذیبوں کا سنگم ہونے کی وجہ سے پاکستان کی وحدت کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس کی اس حیثیت کے باوجود اس علاقے کو اب تک کی حکومتوں نے مسلسل نظرانداز کئے رکھا جس کی وجہ سے یہ ضلع اپنا صحیح مقام حاصل نہیں کر سکا اور ہر معاملے میں پسماندہ ہے، ڈیرہ غازی خان کو قومی اسمبلی میں دو تین دفعہ دارالحکومت بنانے کی تجویز پیش کی گئی، کیونکہ چاروں صوبوں کا مقام اتصال ہونے کے علاوہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے مگر افسوس کہ دارالحکومت تو بہت دور کی بات ہے اس ضلع کو اس کے جائز حقوق بھی نہیں دیئے گئے۔ اسلام آباد، آزادکشمیر اور اس کے گردونواع میں آنے والے حالیہ زلزلے کے بعد ایک بار پھر یہ افواہ زیرگردش ہے کہ ڈیرہ غازی خان کو دارالحکومت بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں مگر بات وہی ہے کہ ‘ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک،۔
ضلع ڈیرہ غازی خان کی عوام نے یہاں کے سیاستدانوں کو عروج تک پہنچایا، فاروق احمد خان لغاری صدارت کی سیٹ پر، ذوالفقار علی خان کھوسہ سینئروزیر پنجاب اور گورنر پنجاب کی سیٹ پر فائز رہے چکے ہیں مگر اس کے باوجود ترقی ڈیرہ غازی خان کو چھو تک نہیں گزری سابق صدر فاروق احمد خان لغاری کے دور میں ڈیرہ غازی خان میں کچھ کام ہوا اس کے بعد سے اب تک ایک طویل خاموشی چھائی ہوئی ہے، جسے صدر پرویز مشرف کی روشن خیالی اور شوکت عزیز کی جدیدیت بھی دور نہ کر سکی۔
یہ تو تھا ڈیرہ غازی خان کا مختصر سا تعارف، اب آئیے ڈیرہ غازی خان کی تاریخ کی طرف۔
ڈیرہ غازی خان کی تاریخ بہت پرانی ہے، اس علاقے میں کئی سوسال پہلے کی تہذیبوں کے آثار اب بھی پائے جاتے ہیں، موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی طرح ڈیرہ غازی خان بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے، اس میں موجود کھنڈرات کی اگرچہ کھدائی نہیں ہوئی لیکن اوپر کی تہہ سے حاصل ہونے والی اشیاء کئی ہزار سال پہلے کی داستان سنا رہی ہیں۔
ڈیرہ غازی خان کی باقاعدہ تاریخ اور حوالہ جات سکندراعظم کے حملے سے پہلے کے زمانے کے نہیں ملتے کیونکہ آریاؤں نے یہ علاقے تباہ کر دیئے تھے سکندراعظم کے حملہء ہندوستان کے وقت اس علاقے پر داریوش نامی ہندو بادشاہ کی حکومت تھی، سکندراعظم ہندوستان میں لوٹ مار اور اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد اس علاقے سے گزرا، اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس نے کوٹ مٹھن کے قریب سے دریائے سندھ کو عبور کیا اور ڈیرہ غازی خان میں داخل ہوا۔ ان دنوں ڈیرہ غازی خان کا علاقہ داریوش نے اپنی چہتی بیٹی نوشابہ کو دے دیا تھا، کہا جاتا ہے کہ نوشابہ سکندراعظم کی بیوی بنی۔
سکندراعظم کی واپسی کے دو سال بعد پنجاب اور سندھ میں بغاوت کر کے سکنداعظم کی حکومت ختم کر دی گئی، اس بغاوت کا روح رواں مگدہ کے راجہ کا باغی جرنیل چندرگپت موریا تھا، چندرگپت موریا اس علاقے کا حکمران بن گیا، چندرگپت کے خاندان کی حکومت اس وقت ختم ہو گئی جب حکمران کو اس کے جرنیل پشپامتر نے ١٨٨ ق م میں قتل کر دیا چندرگپت کے خاندان کے بعد تاریخی کڑیاں پھر گم ہو جاتی ہیں لیکن اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ ١٨٨ق م سے لیکر پانچویں صدی تک اس علاقے میں باختری، یونانی، پارتھین، ساکا، کشان، حیطال، ہن، گوجر، ساسانی اور مانی نام کے خاندانوں کی حکومت رہی۔ مانی خاندان کے خاتمے پر یہ علاقے ایرانی سلطنت میں شامل ہو گئے، پانچویں صدی کے آخر میں ایرانی سلطنت کمزور پڑ گئی جس کی وجہ سے یہاں رائے خاندان نے بغاوت کر کے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ رائے خاندان کا پایہ تخت ایلور (اروڑ) تھا جس کے کھنڈرات آج بھی جامپور میں داجل کے قریب موجود ہیں۔ رائے خاندان کی حکومت کے وقت ملتان سے لیکر کشمیر تک کے علاقے پر چج نامی خاندان کی حکومت تھی۔ چج حاکم نے آخری رائے حکمران کی رانی سے شادی کر لی اور یوں چج اس علاقے کا حکمران بن گیا یہ واقعہ ٦٣١ء کا ہے۔ چج نے باقی تمام زندگی اس علاقے کی ترقی میں گزاری۔ چج نے اس علاقے پر چالیس سال سے زیادہ عرصہ تک حکمرانی کی۔ چج کے بعد چج کا بھائی چندا اس علاقے کا حکمران بنا۔ چندا کی موت کے بعد اس کا بھتیجا اور چج کا بیٹا داہر حکمران بنا۔ داہر ایک ظالم شخص تھا۔ اس نے عربوں کا ایک جہاز لوٹ لیا، اس پر حجاج بن یوسف ثقفی نے اپنے بھتیجے عمادالدین کو داہر کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔ عمادالدین تاریخ میں محمد بن قاسم کے نام سے مشہور ہے۔ محمد بن قاسم نے ٧١١ء میں داہر کا پایہ تخت الور فتح کر لیا، اس طرح برصغیر میں اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔ محمد بن قاسم کو عبدالملک نے بلا بھیجا اور ذاتی عناد کی بنا پر قید میں ڈال دیا اور اسی قید میں ہی برصغیر میں اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھنے والا محمد بن قاسم فوت ہو گیا۔ برصغیر میں اسلامی مملکت کے قیام کے بعد چالیس برس تک سندھ اور اس علاقے کے لئے حکمران بغداد سے آتے رہے کیونکہ امیوں نے اس علاقے پر اپنی گرفت مضبوط رکھی، لیکن عباسیوں کے سلطنت کے قبضے کے بعد سندھ پر بغدادی حکومت کی گرفت کمزور پڑ گئی، کمزور نظم و نسق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں قرامطی عرب قابض ہو گئے جن کا مرکز ملتان تھا۔ جس وقت سبکتگین غزنی کا حکمران تھا اس وقت اس علاقے پر حمید لودھی کی حکومت تھی۔ حمید لودھی سبکتگین کے خلاف ملتان کی حکومت کی تمام پونجی جے پال کے حوالے کر دیتا اور اس کے ساتھ مل کر سلطنت غزنی کے علاقوں میں لوٹ مار کرتے، تنگ آ کر سبکتگین نے ملتان پر حملہ کر دیا، جےپال کو شکست کا سامنا کرنا پڑااور حمیدلودھی نے خراج کے عوض صلح قبول کر لی۔ اس صلح کے نتیجے میں وہ ہر سال غزنی حکومت کو خراج دیا کرتا تھا لیکن حمیدلودھی کا پوتا ابوالفتح داؤد ہندو راجہ اننگ پال کی حمایت کرنے لگا اور دونوں مل کر محمود غزنوی کے علاقوں میں لوٹ مار مچانا شروع کر دی۔ آخر محمود غزنوی نے ملتان پر حملہ کر دیا، ابوالفتح داؤد بھاگ گیا۔ اہل شہر کو امان ملی، مگر سلطان محمود غزنوی کے حکم پر قرامطیوں کا قتل عام ہوا۔ سلطان نے ملتان کا الحاق غزنی سے کر دیا۔ محمود غزنوی کی وفات کے بعد اس کا بیٹا سلطان محمود حکمران بنا مگر نو سال کے بعد اسے قتل کر دیا گیا اس کے بعد سات حکمران اور بنے مگر سب یکے بعد دیگرے یا تو قتل ہوئے یا طبعی موت مر گئے۔ سلطان شہاب الدین غوری جب حمکران بنا تو اس نے دہلی فتح کر لیا اور ڈیرہ غازی خان کے علاقے کو دہلی کے ساتھ شامل کر لیا۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔