12 June, 2009

سوالیہ تحریری حقائق

خیالات کے بےہنگم ہجوم میں سوچتاہوں، کہوں تو کیا کہوں۔ پھول کی خوشبو سحر انگیز تاثیر رکھتی ہے۔ لفظوں کے اثرات ما بعد ضبطِ تحریر کیاگل کھلا رہے ہیں، یہ دُنیا دیکھ رہی ہے۔ تحریر میں خیال اچھا ہو، تو کیا خوب بات ہے۔
آفرین! اِک نقطہ نظر ہے، دُنیا میں انسان کے رُجحانات کتابوں نے بدلے ہیں۔ قوموں کی تقدیر بدلی، ممالک کی قسمت بنی ۔۔۔۔ حتیٰ کہ زمانے کتابوں کے ٹھہر پائے۔ یہ دور کس کتاب کا ہے؟ کتابوں کے انبار میں، شائد کسی بھی کتاب کا دور نہیں چل رہا۔
لکھنے والے رہے نہیں، پڑھنے والےعالم بنے، پڑھانے والے نہ جانے کیا کر رہے ہیں۔ ہُو کا یہ عالم ٹھہرا کہ زمانے کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ دوڑ اپنی اپنی ہوئی، چور پوری قوم ہوئی۔ مایا کی تلاش میں، نام کمایا۔ فاترالعقل نے زمانہ میں، انجانہ خوف بنایا۔
حادثاتی مصنفین کا حادثاتی دور چل پڑا اللہ نہ کرے، یہ قوم بُرے حادثات کا شکار ہو۔اعتراض مصنف نہیں، معترض تو متنفر سوچ کی نفرت اور شر انگیز اشاعت سے ہوں۔ مغرب دشمن ہے، ہمارا مسلمان بھائی لسانی و مذہبی تنازعات کا شکار ہے، ہمارے خلاف ساز ش ہو رہی ہے، محبوب بے مروت ہے، زندگی گلیمر ہے، حقیقت کیا ہے؟ بس! جو مفروضے پیش ہوئے، وُہ حقیقت ٹھہرے۔ آج عام فرد کی دسترس میں ایسی ہی کتب دستیاب ہیں۔ جو مایوسی کا سبب بن رہی ہیں۔ اصل حقیقت غور و فکر سے محروم! حادثاتی دور کا یہ بھی اِک زمانہ ہے۔
محقق قلابے ملاتےہوئے، بنیادیں ہلا رہے ہیں، تحقیق کار تحقیق نہیں کر رہے۔ اشاعتی ادارے اغلاط سے بھرپور چند نشریات بھی چلا رہے ہیں۔ مگرمیں مایوس نہیں۔ اِن حالات میں بھی، اس قوم میں چند نَول کِشور (١) صاحب جیسے ناشر موجود ہیں۔
دو لفظ بولنے والا لکھنے والاہو گیا، چار باتیں جاننے والا محقق بن گیا، کسی کو متاثر کرنے کی کوشش میں ناکام ہو جانے والا شاعر بن بیٹھا۔ سستی شہرت والوں نے بہت کچھ لکھ ڈالا۔ مگر اُنکا مقصد صرف اپنی ذات کی رونمائی ہے۔ کاش! ایسے افراد کا مقصد قوم کی خدمت ہو جائے تو حقیقی مقصد کے حصول میں سمت کا تعین ہو جائےگا۔
عجیب عجیب تماشہ دیکھنے کو مِل رہا ہے۔ چور بے خبر بہروپیا کا انٹرویو لے رہا ہے، کتاب چھپی تو معلوم ہوا، تصوف سے نابلد افراد کی گفتگو مغربی نفسیا ت پہ چل پڑی، ایک اور سنجیدہ مضحکہ خیز حادثہ۔
دامن بچانے کایہ دور ہے، جس میں ہر شےءگنی جا رہی ہے۔ اَگنی کی تعلیم دُگنی، تِگنی، چُگنی سے ہے۔ حادثات ہمارے منتظر ہے، جبکہ ہم کسی خوشنما حادثہ کے انتظار میں ٹھہرگئےہیں۔
حادثہ ہمارا ہو چکا، کتاب ہماری اور ہے۔ تعلیم کسی اور جانب چل پڑی۔ہمارا مصنف آج گنتیوں میں مصروف ہے، مغرب اپنے جن دانشوروں کی تقلید پر ہے، اُنکا نشوونمائی دور محرومیات اور لالچ سے اثر انداز ہوا۔ اُنکے افکار سوالیہ نشان !عربی، فارسی اور ہندی سے ہوئے ناواقف ہم، تکیہ ٹھہرا ہمارا تراجم پہ، بھول چکے اپنےمشاہرین اسلام کی اَصل تعلیم کو۔
(فرخ )
(١) نَول کشور: قیام پاکستان سےقبل برصغیر کےنامور پبلشر، جنھوں نے قرآن پاک کی اشاعت بھی فرمائی۔ اُن پر مسلمانوں نے مقدمہ دائر کیا کہ یہ بےحُرمتی ہے۔ وُہ عدالت میں پیش ہوئے اور فرمانےلگے۔ میں ہندو ہوں، مگر میں چاہتا ہو کہ اس کی اشاعت دیکھو مگر ایسا کر نہیں سکتا۔ کیونکہ اُس جگہ تمام کام کرنے والے افراد مسلمان ہے، کوئی فرد بغیر وضو اور پاک لباس کے داخل نہیں ہو سکتا۔ وہاں استعمال ہونے والے پانی کا نکاس گنگا کی ندی میں ہے (جو ہندوؤں کے نزدیک پاکیزہ ترین ہے)۔ جس کے لئے ایک خصوصی نہر کھدوائی گئی ہے۔ اب بھی اگر مجرم ہو تو سزا دے دیجئیے۔ جس پر تمام حاضرینِ عدالت نادم ہوئے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب