حقیقت، قومِ پاکستان
پاکستان ایک ایسی حقیقت ہے، جس کو نہ تو بھلایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اُسکا انکار ممکن ہے۔ حقیقت کو سمجھنے کے لیئے یہ خود ایک حقیقت ہے۔ پاکستان نہ تو کوئی فرضی داستان ہے اور نہ ہی کوئی فرضی حد بندی۔ یہ ایک ایسا وجود ہے، جسکا تسلیم کیا جانا ہی حقیقت کا آغاز ہے۔ اس کی حقیقت کو سمجھنے کے لیئے تحریک پاکستان کو سمجھنا ضروری ہے۔حقیقت کیا ہے؟ یہ راز کھولتی ہے۔ حقائق سے جب پردہ اُٹھتا ہے تو نئے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ حقیقت اصلیت ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی تسیلم ہوجانا حقیقت ہی ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے، مانیں یا نہ مانیں؛ جو بات دِل پر اثر کر جائے تو ایسی بات کچھ نہ کچھ وزن تو رکھتی ہے۔
نظریہ پاکستان ایک ایسی حقیقت ہے؛ جس کے حقائق کو جان لینا؛ ہر پاکستانی کیلیئے لازم ہے۔ یہ وُہ نظریہ ہے؛ جس کی حد محدود نہیں، اِسکا نقطہ نظر سوچ کو وسعت کے ساتھ بصیرت بھی عطاء کرتا ہے۔ جسکا ہر پہلو حقیقی و عملی ہے؛ اسکے ہر معاملہ کے پیچھے صرف وسیع ترمعنٰی پنہاں نہیں بلکہ ١٤٠٠ سال کے کامیاب ترین تجربات کا عیّاں ہونا بھی ہے۔ جن کی بنیاد رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی تعلیم ہی ہے۔ جو اسکی عالمگیری وسعت اور تسلیمیت کا مظہر ہے۔
نظریہ قوم دراصل نظریہ وحدت ہے، نظریہ فرد نہیں۔ قوم رنگ، نسل، زبان، علاقہ یا قبیلہ وغیرہ کی بنیاد پر نہیں بنتی بلکہ عقیدہ کی بنیاد قوم ہے۔ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ یہ وُہ بنیاد ہے جو وسعت نظری اور قومی احساس کا وجود لاتی ہے۔ علاقائی قوم کا تصور تنگ نظری پیدا کرتا ہے، یہ وحدت کی بجائے تعصب سے علیحدگی کا باعث بنتا ہے۔ جو تقسیم، نفرت اور احساس محرومی کی کثرت کا سبب بنتے ہیں۔
موج دریا میں ہے، بیرون دریا کچھ نہیں
فرد ملت سے ہے، بیرون ملت کچھ نہیں
قوم پاکستان کا نظریہ ہمارے ہر رنگ کا حصّہ ہے۔ قوم کی تعریف سے ہٹ کر زبان، مذہب، ثقافت اور تمدن کے معاملات کو دیکھ لیں؛ آپکو ہر جگہ پاکستان نظر آئےگا۔
قومی زبان اُردو علاقائی زبانوں اور لب و لہجہ کو وحدت بخشتی ہے۔ سوچ، خیال اور عمل کو ایک دھارے میں لاتی ہے۔ دھارا کیا ہے؟ صوفیانہ رنگ۔ وُہ کیسے؟ پاکستان میں بولی جانے والی تمام علاقائی زبانوں کا اعلٰی ترین ادبی رنگ دیکھیئے تو وُہ شاعرانہ رنگ؛ صوفیانہ کلام ہے۔ تمام خطہء پاکستان کی مشترکہ تعلیم؛ صوفیانہ تعلیم رہی۔ اُردو کا ظہور یہیں سے ہوا۔ ”کسی شعر میں جسقدر صوفیانہ رنگ غالب ہوگا، اُسکا مقام اُسقدر بلند اور اعلیٰ ترین تصور کیا جائےگا“ (واصف صاحب)۔
بطور مسلمان ہماری پہچان کلمہ طیبہ ہے، مسلک یا فرقہ نہیں۔ ولی اللہ مسلک کی نہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی بات عمل سے کر کے بتاتے ہیں۔ قائداعظم سے کسی نے دوران انٹرویو پوچھ لیا؛ آپکا فرقہ کونسا ہے؟ آپ نےکچھ یوں جواب میں فرمایا میرا فرقہ وہی ہے جو رسول پاک کا تھا۔ تو اُس فرد نے کہا اُس دور میں تو کوئی فرقہ نہ تھا۔ تو محترم قائداعظم نے فرمایا میں رسول پاک کی دی گئی تعلیم کےمطابق عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ١٨٥٧ء سے قبل فرقہ کا اختلاف نہ تھا۔ انگریز نے” تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کےاصول پر یہ فتنہ پیدا کیا۔ سید احمد شہید کی تحریک اسی سازش کا شکار ہوئی۔ آج اصل اور نقل کے الزام میں جانشینی کے اختلاف کیا ہیں۔ ہم مسلک، علاقہ، ذات، زبان، برادری ، جماعت کے انفراد ی ذاتی مفاد کے نام پر تقسیم ہوئے اور منقسم کیئے بھی گئے۔ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےآخری خطبہ کی اہمیت تقریر کے علاوہ عملاً بھول جاتے ہیں۔
مسجد اتحاد پیدا کرتی ہے۔ یہاں پر ہم محبت کا عملی درس سیکھتے ہیں۔ بیشک آج حقیقی تعلیم دینے والےمحترم افراد قلیل ہے مگر معاملات آج بھی تعلیم دے رہے ہیں۔ ایک قبلہ کی جانب منہ کر کے، امام کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں۔ اُسکا احترام مدنظر رکھتے ہیں۔ صف بندی میں بلا امتیاز کھڑے ہوتے ہیں۔ مل کر خدا کےحضور سجدہ کرتے ہیں، دعا مانگتے ہیں۔ صدقہ، خیرات اور زکوٰ ة سے کمزوروں کی مدد کرتے ہیں ہماری عبادات کا عمل محبت سے قوم میں وحدت کا جذبہ بیدار رکھتا ہے۔
مسجد معاشرہ میں ایک ایسے معاشرتی مرکز کی حیثیت رکھتی ہے؛ جہاں عبادات، تعلیم (مدارس)، انتظامی امور، مالی معاونت اور قانونی فیصلے تک کیئے جاتے ہیں۔
تعمیرا ت کو ہی لیجیئے۔ اللہ خود ایک ہے، اُسکو یکتائی پسند ہے اسی لیئے عمارات میں محرابوں کی تعداد اطاق رکھتے ہیں۔ اسلامی فن تعمیرات میں جیومیٹریکل ڈیزائن، خطاطی، نقش کاری، کاشی کاری اور کندہ کاری کے کام میں ہر فنکار نے اَن گنت ڈیزائن تخلیق کیئے اور ہر تخلیق کار اور تخیل گو کا بنیادی نقطہ ”وحدت“ (unity) رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیزائن میں یکتائیت کی افراط کے باوجود ؛اسلامی نظریہ وحدت یکسانیت رکھتا ہے۔ حتٰی کہ ہمارےگھروں کی کھڑکیاں، دروازی، چھتیں، باغات میں بارہ دریوں، فواروں اور پودوں وغیرہ کی ترتیب میں طاق اعداد اور وحدت کے نقطہ نظر کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ مینار ہی کو لیجیئے یہ ذات باری تعالیٰ کی برتری اور اقتدار اعلیٰ کا نظریہ؛ ارتقاء سے بلندی کی جانب لیجانےکا ترجمان ہے۔ آغازِ اسلام میں اذان بلند چھت یا مقام پر جا کردی جاتی تھی۔ جس کے دو مقاصد تھے، ظاہری یہ تھا کہ آواز تمام شہر یا حد آخر تک سنائی دے۔ عمارات کی تعمیر میں آواز کی گونج اور رفتار پر خصوصی توجہ رکھی جاتی تھی۔ باطنی مقصد بلند مقام سے اللہ کی راہ میں پکار اللہ کےمقام کا اظہار بھی تھا۔ دیگر اقوام میں مینار کئی مقاصد کےتحت تعمیر ہوئے، عہد قدیم میں جنگی مقاصد، عہد جدید میں ترقی و آزادی کی علامت تک کا یہ سفر ہے۔ مگر اسلام میں یہ ہمیشہ وحدت اور عروج کا ترجمان رہا ہے۔ مینار قومی تحریک کا ایک سنگ میل ہوتا ہے۔ برصغیر میں پہلی باقاعدہ اسلامی حکومت کے قیام کی علامت قطب مینار، پاکستان کےقیام کی یادگار مینار پاکستان، مساجد میں مینار کی تعمیر ملت اسلامیہ میں عقیدہ کی مضبوطی کی پہچان ہے۔
اسلامی فن تعمیر میں دیگر اقوام اور مسلمانوں میں ایک فرق رہا ہے۔گھر کی تعمیر میں مسلمان اپنے ہاں کھلےصحن کےساتھ ساتھ مناسب مقدار میں روشنی اور ہوا کی آمد ورفت کو مدنظر رکھتے ہیں، جو ذہنی و قلبی وسعت کا ترجمان ہے۔
تعمیرات میں بات عمارات تک نہیں بلکہ رنگوں کے مطالب اور استعمال میں بھی مشترکہ خصوصیات رکھتے ہیں۔ ہماری مساجد، مقابر، مدارس کی تعمیر میں نیلے رنگ کے ٹائیل ورک کا کثرت سے استعمال تاریخی تسلسل میں فارسی کے اثرات کا آئینہ دار ہے۔ سبز رنگ کو مقدس رنگ کےطور پر استعمال کرتے ہیں۔ سیاہ رنگ کے استعمال کو رسول کے پہلےعَلم (جھنڈا) کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ مزید اس رنگ کو حکمت و دانائی کےمعنی میں بھی لیتے ہیں۔ سفید کو اتحاد اور آغاز کی ترجمانی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اِن رنگوں کے ایک ہی معنوں سے استعمال اِس قوم (پاکستانی) کےجمالیاتی احساسات کو جوڑتا ہے۔
پاکستان کےکسی بھی خطہ میں چلے جائیں، موسم، حالات اور ماحول میں فرق کےباوجود اقدار یکساں ہے۔ بڑوں سےعزت اور احترام سے پیش آنا، چھوٹوں کےسر پہ دست شفقت رکھنا، ہم مرتبہ افراد سے (نفرت، بغض، حسد اور کینہ کو ختم کرتے ہوئے) گلےملنا۔ ایسے ثقافتی اور تمدنی اظہاری اعمال ہیں۔ جو محبت کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کے ہر دیہات میں عملی تربیت کی یہ اقدار آج بھی جاری ہے۔
علاقائی مشاورت کے لیئے اگر بلوچستان، سرحد اور کشمیر میں جرگے ہوتے ہیں تو پنجاب میں پنچائیت اور سندھ میں اس کو مَیڑھ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان اجتماعات کی سربراہی کوئی بزرگ ہی کر رہا ہوتا ہے۔ اگر سرحد میں یہ مَلک یا خان ہے تو بلوچستان میں سردار، پنجاب میں سرپنچ اور سندھ میں اسی کو مُکھ کا نا م دے دیا جاتا ہے۔ مگر بنیادی اندازِ مشاورت اور مقصد یکساں ہے۔
پاکستان ایسا ملک ہے، جس کے وجود میں آنے سے قبل یہاں کئی تہذیبوں (سندھ، ٹیکسلا، گندھارا) کا جنم ہوا، بیشمار ثقافتیں پھلی پھولیں۔ آج بھی ثقافت، رسم، رواج اپنے اپنے دائرہ میں پھل پھول رہے ہیں۔ مگر یہ تمام جدا نہیں۔ اِنکی مشترکہ خصوصیا ت قوم پاکستان کو یکجا کرتی ہے۔ مشترکہ خاصیت کیا ہے، صوفیانہ تعلیم۔ اس قوم کی پہچان مہمان نوازی ، جفاکشی ، محنتی ، بہادری ہے۔
پاکستانی قوم کا وجود ”واعتصموا بحبل اللہ جمعیا ولاتفرقوا“ (ترجمہ: ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ میں نہ پڑو“) میں ہے۔ پاکستانی قوم پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان، کشمیری نہیں۔ یہ وحدت ہے صرف اور صرف پاکستانی۔ افسوس! تقسیم در تقسیم کی بات ہوتی ہے۔ مزید انتظامی تقسیم کا شور ہوتا ہے، صوبے بنانے کی شورش پیدا کی جاتی ہے؛ ظلم، زیادتی، محرومی کے نعرے لگتے ہیں۔ آج عام فرد کا مزاج ایسا بن چکا ہے کہ وُہ ذاتی نا اہلی کو ذاتی مفاد میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اصلاح کے لیئے اصطلاحات نہیں ہوئیں مگر صلاح پر زور رکھا جاتا ہے۔
قائد اعظم نے ایک پیغام دیا۔ ایمان، اتحاد، تنظیم۔ یہی قوم ِپاکستان کی تعمیر سے ترقی کے سفر کا پیغام ہے۔
قوم پاکستان انفرادی سوچ نہیں، اجتماعی سوچ کا نام ہے۔
علامہ اقبال نےفرمایا تھا:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے، ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رُخصت تو مِلت بھی گئی
آج پاکستانی قوم اَن گنت نواسیر (ناسور کی جمع) کا شکار ہے۔ جہاں قدرتی طور پر ہر شئے اس قوم کو وحدت بخشتی ہے۔ اُسی طرح افراد اس وحدت کو تسلیم کرنے سے منکر ہو چلے ہیں۔ قوم میں وحدت جذبہ سے قائم ہوتی ہے۔ جس کو سیاسی، مذہبی، معاشرتی، ثقافتی اور تمدنی پہلوئوں سے اُجاگر رکھا جاتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ٹھہرا کہ ہر شعبہِ زندگی پہ کاری ضرب ذاتی مفادات کے تحت خود ہی لگائی۔
سیاسی اعتبار سے قیادت کے فقدان کی بات کرتے ہیں، مگر کیا خود اس فقدان کے لیئے اپنے حصہ کا کردار ادا کرتے ہیں؟ کسی قابل فرد کو نا اہل رہنما موقع دیتا ہے؟ سیاسی جماعتیں اپنی نمائش کےعلاوہ کبھی قومی و مِلی فکر کا جذبہ پیش کرتی ہیں؟ زلزلہ یا سیلاب میں متاثرین کی مدد تب تک نہیں کی جاتی جب تک میڈیا کوریج نہ دے۔ ممکن ہے اس دوران قیمتی جانوں کا نقصان بھی ملک کو برادشت کرنا پڑا ہو۔ قومی جماعتوں کی کیا یہی قومی سوچ ہے؟ مگر کچھ جماعتوں کا ایسا رویہ نہیں بھی ہوتا۔ بلکہ اُن کا کردار قابل تحسین ہوتا ہے۔
اکثر علاقائی جماعتیں عوامی استحصالی اور محرومی کے نام پر ؛ اپنےبھائیوں میں بھائیوں کے خلاف تعصب کا پرچار پھیلاتی ہیں، احساس محرومی کا شکار کرتی ہیں، اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیئے عوام کو گمراہ رکھتی ہے اور ملکی ترقی میں رکاوٹ بنائے رہتی ہیں۔ برس ہا برس ایک مسئلہ کو اُجاگر کر کےسیاست چمکائی جاتی ہے۔ شائد آج ہم اپنے مسائل حل کرنے میں خود سنجیدہ نہیں اور الزام دوسروں پر تھونپ دیتے ہیں۔
تاریخی و جغرافیائی تسلسل کے تحت رہتے ہوئے بھی، ایک خطرناک اور نہایت ہی مہلک سوچ ؛انتہائی پڑھے لکھے افراد میں پروان چڑھ رہی ہے کہ غیر علاقہ کا فرد کبھی بھی اُن کا دوست نہیں بن سکتا۔ جبکہ پاکستان کے ہر علاقہ کا باشندہ دوستی نبھاتا رہا ہے، اپنی جان دوست پر نچھاور کرتا رہا ہے۔ ہمارا ادب اور فلم اس بات کی گواہی بھی دیتے ہیں۔
میں علاقائی سیاسی جماعتوں کے خلاف نہیں ، بلکہ ملکی ترقی میں ان کا کردار بڑا ہی اہم ہوجاتا ہے۔ یہ اپنےعلاقہ اور عوام کےحقیقی مسائل کو نہ صرف بہتر انداز میں اُجاگر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں بلکہ اپنے ہی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کرلینےکی انمول خصوصیت بھی رکھتی ہیں۔ آج یہ سوال ہے کہ ایسی جماعتوں نے اپنے ذاتی مفادات کو پس و پشت ڈالتے ہوئے ؛ اپنےعوام کےحقیقی مسائل حل کرنے کے لیئے کیا کوئی اہم کردار ادا کیا؟ چند جماعتیں اپنی بقاء قائم رکھنے کے لیئے جھوٹے پروپیگنڈہ پھیلاتی ہیں۔ عوام احساس محرومی کا اس قدر شکار ہو گئی ہے کہ اگر کسی جگہ کوئی میرٹ پر مکمل نہ اُتر سکے تو بیشمار افراد اپنےعلاقائی تعلق کومسترد کیئے جانے کی وجہ گردانتے ہیں۔ بطور پاکستانی ہر فرد کو دُکھ ہے کہ ایسی سوچ پروان چڑھائی جا رہی ہے۔ ہم غلط ایک جانب کو نہیں ٹھہرا سکتے۔ کوتاہیاں تمام جانب سے سرزد ہوئیں ۔ بہت جلد یہ تمام ٹھیک ہو سکتا ہے اگر ہماری سوچ پاکستان اور ملت کے مفاد کی سطح تک وسیع ہوجائے اور ہر فرد اپنے حصہ کا کردار ادا کرے۔ یہ سوال کرنا چھوڑ دے؛ یہ ملک اُسکو کیا دیتا ہے؟ ملک ماں کی طرح ہوتا ہے، ماں سے یہ سوال نہیں کیا جاتا کہ اُس نےکیا دیا۔ ماں کا جنم دینا ہی احسان ہے۔ ماں سے علیحدہ ہونے والا بچہ کیا کبھی خوش رہتا ہے؟ ناراض ہو کر نیا گھر بنا لینا تو ممکن ہے مگر ماں کی دل آزاری کے بعد کیا اُس گھر میں خوشیاں لوٹیں گی۔ ماں معاف کرتی ہے، بیٹا معافی مانگتا ہے۔ ماں کے سامنے ”میں“ نہیں رہتی۔ آج ہر جماعت کو ماں کے پاؤں دبا کر اُسکی خدمت کرنی چاہیئے۔ محبت سے محرومی کی طرف نہیں جانا چاہیے، محبت تک ہی رہو ۔
١٩٦٥ء کی جنگ میں قوم کا مورال بلند تھا۔ ہر فرد نے جنگ میں اپنا کردار ادا کر کےحصہ لیا۔ کانوائےگزر رہا ہے تو نہایت بوڑھے بزرگ جو چل بھی نہ سکتے تھے، پاکستان اور اُسکے محافظ فوج کے لیئے دُعا کرتے، لاغر و ضعیف بڑھیا مٹھی بھر بھنے چنےگھر سےلیکر نکل کھڑے ہوتی اور جوانوں کو پیش کرتی۔ جوان بھی شفیق لہجہ سے یوں پیش آتا کہ جذبات مجروح بھی نہ ہونے پاتے، فنکار ایک جذبہ اور ولولہ سےاپنا کام بغیر معاوضہ کےصرف اور صرف پاکستان کی خاطر ادا کر رہے تھے۔ فوج شہر سےگزر رہی ہے تو شہر والے استقبال کی تیاری میں پہلے سے منتظر کھڑے رہتے اور آمد پر تمام بازار اُن پر نچھاور کر دیتے۔ دودھ والا تمام دودھ مفت میں دیکر خوش ہے، حلوہ پوڑی والا ناشتہ بھیج کر فوج کا ولولہ قائم کر رہا ہے۔ حجام کی دُکان میں جو خبریں اور تجزیہ زیر گفتگو ہے وُہ قوم میں مورال بلند کر رہا ہے۔ وہاں یہ سوال نہ تھا کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا؟ بلکہ جواب تھا کہ جو میلی نگاہ سے پاک وطن کو دیکھےگا، اُسکی آنکھیں نکال لی جائےگی۔ ہر فرد براہ راست جنگ میں شامل تھا، اپنا کردار ہر فرد نے خوب نبھایا کہ دُنیا کو یہ تحقیق کرنا پڑی قوم کا مورال کیا ہوتا ہے۔١٩٧١ء میں ہم مورال سے محروم کر دیےگئےتھے۔
اس ملک کو سب سے زیادہ مذہبی سطح پر فرقہ وارانہ اور شر انگیز نفرت نے نقصان پہنچا ڈالا۔ مسلمان اپنے ہی دوسرے مسلمان بھائی پر کفر کا فتوی جڑتا ہے، اور مسلمان واجب القتل مسلمان کو ٹھہراتا ہے۔ کیا یہی امن، رواداری، درگزر اور محبت والے مذہب کی تعلیم ہے؟ بچہ کو مسلمان نہیں دیوبندی، بریلوی، شیعہ کی تعلیم میں دیگر مسالک کے لئے نفرت سکھائی جاتی ہے۔ ایک ہی محلہ اور ایک ہی مسلک کی مساجد میں، مغرب کی اذان کے وقت پر بھی فرق لازماً رکھا جاتا ہے۔ ایک ہی مدرسہ کے فارغ التحصیل ہم جماعت ہی لےلیجیئے، جب اُن میں مفادات کا ٹکراؤ آتا ہے تو عقائد کے اختلاف کی بات لے بیٹھتے ہیں۔ اِن خونی جھگڑوں اور اختلافات کے باعث آج کا نوجوان مذہبی ٹھیکیداروں سے متنفر ہو کر دین سے بھی دور ہوا۔ اس سے ہرگز یہ تصور نہ لیا جائے کہ تمام مذہبی مبلغین ایسے ہیں۔ دراصل جس کی لاٹھی اُسکی کی بھینس کے مصداق ؛ آج وُہ لوگ نمایاں ہیں جو دھینگا مُشتی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ علماء و مبلغین نہایت ہی حلیم ، مہذب ، بحث اور جھگڑا میں نہ پڑنے والے افراد ہوتے ہیں۔ ایسے شریف لوگ گمنامی میں اس ملک اور دین اسلام کی خدمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وُہ کبھی کسی کو برا نہیں کہتے، بس اصلاح کا عمل مسلسل جاری رکھے رہتے ہیں۔ سلام ہو ایسےعظیم انسانوں پر۔
مزارات پر مجاورین اللہ والوں کے قصیدے سناتے ہیں، اُنکو بشر سے مافوق الفطرت بنا ڈالتے ہیں، اپنی تجوریوں کو لنگر کےنام پر بھرتے ہیں۔ کاش! ایسےچند افراد اُن نیک بندوں کے نقش قدم پر خود بھی چلیں اور لوگوں کو اُس پر چلنے کے لیئے رہنمائی فراہم کریں۔ مگر آج تو چند خانوادوں میں ماضی کے بادشاہوں کی طرح گدی نشینی کے جھگڑے چل پڑتے ہیں۔ ہمیں ایسے جھگڑوں سے پرہیز کرتے ہوئے محبت کا درس دینا چاہیے۔
روپے کی دوڑ نے قوم کی اکثریت کو ”پیسےکا پتر“ بنا دیا ہے۔ Status کے چکر میں زبان بھی امپورٹ کی، زبان سے غیر مانوس ہونے کے باعث احساس منتقل نہیں ہو پا رہا۔ جذبات، کیفیات ہر فرد کے اندر منجمد رہنے لگے ہیں۔ اظہار اندر ہی گُھٹ گُھٹ کر مر جائےگا۔ آج زندگی گلیمر کے سواء کچھ نہیں، انسان معاشرہ سے کٹ چکا ہے۔ انسان کی اہمیت مایا (دولت) سے ہے اور معاشرہ کا رویہ اس مثل کے مانند ہے، مایا کو رامو، رام، رام داس ۔
یہ تصور حقیقت سمجھا جا رہا ہے؛ جس کے پاس روپیہ ہے اُسکی اہمیت ہے۔ رشتہ داری دولت سے ہے افراد سے نہیں۔ گاڑی کا ماڈل، مکان کی لاگت، مہنگی آسائشی اشیاء اور صرف حاصل کی گئی تعلیمی ڈگری امارت طے کر رہے ہیں۔ صرف قصور اُمراء کا نہیں، غریب خاندان بھی بہو کے لیئے ملازمت کی شرط عائد کر رہا ہے، جہیز کو لعنٰت قرار دیتے ہیں، شائد آج بہو کو پیسہ بنانے والی مشین بھی تصور کیا جاتا ہے۔ اپنی بیٹی کو یاد نہیں رکھتے، دوسروں کی بیٹیوں کی قیمت لگاتے ہیں۔ بیٹی والے بیٹیاں بیچ کر بچھتا رہے ہیں۔ لڑکی والے بھی جھوٹی شان کی تلاش میں ہیں۔ اُنکو ایسا داماد چاہیے جو اُنکے لیئے ایک مشین ہو۔ شائد آج معاشرہ کو بیٹا یا بیٹی نہیں حسن کے ساتھ دولت بنانے والی نافرمان مشینیں بھی چاہیے۔گھر بسانے کی بجائے، طلاق کی ترویج ہو رہی ہے۔ تربیت کرنے والے افراد آج ایک مایوسی کا شکار ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ آج وُہ جس معاشرہ میں رہ رہے ہیں وہاں محبت سکھائی نہیں جا سکتی، کیونکہ اب یہ بات معاشرہ میں خیالی بات ہو چلی ہے۔
ثقافت ختم ہو رہی ہے، پکوان کےذائقہ کی جگہ fast food نے لے لی۔ حلال، حرام کی تحقیق کی بجائے سہولت اور status کو دیکھنے لگے۔ گھر میں فنکشن نیچرل پن کےمعنی رکھتا ہے، آج بکنگ کے دور میں حسن سے محروم، لباس شائستگی کی بجائے بیہودگی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ کیبل چینلز رنگ اور ڈیزائن معاشرہ کے طے کر رہے ہیں۔ مذہبی و ثقافتی نظریات کےتحت ڈیزائن اور رنگ کے انتخاب نہیں کئے جاتے۔ پلاسٹک کی بوتل کا”منرل واٹر“ صحت افزاء نام سے فروغ پا رہا ہے جبکہ پلاسٹک تو خود بیماریوں کا سبب ہے۔گھڑے کا پانی بہترین پانی تصور ہوتا ہے مگر وُہ status کہاں جائے؟ علاقائی مشروب موسم کے حوالے سے مخصوص ہیں۔ مگر مہمان اور میزبان دونوں کانجی، سکنج بین، لسی وغیرہ کو قابل توہین سمجھتے ہیں۔ ثقافت صرف چند نظریاتی لوگ قائم رکھنےکی کوشش کر رہے ہیں۔
ڈرامہ نگار کا ڈرامہ خود ڈرامہ بن چکا ہے۔ وُہ جو معاشرہ پیش کر رہا ہے، وُہ exist ہی نہیں کرتا اور لوگ اُس existense کی جانب بھاگ رہے ہیں۔ محبت صرف دِل ڈول کر شادی رچا لینے کا trend بنا دیا ہے۔ کیا حقیقی محبت یہی ہوتی ہے؟ آئندہ چند سالوں تک پاکستان پر بنایا گیا ڈرامہ خیالی بات ہی معلوم ہوگی۔ تحریک پاکستان افسانہ یا چند پاگل لوگوں کا جنون کہا جانے لگےگا۔
تمدنی اعتبار سےگھر بنائے نہیں جا رہے۔ مغرب سے خیالات امپورٹ ہوتے ہیں مشرقی انداز میں گھر بنانے کو اب ہتک سمجھا جانے لگا ہے۔ مغربی طرز کا گھر فخر تو بنتا ہے مگر ذرا سوچئیے کیا موسم اور ثقافت کےاعتبار سے یہ گھر قابل رہائش رہتے بھی ہیں یا نہیں۔ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔ ہمارا ہر قدم قانون فطرت کےعین مطابق تھا اور آج مکمل خلاف ہے۔
اللہ کرے، اس قوم سے روپےکی ہوس والی دولت چھن جائے اور ہمیں حقیقی دولت عطاء فرما۔ امارات نے اس قوم کو بھٹکا دیا ہے۔ اس قوم کی عمارت درویشی میں ہے۔
(فرخ نور)
متعلقہ تحریریں
نظریہِ پاکستان
درویش پاکستان
4 comments:
بہترین تحریر
8/16/2009 09:48:00 PMبہت بہت شکریہ جناب کا
.-= یاسر عمران´s last blog ..میرے پرائمری سکول کے دن – ہفتہ بلاگستان =-.
منیر صاحب،
9/07/2009 03:51:00 AMاس تحریر کی متعلقہ تحاریر میں مزید دو تحاریر بھی ہے، اگست 2007 میں نظریہءپاکستان ۔ جو کہ آپکے ہاں، میری پہلی تحریر تھی۔ دوسری گزشتہ سال ماہ دسمبر میں درویش پاکستان۔ براہ کرم اُنکو بھی متعلقہ تحاریر میں شامل کیجیئے تاکہ میری تحریر کے پیچھے میری سوچ کا بیک گراؤنڈ بھی پڑھنے والے کے سامنے آ سکے۔ شکریہ۔
جلدی میں دو غلطیاں ہوگئی،
9/07/2009 03:53:00 AMتحاریر بھی ہے کی بجائے ہیں ہوگا۔
ماہ دسمبر کی جگہ ماہ اگست ہوگا۔
9 نومبر پر 113واں اقبال ڈے مبارک کو سب کو
11/10/2009 02:07:00 AMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔