16 January, 2007

ریلیف یا تکلیف ؟

چیزوں سے خوف زدہ یا خوش ہونے کے لئے بھی ان کا شعور بہت ضروری ہے۔ بالغ شخص کتنا ہی بہادر کیوں نہ ہوسانپ کو دیکھ کر اسے گلے کا ہار نہیں بنانا چاہے گا، جبکہ بچہ اس کی چمک دمک دیکھ کر اس کی طرف لپکے گا بلکہ اس کے ساتھ کھیلنا بھی چاہے گا۔ عوام کی اکثریت بھی بچوں کی طرح ہوتی ہے جو ہر چمکتی چیز کو سونا اور ہر ڈرامے کو حقیقت سمجھ کو بچوں کی طرح کھل اٹھتے ہیں اور تالیاں بجانے لگتے ہیں۔
حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کا جو اعلان کیا ہے اس پر بھی یہی کچھ ہو رہا، پی ٹی وی پر زمین آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کو ایک مہینے سے اوپر ہو گیا ہے اور اس دروان یہ قمیتیں مسلسل کم ہوتی رہیں۔ حکومت نے اب آ کر حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے پٹرول کی قیمتوں میں چار روپے فی لیٹر جبکہ ڈیزل کی قیمت میں ایک روپیہ فی لیٹر کمی کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی یہ وعید بھی سنائی ہے کہ اس کے اثرات عام آدمی تک پہنچیں گے اور مہنگائی میں یقینی طور پر کمی واقع ہو گی۔ اسے کہتے ہیں سجی دکھا کر کھبی مارنا۔ یہ معمولی ریلیف اس جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ اس تھوڑے سے ریلیف کے بعد تکلیف کا سفر شروع ہونے والا ہے۔ آخر ١٥ ارب کے خسارے کا سامنا ہے اسے کسی مد میں ڈالنا تو ہے نا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ گیس اور بجلی پر کب بجلی گرتی ہے۔
اس ریلیف میں بھی حکومت نے عوام کے بارے میں کچھ نہیں سوچا صرف اپنے جیسے لوگوں کا ہی بھلا کیا ہے جو بڑی پیٹرول گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ غریب بیچارہ تو ویگنوں اور بسوں کے دکھے کھاتا ہوا اپنی منزل تک پہنچتا ہے جو ڈیزل سے چلتی ہیں اور ڈیزل کی قیمتوں میں ایک روپے کمی کے بعد ویگنوں اور بسوں کے کرایوں میں کتنے فیصد کمی ہو گی؟ اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں۔
ہمارے شوکت عزیز صاحب نے مشاعرہ ہی ایسا شروع کیا کہ جس کے ہر شعر پر عوام پُھڑک پُھرک جائیں۔
صدر مشرف صاحب بھی ایل ایف او سے براستہ سب سے پہلے پاکستان سے ہوتے ہوئے اس تکلیف پیکج تک پہنچ ہی گئے ہیں تو باقی کا سفر بھی کٹ ہی جائے گا مگر آہستہ آہستہ اور عوام باقی ماندہ سفر کے لئے کمر کس لیں، جس کے بارے میں سوچ کر ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔
حکومت اگر عوام کو ریلیف دینا ہی چاہتی تو قیمتیں اتنی تو کم کرے جتنی عالمی مارکیٹ میں کم ہوئیں ہیں اور ویسے بھی یہ عوام کا حق ہے جو یقینا اسے ملنا چاہیے ورنہ تو ریلیف اور تکلیف میں بس تھوڑا سا فرق رہ جاتا ہے اب یہ حکومت کو طے کرنا ہے کہ وہ عوام کو کیا دینا چاہتی ہے ریلیف یا تکلیف۔

2 comments:

میرا پاکستان نے لکھا ہے

ہرطرف سے دباؤ کے بعد حکومت نے آخر کار پٹرول کي قيمتيں کم تو کيں چاہے تھوڑي ہي سہي۔ ہميں تو يہ فکر ہے کہ کچھ عرصے بعد قيمتيں پھر نہ بڑھا دي جائيں کيونکہ ورلڈ بنک بچلي کي قيمت بڑہانے پر پہلے ہي زور دے رہا ہے۔

1/16/2007 06:26:00 AM
Anonymous نے لکھا ہے

آپ کے شوکت عزیز کے مشاعرے پر اپنا ایک پرانا گیت یاد آ گیا جو جوانی کی چند “گنی چنی“ یادوں میں سے ایک ہے

تم جب بھی کبھی ہنس دیتی ہو ، میں چونک چونک سا جاتا ہوں
تم جب بھی مجھے یوں تکتی ہو ، میں دھنک دھنک سا جاتا ہوں

اور جب شوکت صاحب کے مشاعرے میں ہوں تو

تم جب بھی کبھی ، کچھ کہتے ہو ، میں لپک لپک کہ آتا ہوں
تم جب بھی ، چپ ہو جاتے ہو ، میں پھدک پھدک رہ جاتا ہوں

1/16/2007 11:39:00 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب