دو تصویریں

پہلی تصویر
چائنیز صدر امریکہ کے دورے پر ہیں



 


دوسری تصویر
امریکی صدر بش چین کے دورے پر



 

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

موبائیل اسلامک سافٹویئر

guidedways موبائیل سافٹ کے حوالے سے ایک بہترین سائٹ ہے، guidedways  پلیٹ فارم سے ان کی ٹیم نے لاجواب اسلامک سافٹ ویئر تخلیق کئے ہیں۔ یوں تو کمپیوٹر کے حوالے سے بہت کچھ یہاں موجود ہیں مگر اس سائٹ کی پہچان موبائیل سافٹویئر ہی ہیں جو ایک یوزر کو یہاں کھینچ لاتے ہیں۔
چند مشہور سافٹ کی لسٹ ۔
١۔ قرآن ورڈ فار ورڈ ۔ لفظ بہ لفظ قرآن پڑھیئے، انگریزی ترجمہ بھی ساتھ موجود ہے۔
٢۔ قرآن ریڈر ۔ پڑھیں یا سرچ کریں، عریبک، اردو، فارسی، انگلش، فرنچ اور جرمن زبانوں کے ترجمے کے ساتھ ایک بہترین اور لاجواب سافٹویئر۔
٣۔ اللہ کے ننانوے نام ۔ اللہ کے بابرکت ننانوے نام اب آپ کے موبائیل پر۔
٤۔ قرآنی دعائیں ۔ قرآن مجید میں موجود دعائیں کسی بھی وقت، کہیں بھی اب اپنے موبائیل پر پڑھیئے۔
٥۔ انگلش ٹو عریبک ڈکشنری۔
٦۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں۔
٧۔ نماز کے اوقات کا ٹائم ٹیبل، اذان کے الارم کے ساتھ۔
٨۔ قبلہ کا رخ معلوم کریں۔
٩۔ حلال کھانا ۔ اب آپ کہیں بھی ہوں اعتماد سے کھانا کھا سکتے ہیں، حلال و حرام کھانوں کی ایک لمبی لسٹ گائیڈ۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

سقوط ڈھاکہ اور ایمرجنسی

روزنامہ جنگ کی خبر کے مطابق صدر پرویز مشرف نے 16 دسمبر کو ایمرجنسی اٹھانے کا جو اعلان کیا ہے، اس تاریخ کی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بڑی اہمیت ہے، اس تاریخ کو بنگلہ دیش بنا تھا۔


یاد رہے کہ ایمرجنسی کے تحت ملٹری آپریشن کے نتیجہ میں بنگالیوں میں بہت بے چینی پھیل گئی تھی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تھا جس کا انجام مشرقی پاکستان کی علحیدگی کی صورت میں 16 دسمبر کو ہی سامنے آیا تھا۔ اس تاریخ کو سقوط ڈھاکہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

سیاسی کارٹون

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

بہادر کبھی زمین پر نہیں ہوتے

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

روٹی کھاتی مورتیاں۔۔۔سفرنامہ لاہور

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

میرا کیا قصور تھا



کالم ۔ جاوید چوہدری


مکمل تحریر اور تبصرے >>>

سویلین صدراور فوجی سربراہ

پاکستان میں برسراقتدار رہنے والے ماضی کے سویلین چیف ایگزیکٹوز کے ساتھ مختلف وجوہ کے باعث اکثر فوجی سربراہوں کے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے خیال میں بھی شاید یہی حقیقت تھی کہ انہوں نے 15نومبر کو پاکستان میں آرمی چیف کا انتہائی طاقتور عہدہ چھوڑنے کے حوالے سے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو وائس چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے کے لئے نامزد کیا۔ چونکہ وہ صدارتی انتخاب اور وردی اتارنے کے بعد پاکستان کے سویلین سربراہ بن جائیں گے اور انہیں نئے آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کے ساتھ کام کرنا پڑے گا۔ ماضی میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب نے جنرل موسیٰ خان کو آرمی چیف بنایا تھا اور انہوں نے بھی پیشہ ور فوجی کی طرح خدمات انجام دیں اور نارمل انداز میں ریٹائر ہوئے ، پاکستان کے ٹوٹنے کا عمل آرمی چیف جنرل یحیٰی خان کے دور میں ہوا اور وہ اپنے دورانیہ مکمل نہ کر سکے۔مجموعی طور پر جب ملک کے وزراء اعظم کئی سینئر جرنیلوں کو سپرسیڈ کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ آرمی چیفس کو نامزد کیا۔ جنہوں نے انہیں ہی برطرف کردیا۔ وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے جب جنرل مجید ملک (جو اب مسلم لیگ کے اہم رہنما ہیں) سمیت سینئر جرنیلوں کو نظرانداز کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف کے عہدے پر نامزد کیا تو ان کے ذہن میں ضیاء کی انکساری تھی۔ ذوالفقارعلی بھٹو کا یہ خیال تھاکہ ضیاء الحق میں نہ اتنی جرآت اور صلاحیت ہے کہ انہیں اقتدار سے ہٹاسکیں۔ تاہم اپنی تعیناتی کے کم و بیش ایک سال بعد 5جولائی 1977ء کوجنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو معزول کرکے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ یہ ہی نہیں بلکہ بعد میں زیڈ اے بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ صدر جنرل ضیاء الحق کے 17اگست 1988ء کو فضائی حادثے میں مارے جانے کے بعد اس وقت کے قائم مقام صدر غلام اسحق خان نے سب سے سینئر اور وائس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ کو آرمی چیف مقرر کیا۔ اس سے قبل کہ جنرل مرزا اسلم بیگ 1991ء میں وزیراعظم نواز شریف کے اقتدار کا خاتمہ کرتے ان کی مداخلت روکنے کے لئے جنرل آصف نواز کو آرمی چیف نامزد کر دیا گیا۔ اس طرح مرزا اسلم بیگ کو ”لیم ڈیک“ بنانے کے لئے جنرل آصف نواز کو کچھ ماہ قبل ہی آرمی چیف مقرر کر دیا گیا۔ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے بھی غلام اسحق خان پر نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے لئے دباؤ ڈالا تھا۔ جنرل آصف نواز نے بھی نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی تاہم جنوری 1993ء میں ان کے اچانک انتقال کے بعد وہ اپنی مہم میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس واقعہ کے تین ماہ بعد صدر غلام اسحق خان نے نواز شریف حکومت ختم اور قومی اسمبلی برخواست کر دی جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے بحال کر دیا۔ جنرل آصف نواز کے بعد غلام اسحق خان نے جنرل عبدالوحید کاکڑ کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کر دیا۔ حالانکہ اس وقت سب سے زیادہ سینئر جنرل فرخ کو نظرانداز کر دیا گیا۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ نے اگرچہ حکومت کے خاتمہ کی کوئی کوشش تو نہیں کی لیکن جب غلام اسحق خان اور نواز شریف میں مخاصمت پیدا ہوئی تو اس نے دونوں میں ڈیل کرائی جو ناکام ہوگئی۔ اس طرح صدر اور وزیراعظم کو اپنے اپنے عہدوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ اس واقعہ نے بے نظیر بھٹو کے لئے دوبارہ وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کی۔ 1993ء کے انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو کو فوجی ہیلی کاپٹر میں ”جنرل ہیڈ کوارٹرز“ لایا گیا جہاں ان سے ”ڈیل“ ہوئی۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ کے بعد سینئر موسٹ جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف کے عہدے پر تعینات ہوئے۔ تاہم اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے انہیں نیشنل سیکیورٹی کونسل قائم کرنے کے حوالے سے ایک بیان پر استعفیٰ دینے کو کہا۔ بعد ازاں 6 اکتوبر1998ء میں نواز شریف نے سپرسیڈ کرتے ہوئے پرویز مشرف کو آرمی چیف مقرر کیا۔ اس تقری کے بعد نواز شریف کا یہ خیال تھا کہ وہ اب امن و سکون سے حکومت کریں گے تاہم ان کا خیال غلط ثابت ہوا اور جنرل پرویز مشرف نے ایک سال بعد قومی اسمبلی برخواست اور نواز شریف کی حکومت ختم کردی۔ بعد میں نواز شریف اپنے ہی چنے ہوئے آرمی چیف کی طرف سے سزا سے بچنے کے لئے سعودی عرب جلا وطن ہوگئے۔ 70ء کی دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹو نے مشکوک انداز میں جنرل گل حسن کو ہٹاکر جنرل ٹکا خان کو آرمی چیف تعینات کر دیا۔


بشکریہ روزنامہ جنگ

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

الودع جنرل مشرف


 آخر کار جنرل پرویز مشرف نے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑدیا اور پاکستان فوج کی کمان ایک گھنٹے سے بھی کم جاری رہنے والی تقریب میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کر دی۔
تقریب میں سرکاری میڈیا کو ہی بلایا گیا اور ریاستی ٹی وی چینل پر یہ تقریب براہ راست دکھائی گئی جس میں جنرل کیانی کے چہرے پر مسکراہٹ جبکہ جنرل پرویز مشرف بجھے بجھے سے نظر آئے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جہاں جنرل پرویز مشرف کے لہجے میں بھاری پن تھا وہیں دوران تقریر وہ کئی بار الفاظ کی ادائیگی میں اٹکتے رہے جبکہ ان کی نسبت جنرل کیانی کافی پراعتماد نظر آئے۔
فوجی کمان کی تبدیلی کی اس تقریب سے جب جنرل پرویز مشرف نے خطاب کیا تو باقی باتوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے فوج سے کہا کہ ’جب بھی ملکی ترقی میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو تو فوج کو اُسے ٹھوکر مارتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے‘۔
جب آرمی چیف کے کمان کی علامت، تقریبا ڈھائی فٹ لمبی بانس کی چھڑی میز پر رکھی گئی تو جنرل مشرف دوسری طرف دیکھ رہے تھے اور جنرل کیانی نے انہیں اشارہ کرتے ہوئے میز کی طرف چلنے کی درخواست کی۔
میز پر موجود ایک فریم یا سٹینڈ پر رکھی اس چھڑی کو ایک سرے سے جنرل پرویز مشرف اور دوسری طرف سے جنرل کیانی نے اٹھایا۔ جنرل کیانی والے سرے سے تو وہ چھڑی نکل آئی لیکن جنرل پرویز مشرف کی جانب سے پھنسی رہ گئی اور جنرل کیانی نے چھڑی نکالنے میں ان کی مدد کی۔
جب بینڈ باجے بج چکے اور سلامی والے دستے واپس جانے لگے تو جنرل مشرف انہیں دیر تک مڑ کر دیکھتے رہے اور آخر میں جنرل کیانی نے انہیں چلنے کا اشارہ کیا اور ایسا لگا کہ وہ انہیں کہہ رہے ہوں کہ ’اب چلیے سر جی‘۔
جنرل پرویز مشرف نے جاتے ہوئے جہاں سے بھی گزرے تقریب میں موجود فوجیوں اور خواتین سمیت کئی سویلین شخصیات کو بھی سلیوٹ کرتے گئے۔
جب تقریب ختم ہوئی تو اچانک ذہن کی سکرین پر خیال آیا کہ بس! یہی آرمی چیف کے کمان کی تبدیلی تھی کہ محض ایک ڈھائی فٹ لمبی بانس کی چھڑی حوالے کرنی تھی۔ جس کے لیے اپوزیشن والے برسوں سے شور مچا رہے تھے!۔
اعجاز مہر، بی بی سی اردو


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صدر جنرل پرویز مشرف کا یہ کہنا کہ وہ ایک مضبوط ترین فوج چھوڑ کر جا رہے ہیں ان کے لیئے ضروری تھا۔ اگر وہ یہ کہہ کر جاتے کہ وہ کمزور فوج چھوڑ کر جارہے ہیں تو یہ شاید مناسب نہ ہوتا۔
لیکن حقائق اس سے مختلف ہیں۔ فوج کو اس وقت مختلف اقسام کے چیلنجز درپیش ہیں۔ پرویز مشرف کے دورِ قیادت میں ان کی آخری وقت تک کوشش تھی کہ صدر اور چیف آف آرمی سٹاف کے دونوں عہدے اپنے پاس رکھیں۔ اس وجہ سے وہ فوج پر پوری توجہ نہیں دے سکے۔ اس سے بھی فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر منفی اثر پڑا۔
وہ بھی ایک ایسے وقت جب اتنی بڑی فوج اور اس کو اتنے ہی بڑے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا بھی تھا۔ ایسے میں قیادت چاہے کتنی ہی اعلیٰ درجے کی کیوں نہ ہو جب اس کی توجہ بٹی ہو اور اس کا زیادہ وقت اور توجہ کا مرکز سیاست ہو تو پھر کوئی کیسے توقع رکھ سکتا ہے کہ اس فوج کا مورال بہتر ہوگا۔
فوج کے سربراہ سیاست میں تقریباً آٹھ سال ملوث رہے جس سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں بلکہ منفی نتائج حاصل ہوئے اور فوج کا وقار اور فوج کو جو لوگوں سے حمایت ملنی چاہیے تھی وہ حاصل نہ ہو سکی، بلکہ جتنی ہونی چاہیے تھی اس میں ایک قسم کی کمی ہی آئی۔
ملک میں فوج کا سربراہ بیک وقت عسکری اور سیاسی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہو یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ جنرل ضیا الحق تو مشرف سے بھی زیادہ مدت تک دونوں عہدوں پر فائز رہے۔ اس وقت بھی عوام میں فوج کی مقبولیت میں کمی آئی تھی لیکن اس مربتہ کچھ زیادہ ہوا ہے۔ یہ اس لیے ہوا کہ ماضی میں فوج اس حد تک حکومت میں ملوث نہیں تھی کہ جس حد تک اس دور میں رہی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے اس وقت بین الاقوامی لحاظ سے اور خاص طور سے امریکہ کی فرنٹ لائن سٹیٹ ہونے کی وجہ سے پاکستانی فوج کو چیلنجز یا مشکلات کا سامنا تھا۔
ایک اور وجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج کی جو اصل ساری تربیت تھی وہ ایک روایتی جنگ کے لیے تھی جس میں بھارت اس کا حریف تھا۔ اسی پر تمام تربیت، کارروائیاں اور منصوبہ بندی وغیرہ ہمیشہ سے روایتی طور سے رہی ہے۔ لیکن اب مغربی سرحد پر خود اندرونی طور سے جو مزاحمت کا سامنا ہے وہ فوج کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل مشرف نے امریکہ اور دیگر ممالک سے جنگی آلات و تربیت وغیرہ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ ناکافی تھے۔ فوج کو اس طرز کی گوریلا وارفیئر یا کاؤنٹر انسرجنسی آپریشنز میں مہارت حاصل کرنے میں وقت لگے گا۔ لیکن پھر بھی کافی کچھ انہوں نے اس عرصے میں سیکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اپنی صلاحیت کو بہتر کیا جائے۔
نئے فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اب بڑے پیمانے پر اپنی پالیسی اور حکمت علمی میں تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔ ایک بالکل عام سی بات ہے جس کا سب کو علم ہے کہ دنیا میں کوئی فوج اپنے لوگوں کے خلاف جنگ کبھی جیت ہی نہیں سکتی چاہے وہ کتنی بھی بہترین فوج کیوں نہ ہو۔
دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی میں یہ ضرورت ہے کہ ہم بلوچستان میں بھی فوج کو لگائیں اور اپنے ہی لوگوں سے لڑائی کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر جگہ چاہے وہ سوات ہو یا قبائلی علاقے ہی کیوں نہ ہوں فوج کو صرف اسی وقت استعمال کریں جبکہ ہم سمجھیں کہ سیاسی اور دوسرا لائحہ عمل ہے وہ بالکل ناکام ہو گیا ہے۔ یہ بڑا ضروری ہے۔
اپنے لوگوں کے خلاف فوج کو آخری حربے کے طور پر انتہائی محدود انداز میں استعمال کرنا چاہیے۔۔۔۔ کیونکہ کولیٹرل ڈیمیج بہت زیادہ ہوتا ہے اور کوئی آپ قابض فورس نہیں ہیں، تو آپ اس طریقے سے فوج کو نہیں استعمال کر سکتے جس طریقے سے امریکہ یا نیٹو فورسز افغانستان میں یا عراق وغیرہ میں استعمال ہو رہی ہیں۔
جنرل کیانی کی سنجیدگی سے یہ کوشش ہوگی کہ وہ فوج کو سیاست میں ملوث نہ کریں اور جہاں تک ہو سکے اپنے پیشے ہی میں وہ زیادہ تر اس کو توجہ دیں، اور اسی کی بہتری میں مصروف رہیں۔ جنرل کیانی ایک مدبر اور ایک پیشہ ور صلاحیت کے مالک سپاہی ہیں۔ ان کا کافی وقار ہے فوج میں۔ لوگوں کا ان کے بارے میں اچھا خیال ہے۔ ان کی طبیعت پچھلے لیڈروں سے ذرا مختلف ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ زیادہ تر توجہ اپنے پیشے کی طرف دیں گے اور یہ کوشش کریں گے کہ فوج کو سیاست سے دور رکھیں۔
لیکن خیر اگر حالات بہت خراب، خدا نہ کرے، ہوئے تو پھر شاید فوج کو لانا پڑے لیکن میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ ضرور سیاستدانوں کو موقع دیں گے کہ وہ ملک کو چلائیں اور یہ جو سیاسی عمل انتخابات کے ذریعے شروع ہو رہا ہے، اس کو جتنی حد تک صاف و شفاف رکھا جائے یہ فوج کے حق میں بہتر ہوگا اور ملک میں انتشار ختم ہوگا۔
ماضی میں ایک خیال یہ تھا کہ فوج کے ذریعے ملک کا دفاع ہو سکتا ہے لیکن اب یہ اپنے تجربے سے اور ملک میں جس طرح کے حالات رہے ہیں، اس سے تو بالکل عیاں ہوگیا ہے کہ فوج خود اکیلی کسی صورت میں ملک کا دفاع نہیں کر سکتی جب تک کہ لوگ اس کا ساتھ نہ دیں۔ اس سلسلے میں سیاسی لائحہ عمل بڑا ضروری ہے، جمہوریت بڑی ضروری ہے، اس کو مضبوط بنیادوں پر رکھا جائے۔
نیشنل سکیورٹی کونسل کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ صدر مشرف نے بار بار کہا تھا کہ اگر نیشنل سکیورٹی کونسل کے آنے سے اب مارشل لاء کبھی نہیں لگے گا لیکن آپ نے دیکھا کہ انہوں نے خود ہی مارشل لاء یا ایمرجنسی نافذ کر دی باوجود اس کے کہ نیشنل سکیورٹی کونسل موجود تھی۔
تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو روایتی طریقے ہیں دنیا میں اور جس طریقے سے دنیا میں جمہوریت کامیاب ہوئی ہے، کوئی وجہ نہیں ہے کہ پاکستان کے لوگ جتنی جمہوریت چاہتے ہیں اس سے ان کو کیوں دور رکھا جائے۔ بجائے اس کے کہ فوج مداخلت کرے، وہ اپنی ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے سنبھالے، دوسروں کے کاموں میں ملوث ہو کر ان کا بھی کام خراب کرے اور پھر اپنا بھی ادارہ اور اپنی بھی پیشہ ورانہ صلاحیت میں کمی لائے۔
لیفٹنٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود، سابق فوجی اور دفاعی تجزیہ نگار، بی بی سی اردو


مکمل تحریر اور تبصرے >>>

اب قلم سے‘ اِزار بند ہی ڈال


قوم کی بہتری کا‘ چھوڑ خیال
فکرِ تعمیرِ ملک‘ دل سے نکال
تیرا پرچم ہے‘ تیرا دستِ سوال
بے ضمیری کا اور کیا ہو مآل؟
اب قلم سے‘ اِزار بند ہی ڈال
...............
تنگ کردے غریب پر‘ یہ زمیں
خَم ہی رکھ‘ آستانِ زر پہ جبیں
عیب کا دَور ہے‘ ہنر کا نہیں
آج حسنِ کمال‘ کو ہے زوال
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال
...............
لاکھ ہونٹوں پہ دَم ہمارا ہو
اور دِل‘ صُبح کا سِتارا ہو
سامنے‘ موت کا نظارا ہو
لکھ یہی‘ ٹھیک ہے مریض کا حال
اب قلم سے اِزار بند ہی ڈال


 


حبیب جالب


مکمل تحریر اور تبصرے >>>

حبیب جالب

ایوب خان کے زمانے میں حبیب جالب نے اپنی ایک سیاسی پارٹی بنائی۔ اس کا نام یاد نہیں رہا۔ جب ان سے ممبر سازی پر سوال کیا جاتا یا دفتر کا پتہ پوچھا جاتا تو اس کا جواب وہ یہ دیتے …نہ دفتر نہ بندہ، نہ پرچی نہ چندہ ۔ اسی دور میں الیکشن آیا تو حبیب جالب صوبائی اسمبلی کے امیدوار بن گئے۔ سب جانتے تھے کہ ووٹ کیسے لیے جاتے ہیں؟ ووٹروں کے بغیر امیدوار بننے کا سبب پوچھا گیا تو جالب کا جواب تھا ”مجھے معلوم ہے کہ ووٹ نہیں ملیں گے لیکن ووٹروں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا موقع تو مل جائے گا“۔ جالب نے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی مہم چلائی تو علاقے کے ایک بدمعاش نے ان کے خلاف ارادئہ قتل کا پرچہ درج کرا دیا۔ یار لوگ بہت خوش تھے کہ حبیب جالب نے بھی کسی پر قاتلانہ حملہ کیا۔ جلد ہی یہ خوشی مایوسی میں بدل گئی۔ جب پتہ چلا کہ بدمعاش نے خود ہی اپنے آپ کو چاقو سے زخم لگایا اور قاتلانہ حملے کا الزام حبیب جالب پر لگا دیا۔ جالب الیکشن میں تو کامیاب کیا ہوتے؟ اپنے خلاف قتل کا پرچہ کرانے میں کامیاب ہو گئے۔
نذیر ناجی کے کالم سوری! جج صاحب سے



.............


 



اب تو خیر اچھے خاصے ”مرد“ بھی حکمرانوں کے اشارہ اَبرو پر رقص کرتے نہیں شرماتے اور کئی تو ایسے ہیں کہ کئی حکومتیں گزر گئیں ان کا پیشہ نہیں بدلا لیکن ایک وقت تھا کہ عورتیں اور وہ بھی ڈانسر‘ جنہیں ہمارے ہاں بڑی تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے‘ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود حکمرانوں کی محفلوں میں ناچنے سے انکار کردیتی تھیں۔ ایوب خان کا اقتدار عروج پر تھا‘ شاید شاہ ایران کو خوش کرنے کیلئے محفل سجائی گئی۔ اس وقت کی نامور ایکٹریس اور ڈانسر نیلو کو بلایا گیا اس نے انکار کردیا جس پر اسے گرفتار کرلیا گیا حبیب جالب نے لکھا


تو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

چار مصرعے تھے جو بعد میں فلم ”زرقا“ کا ٹائٹل سانگ بنے‘ گانا مہدی حسن نے گایا۔ فلم نے بزنس کے ریکارڈ توڑ دیئے۔ ریاض شاہد جن کی نیلو سے شادی ہوچکی تھی فلم کے ہدایتکار تھے۔ اس شادی کا ایک نشان آج کا ہیرو شان ہے جو ایک تقریب میں جنرل پرویزمشرف کے سامنے اس طرح رقص کررہا تھا کہ اس کی والدہ بھی کیا کرتی ہوں گی....؟
ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ایک ایسی ہی محفل لاڑکانہ میں سجائی۔ اس وقت کی خوبرو ترین اداکارہ ممتاز کی طلبی ہوئی‘ انکار پر تھانے لے جانے کی دھمکی دی گئی‘ جالب نے جو بھٹو کا معروف عاشق تھا لکھا


قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا

لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو

اطہر مسعود کے کالم صحافی یا بھانڈ سے

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

خواب ادھورے سہی خواب سہارے تو ہیں

ظلم کے دوزخوں سے بھی پُھکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ہوا کے علم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے نہیں
خواب تو حرف ہیں
خواب تو نُور ہیں
خواب سُقراط ہیں
خواب منصور ہیں

 


خواب ادھورے سہی
خواب سہارے تو ہیں
خواب میری راہیں روکتیں ہیں
یادیں تیری دامن کھینچتی ہیں
بھول چکے جو ہیں یاد آتے تو ہیں
خواب ادھورے سہی خواب سہارے تو ہیں
صدیوں کے فاصلے آج ہیں درمیاں
آپ جہاں بھی رہیں
آپ ہمارے تو ہیں
خواب ادھورے سہی خواب سہارے تو ہیں
جانے پھر کب ملیں تیرے میرے راستے
آس ٹوٹے نہیں یاد اتنا رہے
رات ڈھلتی تو ہے
آگے اجالے تو ہیں
خواب ادھورے سہی خواب سہارے تو ہیں
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

اس قوم کے مجرم ہو تم

 اس قوم کے مجرم ہو گناہ گار بھی تم ہو
تاریخ بتائے گی خطا کار بھی تم ہو


 


جو اپنے جوانوں کا بدن کاٹ رہی ہے
وہ آج کے فرعون کی تلوار بھی تم ہو

 


تم روکنے والے ہو سحر میرے وطن کی
تم شب کے محافظ ہو سیاہ کار بھی تم ہو

 


مٹی میں میری قوم کی عظمت کو ملا کے
مجرم ہی نہیں قوم کے غدار بھی تم ہو

 


آئین کو توڑا ہے اصولوں کو مٹایا
ہے شرم مجھے فوج کے سالار بھی تم ہو

 


تم توڑتے رہتے ہو حلف خود ہی اٹھا کے
اور خود کو سمجھتے ہو کہ عیار بھی تم ہو

 


تم کربلا میں ہو وقت کے شمر کے ساتھی
پر شامِ غریباں میں عزادار بھی تم ہو

 


شداد کے تم ساتھ ہو ، فرعون کے ھمدم
اس دور میں ظالم کے طرفدار بھی تم ہو

 


ہر قاتل و قزاق کو خود ساتھ ملا کے
اب تختہِ صدارت کے طلبگار بھی تم ہو

 


ہے ساتھ میں اس قوم کا ہر ایک لٹیرا
بدنام بہت فوج کے سالار بھی تم ہو

 


 


نوٹ ۔ یہاں فوج سے مراد، مشرف اور اس کے ہمنوا ہیں نہ کہ پاک فوج کے جرآت مند، دلیر اور بہادر سپاہی۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

سرچ انجن لسٹ

مجھے سرچ انجن کی ایک لسٹ ملی ہے جس میں سرچ انجن کے لنک بھی ساتھ دیئے گئےہیں جن پر کلک کر کے آپ اپنی سائٹ کو ان کے ڈیٹا بیس میں شامل کرا کے اپنی ویب یا بلاگ کی ٹریفک میں بے پناہ اضافہ کر سکتے ہیں۔



7Search -Pay for position SE.
Acclaim Search -by ValueCom.
AOL -Lousy web search.
AllCrawl -"Why Choose, When You Can Have It All?"
All The Web -Claims alot of pages, but disappointing.
AltaVista -Also offers translation.
Amnesi -Search internet server names (DNS names). 
Ampleo -Human interactive search engine. Free.
Ask Jeeves -Uses natual language input. Mediocre.
Deja.Com -Search UseNet newsgroups. 
Deoji -Includes tools for WebTV.
Dewa
DevSearch -The web developer's SE. 
DirectHit -One of the biggies. Pretty good.
DMOZ -Open directory project
Excite -Rated as one of the best SEs.
Findit2000 -
FindWhat -Pay for position. 
Frequent Finders -Search for words in the actual URLs. 
Funkycat -International search engine with a broad index.
GenieKnows -
Google -Huge *and* accurate, a favorite. Weighs popularity.
Go -Mis-managed by Mickey Mouse & Co.
Go2Net -
GoshDarn! -Hot new search engine
HotBot -Scalable. Search a domain, eg. [.edu].
iBound -
Info Hiway
Infomak
InfoSeek -Owned by Disney. Average.
Intelliseek -Their Profusion site allows searching 1000 sites, including many on the 'invisible web'
IXQuick -Highly rated.
Jump City
Kanoodle -Pay for position SE.
Link Centre
Link Master
Links2Go -Most-referenced pages by topics; it's also personalizable.
Look Up
Lost Link/ Web Links -Great site, adds links instantly... with banners! 
Lycos -"Wolf spider" (Latin). Another SE biggie.
MSN -
NBCi -New respect for this search engine
TheNet1
Nexor Aliweb -
NorthernLight -Recommended, plus a special pay collection. 
Overture -Top pay for position SE, high commercial relevance.
Pathfinder/ Time-Warner -Time, People, Money, Fortune, etc...
Reference.Com -UseNet resources
Rocket Links -Pay for position SE.
Scrub The Web -Robot SE claims to have indexed 80 MM pages. Search.Com -CNET. Infoseek SE, own db for subjects. 
Search4Info -
Search Hound -Pay for position. Slow?
Search King -Indexes instantly. Surfers votes determine ranking. 
Snap -Advanced setting allows excluding words, eg. xxx, porn, etc..
Splat Search -
Subjex -
Super Cyber Search -Pay for position.
ToggleBot -10MM URLs. MetaSearch, Directory, Auction Search, etc..
TopClick -The Private SE. Claims to protect privacy. No cookies.
WebCrawler -Very user friendly interface. Owned by Excite.
Web Direct -
WebSearch2K -New SE, pay for position, no adult. 
WebVentureHotlist
What-U-Seek-
Where2Go -TOP 20 search engine, directory of URLs. 
WWWHunter -
Yahoo! -Leading net directory.
Zen Search -
Z Search -"The last name in searching"

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

سر پھرے طالب علم


اوپر کی تصویر کو غور سے دیکھیئے، اس میں ایک طالب علم ایک فوجی افسر کو لات رسید کر رہا ہے اور فوجی بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ تصویر بنگلہ دیش کے انگریزی روزنامے ڈیلی سٹار میں شائع ہوئی جس کے بعد پورے بنگلہ دیش کھلبلی مچ گئی۔ عوام نے اس تصویر کو اپنے جذبات کا اظہار خیال کیا اور اخبارات نے لکھا کہ دراصل یہ طالب علم آرمی چیف معین الدین احمد کی پیٹھ پر لات رسید کر رہا ہے۔
اس کے بعد کیا ہوا؟ وہی ہوا جو ایک آمر کے دور میں ہوتا ہے، پورے ملک میں اس تصویر پر پابندی لگا دی گئی، فوٹوگرافر کو گرفتار کر کے سخت تشدد کا نشانہ بنایا گیا، طالب علم کا چہرہ واضح نہ ہونے کی بنا پر شعبے میں سینکڑوں طلباء کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور ان پر سخت تشدد کیا گیا۔
یہ سب کہنے اور دیکھانے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ کیا چیف مشرف پاکستان کو بھی بنگلہ دیش بنانا چاہ رہے ہیں؟ کیا موصوف ''سب سے پہلے پاکستان'' اور اس سے پہلے میں''  کا گیت گا کر عوام میں ویسی ہی نفرت پیدا کرنا چاہتے ہیں جس طرح کی نفرت فوج کے خلاف بنگلہ دیش میں پائی جاتی ہے۔
آج عمران خان کو خراج تحسین پیش کرنے کو دل رہا ہے کہ وہ صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، جس دن طالب علم اٹھ کھڑے ہوئے اس دن یوٹرن کی آوازیں آنا شروع ہو جائیں گی، اس لئے ہمارا سیدھا سادھا مشورہ ہے کہ اب بھی وقت ہے سدھار لیں اپنے آپ کو، نظرثانی کریں اپنی پالیسیوں پر کیونکہ یہاں بھی اس طرح کے سرپھرے طالب علم بہت ہے۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

جرنیل مشاعرہ

ایک کُل پاکستان مشاعرے میں ایک فوجی جرنیل صدر بنا دیئے گئے۔ اُن کے رعب اور طنطنے کا کچھ ایسا عالم تھا کہ دس پندرہ منٹ تک سامعین کو کھل کر داد دینے کی ہمت نہ پڑی۔ اتفاق سے ایک شاعر نے بہت ہی اچھا شعر سنایا ۔۔۔۔ سامعین کے درمیان میں سے ایک نوجوان تڑپ کر اٹھا اور بولا
مکرر۔۔۔۔۔۔۔ارشاد فرمائیے
اس کی دیکھا دیکھی کچھ اور لوگوں نے بھی مکرر مکرر کے نعرے بلند کئے۔ صاحبِ صدر نے اسٹیج سیکرٹری سے پوچھا کہ
یہ لوگ کیا چاہا رہے ہیں؟
اسٹیج سیکرٹری نے ادب سے کہا
جناب!! یہ شاعر سے کہہ رہے ہیں کہ دوبارہ یہی شعر سناؤ
اس پر جرنیل صاحب نے اپنے سامنے رکھا مایئک اٹھایا اور یوں گویا ہوئے۔
کوئی مکرر وکرر نہیں ہوگا ۔۔ شاعر صاحب آپ کے والد کے نوکر نہیں ہیں، جس نے سننا ہے تو پہلی بار دھیان سے سنو۔

چشم تماشا، امجد اسلام امجد

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

کمزور مقابل ہو تو فولاد ہے جرنیل

اقبال اور مجید لاہوری کی روح سے معذرت کے ساتھ

 


کمزور مقابل ہو تو فولاد ہے جرنیل
امریکی ہوں سرکار تو اولاد ہے جرنیل
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
اس قسم کی ہر قید سے آزاد ہے جرنیل
جرنیل کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے عدالت
ہوں جج جو آزاد تو برباد ہے جرنیل
ہر وقت وہ پہنے ہے صدارت میں بھی وردی
بیوی بھی اتروائے تو ناشاد ہے جرنیل
درانی و افگن کہ قصوری و شجاعت
شیطان کے ان چیلوں کا استاد ہے جرنیل
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

کرکٹ کے لئے کچھ بھی کرے گا۔


 

مزید فنی پکچر، وڈیو وغیرہ کے لئے یہاں کلک کیجیئے۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

پاکستانی ٹی وی

اب آپ انٹرنیٹ پر بھی مفت میں پاکستانی اور بہت سے ٹی وی چینل دیکھ سکتے ہیں، لسٹ اور لنک نیچےموجود ہیں۔


 





























Geo News
Geo News - Audio
Geo Super
ARY One World
AAJ TV
Dawn News
TV One 1
Q TV - Islamic
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

میں نے اس سے یہ کہا

انقلابی شاعر حبیب جالب کی شاعری بھلائے جانے والی نہیں کیونکہ یہ طے ہے کہ نہ ہمارے حالات بدلیں گے اور نہ حبیب جالب کی شاعری پرانی اور بےاثر ہو گی۔
 اس کی شاعری میں ہر ظالم، جابر اور آمر حکمران کے خلاف ماتم کیا گیا ہے، اسے ایوب خان سے لیکر بے نظیر تک کے کسی حکمران کی دھمکیاں دبا سکیں نہ جیلیں اس کے ارادوں کو توڑ سکیں۔ بھیڑ بکریوں سے بھی بدتر زندگی گزارنے والی عوام کی حالت جیسے دیکھی ویسے طرح لکھ دی۔


ہم نے جو بھول کے بھی شہ کا قصیدہ نہ لکھا
شاید  آیا  اسی  خوبی  کی  بدولت  لکھنا

یا


ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

حبیب جالب کی ایک ایسی ہی نظم پیش خدمت ہے جو کل کی طرح آج بھی حالات کے عین مطابق ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے حالات آج بھی جوں کے توں موجود ہیں یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ نظم ہر آمر کے دور کی عکاس ہے۔


میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا

میں نے اس سے یہ کہا
تو خدا کا نور ہے
عقل ہے شعور ہے
قوم تیرے ساتھ ہے
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
ہے مہرِ صبح نو
تیرے بعد رات ہے
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شرپسند ہیں
ان کا گھونٹ دے گلا

میں نے اس سے یہ کہا
جن کو تھا زباں پہ ناز
چُپ ہیں وہ زباں دراز
چین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لوگ تیرے راج میں
آدمی ہے وہ بڑا
در پہ جو رہے پڑا
جو پناہ مانگ لے
اُس کی بخش دے خطا

میں نے اس سے یہ کہا
ہر وزیر ہر سفیر
بے نظیر ہے مشیر
واہ کیا جواب ہے
تیرے ذہن کی قسم
خوب انتخاب ہے
جاگتی ہے افسری
قوم محوِ خواب ہے
یہ ترا وزیر خاں
دے رہا ہے جو بیاں
پڑھ کے ان کو ہر کوئی
کہہ رہا ہے مرحبا

میں نے اس سے یہ کہا
چین اپنا یار ہے
اس پہ جاں نثار ہے
پر وہاں ہے جو نظام
اس طرف نہ جائیو
اس کو دور سے سلام
دس کروڑ یہ گدھے
جن کا نام ہے عوام
کیا بنیں گے حکمراں
تُو ‘یقین‘ ہے یہ ‘گماں‘
اپنی تو دعا ہے یہ
صدر تو رہے سدا
میں نے اس سے یہ کہا
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

انتخابی شیڈول

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے انتخابی شیڈول جاری کر دیا گیا ہے، جس پر سیاسی جماعتوں نے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن سے پہلے عدلیہ پر وار کر کے اور جلد از جلد الیکشن کرا کے حکومت اپنی مرضی کے نتائج چاہتی ہے۔ اپوزیشن کے لئے یہ وقت بیان بازی کا نہیں بلکہ عملی جدوجہد کا ہے، اپوزیشن نے جو بھی لائحہ عمل اپنانا ہے اس کا متفقہ فیصلہ جلد از جلد کرے کہ انتخابی عمل کا حصہ بن کر صدر پرویز کے ہاتھ مضبوط کرنا یا انتخابی عمل کا بائیکاٹ۔


انتخابی شیڈول کا مطالعہ کرتے ہوئے روزنامہ جنگ میں واشنگٹن پوسٹ کے حوالے سے چھپنے والی یہ خبر بھی پڑھتے جائیے '' سیاسی بحران کے خاتمے کے لئے جنرل پرویز کی ریٹائرمنٹ ناگریز ہے، انتخابی اہلیت کے فیصلے نے واضح کر دیا ہے کہ فیصلہ دینے والے ججوں کا انتخاب صدر پرویز نے خود کیا تھا۔''


انتخابی شیڈول














































نمبر شمار تفصیلات تاریخ
کاغذات نامزدگی جمع کرانیکی آخری تاریخ 26 نومبر07ٗء
کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال

27 نومبر سے 


23 دسمبر تک


کاغذات نامزدگی منظورؕؕ/مسترد ہونے کیخلاف اپیل دائر کرنیکی کی آخری تاریخ 7 دسمبر07ٗء
اپیلوں پر فیصلہ کرنے کی آخری تاریخ 14دسمبر
کاغذات نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ 15 دسمبر
حتمی فہرست کی اشاعت 16 دسمبر
پولنگ 08 جنوری 2008ء

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

پہلے کبھی انسان ہوا کرتا تھا میں بھی


کب طاری ہوئی مجھ پہ یہ شب بھول گیا ہوں
ہوتے تھے سویروں کے جو ڈھب بھول گیا ہوں
پہلے کبھی انسان ہوا کرتا تھا میں بھی
اس جبر نے کیا کر دیا اب بھول گیا ہوں
اب میرا کوئی طرز تکلم ہی نہیں ہے
میں بزم کا تہذیب و ادب بھول گیا ہوں
شاعر نے کہا بول لب آزاد ہیں تیرے
اک میں ہوں کہ ہر جنبش لب بھول گیا ہوں
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی آزادی کا سورج
کب ڈوبا تھا یہ بات میں اب بھول گیا ہوں
میری بھی سنا کرتا تھا فریاد کبھی وہ
میرا بھی کبھی ہوتا تھا رب بھول گیا ہوں
آزادی غلامی سے ملی جب سے ہے مجھ کو
آقاؤں کا ہر قہر و غضب بھول گیا ہوں
اک چھیڑ، کوئی شوخی، ذرا لطف و شرارت
دہشت میں میری جان ، میں سب بھول گیا ہوں
ماضی کا کوئی خواب نہ آئندہ کی امید
کب یاد تھا کچھ مجھ کو؟ میں کب بھول گیا ہوں؟



مزید شعر ایک اور کیفیت میں ہوئے۔ پیش ہیں:



میرے اسلاف کی پہچان ذرا رُک جاؤ
جانے والی ہے میری جان ذرا رُک جاؤ
میری مٹھی میں رکی پیاری ریت کے پیارے نقشے
یوں بکھرنا نہ میری جان ذرا رک جاؤ
عمر بھر میں نے چکائے ہیں تیرے سارے حساب
رہ گیا تھوڑا سا بھگتان ذرا رک جاؤ
میں نے دلہن کی طرح تجھ کو سجے دیکھا ہے
دیکھ لوں اور تیری شان ذرا رک جاؤ
مانگ میں تیری لہو میرا بھرا رہتا تھا
تجھ پہ میں اب بھی ہوں قربان ذرا رک جاؤ
آج میں تجھ کو دکھا سکتا نہیں منہ اپنا
اب نہیں مجھ میں کوئی مان ذرا رک جاؤ
اک وطن اور وطن، پھر سے بچا باقی وطن
کھو نہ بیٹھوں کہیں اوسان ذرا رک جاؤ
میری آنکھوں میں امیدوں کی چمک باقی ہے
چھوڑنا مجھے مت حیران ذرا رک جاؤ
جتنے بھی دوست تھے وہ سارے ہی دشمن نکلے
ڈگمگانے لگا ایمان ذرا رک جاؤ
مجھ سے پہلے نہ مجھے چھوڑ کے جانا پیارے
پہلے ہے میرا ہی امکان ذرا رک جاؤ


کلام ۔ نذیر ناجی ۔ کالم نگار روزنامہ جنگ

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

ایمرجنسی کا حکم نامہ

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

اب لش پش وردی اترے گی اب کھال اتاری جائے گی

غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر مشرف نے کہا ہے کہ پاکستان میں بہتری کیلئے غیر معمولی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ حلف اٹھانے سے قبل وردی اتاردوں گا۔ صدرمشرف کا کہنا تھا کہ لوگوں کی بڑی تعداد مجھے وردی میں دیکھنا چاہتی ہے اور وہ مجھے وردی اتارنے سے روک رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں جو کچھ کررہا ہوں وہ کسی کے دباؤ میں نہیں بلکہ جو کچھ پاکستان کی مفاد میں ہے وہ کررہا ہوں۔ صدرمشرف نے کہا کہ بینظیر اپنا موقف بدلتی رہتی ہیں، وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا ناچاہتی ہیں۔ صدرمشرف نے مزید کہا کہ انتخابات کے بعد دہشت گردی سے لڑنے کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ صدرمشرف نے کہا صدر بش پاکستان کے دوست ہیں اور اچھے ساتھی ہیں ، ان کو حالات کا ادارک ہے ،وہ معاملات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں جبکہ میڈیا حقائق کو مسخ کرکے پیش کررہا ہے۔



صدر مشرف کے اس انٹرویو میں بہت سی باتیں جواب طلب ہیں۔
١۔ حلف اٹھانے سے قبل وردی اتاردوں گا۔


خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

٢۔ لوگوں کی بڑی تعداد مجھے وردی میں دیکھنا چاہتی ہے اور وہ مجھے وردی اتارنے سے روک رہی ہے۔




یہ کون لوگ ہیں اور کہاں کے رہنے والے میں، پاکستان میں تو ہمیں ایسا کوئی نظر نہیں آتا کیونکہ تمام پاکستانیوں کے لبوں پر اشرف قریشی کے یہ اشعار ہیں۔

جب خلق خدا کے ہاتھوں سے اک حشر بپا ہو جائیگا
جمہور کے رستے زخموں سے اب فال نکالی جائے گی
تب تخت اچھالے جاتے تھے تب تاج گرائے جاتے تھے
اب لش پش وردی اترے گی اب کھال اتاری جائے گی


٣۔ بینظیر اپنا موقف بدلتی رہتی ہیں۔


کبھی غصہ، کبھی نفرت تو کبھی پیار ۔۔۔ تیرا ہر رنگ نرالا

٤۔ انتخابات کے بعد دہشت گردی سے لڑنے کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔


جب من پسند حکومت قائم ہو گی تو اتفاق رائے نامی چیز خودبخود وجود میں آ جائے گی ۔۔۔ لوٹا ازم زندہ باد

٥۔ صدر بش پاکستان کے دوست ہیں اور اچھے ساتھی ہیں۔



اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
کرتے ہیں قتل ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

“اے ایمان والو یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں جو شخص ان میں سے کسی کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہو گا بے شک خدا ظالم لوگوں کی ہدایت نہیں دیتا“  سورہ مائدہ، آیت ٥١

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

ہمیں جینا ہے

کتنی لمبی ہو سیہ رات ۔۔۔۔ ہمیں جینا ہے
کتنے سنگین ہوں حالات ۔۔۔۔ ہمیں جینا ہے
ہم تو کہتے تھے زمانے سے جیو، جینے دو
تلخ ہو کتنے ہی اوقات ۔۔۔۔ ہمیں جینے دو
سارے ذہنوں میں یہی سوچ، جئیں ہمت سے
سارے ہونٹوں پہ یہی بات ۔۔۔۔ ہمیں جینا ہے
تندئ باد مخالف سے نہ گھبرائیں گے
ہاتھ میں ہاتھ، رہیں ساتھ، ہمیں جینا ہے
رب کعبہ کی قسم، ظلم سے ٹکرائیں گے ہم
اوج پر سب کے ہیں جذبات ۔۔۔۔ ہمیں جینا ہے
باخبر شہر ہو، آتے ہوئے طوفانوں سے
ٹالتے جائیں گے خطرات ۔۔۔۔ ہمیں جینا ہے
چند چہروں کا نہیں، ملک ہے سب لوگوں کا
جان لیں سب یہ کھلی بات ۔۔۔۔ ہمیں جینا ہے

جیو اور جینے دو



محمود شام ۔ روزنامہ جنگ

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

نئے کپڑے

ایک طرف ہوشربا مہنگائی اور اوپر سے شادیاں، ہمارا تو کباڑا ہوا جا رہا ہے۔ پانچ، پانچ دن کے وقفے سے ہمارے چار کزنوں کی شادیاں ہیں، جس کی وجہ سے کئی روز سے بیوی اور بچوں نے برابر تنگ کیا ہوا ہے کہ نئے کپڑے چاہیں اور ہم بھی برابر انہیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نئے کپڑوں کے لئے نئے نوٹ درکار ہوتے ہیں جو کہ آجکل ہم سے روٹھے ہوئے ہیں۔
ہمارے وہ قارئین جو بچپن کی سرحد عبور کر چکے ہیں نئے کپڑوں کے ساتھ کرنسی نوٹوں کے ازلی اور ابدی رشتے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں سو نئے کپڑوں کے لئے بچوں کی فرمائش اور نوٹوں کی نایابی سے پیدا ہونی والی صوتحال سے قطع نظر یہاں ہم بالغ قارئین کی معلومات میں اضافہ کر دیں کہ کرنسی نوٹ اگر حد سے زیادہ فاضل مقدار میں میسر ہوں تو نیا لباس خریدنے کی بجائے انہی نوٹوں کو آپس میں سی کر نیا لباس بنایا جا سکتا ہے ۔۔۔ انتہائی قیمتی کاغذ یعنی کرنسی نوٹوں کے بنے ہوئے ایسے ہی ایک قیمتی کاغذی لباس کی نمائش لندن میں کی گئی ہے یہ لباس جسے نمائش میں ایک ماڈل نے زیب تن کیا ہے، جسے ایک ہزار پاؤنڈ کے نوٹوں سے تیار کیا گیا ہے۔ کرنسی نوٹوں سے بنے اس لباس کو پہنے کے بعد ماڈل جس آن بان سے سٹیج پر نمودار ہوئی ہو گی اس کا کوئی جواب نہیں، ایک قامت زیبا اور اس پہ نئے کڑکتے نوٹوں کی قبا! ۔۔۔ دیکھنے والے یقیناََ چند لمحے منہ انگلیاں ڈالے بت بن گئے ہوں گے۔
نمائش کے روز یقیناََ لندن اسٹاک ایکسچینج میں تیزی ضرور واقع ہوئی ہو گی، ویسے بھی وہاں کی سماجی قدروں کا بیشتر انحصار کرنسی پر ہے۔ کرنسی نوٹ جو ہمیں نئے کپڑے خریدنے کے لئے میسر نہیں، اب مغرب والوں کا پہناوا بن چکے ہیں۔ بات تعصب کی نہیں کیونکہ مغرب مغرب ہے اور مشرق مشرق۔ یہاں تو یہ عالم کہ بعض لوگوں کو پہنے کے لئے بھی کچھ نہیں ملتا۔ مثال میں ایک شاعر کا حال دیکھیئے، فرماتے ہیں کہ


نکلوں جب میں باہر تو برہنہ نظر آؤں
بیٹھا ہوں میں گھر میں در و دیوار پہن کر
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

تین پرویز

پیارے بچو آئیے آپ کو آج مثالی دوستی کے موضوع پر ایک دلچسپ اور سبق آموز کہانی سناتے ہیں۔

بہت سال پہلے دلی کے ایک محلے میں تین بچے ایک ہی دن پیدا ہوئے۔ایک کا نام رکھا گیا پرویز مشرف اور دوسرے کا نام اس کے والدین نے رکھا پرویز مشرف اور تیسرے بچے کا نام تھا پرویز مشرف۔ان تینوں پرویزوں اور ان کے والدین میں بڑی محبت اور حسنِ سلوک تھا۔وقت گزرتاگیا اور زمانے کا گرم و سرد انہیں کہیں سے کہیں لے گیا۔ان میں سے دو پرویز تو ملک اسلام آباد کی فوج میں بھرتی ہو گئے اور تیسرا پرویز ادھر ادھر ہوگیا۔

کرنا خدا کا یہ ہوا کہ جن پرویزوں کو فوج میں کمیشن ملا ان میں سے ایک والدین کی دعاؤں اور محنت کے طفیل ترقی کرتے کرتے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر پہنچ گیا اور دوسرے پرویز نے بھی اعلیٰ ترین جرنیل کے طور پر ترقی پائی اور اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی کی بنیاد پر جوائنٹ چیفس آف آرمی سٹاف کمیٹی کا چیئرمین بن گیا۔ایک دن جب چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف کسی ملک کے دورے سے واپس آ رہا تھا تو حاکمِ وقت نے اسے دھوکے سے مروانے کی کوشش کی۔اس موقع پر جوائنٹ چیفس کمیٹی کے چیئرمین پرویز مشرف نے دیگر جرنیلوں کے ساتھ مل کر چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف کا بے جگری سے ساتھ دیا اور دشمن حاکم کو مار بھگایا۔

پھر جیسا کہ کہانیوں میں ہوتا ہے اتفاق سے دونوں پرویزوں کو اپنا بچھڑا ہوا تیسرا جگری یار پرویز مشرف بھی مل گیا۔دونوں پرویز اس تیسرے یار کے ملنے پر جذبات سے اتنے مغلوب ہوگئے کہ اسے ملک اسلام آباد کا صدر بننے کی پیش کش کردی اور تیسرے پرویز نے یہ پیشکش بخوشی قبول کرلی۔تینوں نے پہلے سے براجمان بڈھے کھوسٹ صدر کو ڈنڈا ڈولی کرکے ٹیکسی میں بٹھایا اور ملک لاہور کی طرف روانہ کر دیا۔اور اس کی جگہ تیسرا پرویز کرسی صدارت پر متمکن ہوگیا۔اس کے بعد دونوں فوجی پرویزوں نے تیسرے پرویز کو پہلے تو صدارتی سلوٹ مارا اور پھر آنکھ ماری اور پھر تینوں تا دیر پیٹ پکڑ ے ہنستے رہے۔
ایک دن جب تینوں پرویز صدارتی محل میں بیٹھے تین پتی کھیل رہے تھے۔ اچانک ان میں سے ایک پرویز نے اعلان کیا کہ میں نوکری کرتے کرتے بور ہوچکا ہوں اس لیے اب سبکدوش ہوکر اپنے پوتوں نواسوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہوں اور مطالعے اور گولف کورس میں وقت گزارنا چاہتا ہوں۔اب تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہو۔میرے مشوروں کی جب بھی ضرورت ہو میں حاضر لیکن مجھے روکنے کی ضد نہ کرنا۔چنانچہ صدر پرویز مشرف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے بڑے بھاری دل کے ساتھ اپنے جگری یار جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کو الوداع کہا اور پھر رموزِ مملکت سلجھانے میں لگ گئے۔

ایک روز صدر پرویز مشرف نے چیف آف سٹاف پرویز سے پوچھا۔یار۔۔۔جس طرح ہیٹ سے خرگوش نکل سکتا ہے کیا اسی طرح ہیلمٹ سے کوئی سیاسی جماعت نہیں برآمد ہوسکتی۔چیف آف سٹاف نے کہا کہ نکل تو سکتی ہے لیکن آخر اس کی ضرورت کیا ہے۔صدر پرویز مشرف نے کہا کہ تو تو اکثر فوجی امور میں مصروف رہتا ہے اور میں بیٹھا بیٹھا بور ہوتا رہتا ہوں۔پارٹی ہوگی تو میری بھی کچھ مصروفیت ہوجائے گی اور ویسے بھی میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ یہ بلڈی سویلینز آخر کتنے بلڈی ہوتے ہیں۔

چنانچہ چیف آف آرمی سٹاف نے اپنے کچھ ماتحتوں کے ہمراہ ایک پارٹی تشکیل کرکےصدر کے حوالے کردی تاکہ صدر کا دل لگا رہے۔صدرِ مملکت شغل شغل میں اس پارٹی کے سویلینز سے مشورے کر کے وقت گزاری کرتے لیکن آخری مشورہ ہمیشہ اپنے جگری چیف آف آرمی سٹاف کا ہی مانتے۔

اس مثالی ہم آہنگی کےنتیجے میں انہیں بہت فائدہ ہوا۔مثلاً دونوں نےمل کر جب ملکی امور، اپنے سویلین ماتحتوں اور سویلین پارٹی پر نگاہ رکھنے کے لئے نیشنل سیکورٹی کونسل نامی ایک ادارہ تشکیل دیا تو اس کا ایجنڈہ صدر پرویز مشرف نے چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف کے ساتھ مشترکہ طور پر ہی بنایا۔اس کے سبب اس کونسل نے جتنے بھی فیصلے کئے بلا چون و چرا کئے۔کونسل کے دیگر ارکان کی مجال نہیں تھی کہ دونوں کی مشترکہ خواہش سےانحراف کرسکیں۔
تو بچو یہ ہوتی ہے اتحاد کی برکت!

دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ملک اسلام آباد کی حکومت میں ایک روانی اور استحکام آگیا۔جہاں صدر، چیف آف آرمی سٹاف اور وزیرِ اعظم نامی کوئی عہدیدار مل کر حکومتی پالیسیاں طے کرتے تھے۔
صدر مشرف کی حکومت سے پہلے اقتدار کی یہ تکون مستقل کھینچا تانی کا شکار رہتی تھی۔لیکن صدر مشرف اور جنرل مشرف نے اس تکون کو ایک استحکام بخشا جس کے سبب وزیرِ اعظم بھی سیدھا رہتا تھا اور ملک اسلام آباد کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ایک منتخب حکومت نے پانچ برس پورے کئے۔

صدر مشرف سے پہلے کے ادوار میں چیف آف آرمی سٹاف کو تین برس سے زیادہ اپنے عہدے پر رہنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔لیکن جنرل پرویز اور صدر پرویز کی یاری نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا اور جنرل پرویز مشرف نے جب بھی یاد دلایا کہ انکی چیف آف سٹاف کے عہدے کی مدت قریب الختم ہے۔صدر پرویز مشرف اپنا قلم اپنے دوست کی طرف یہ کہہ کر بڑھا دیتے۔۔۔۔یار تو خود ہی اپنی توسیع کی فائیل پر میری طرف سے دستخط کرلے۔۔۔۔۔

یہ صدر مشرف اور جنرل پرویز مشرف کی یاری کا ہی تو ثمر ہے کہ جب سپریم کورٹ نامی عدالت کے جج آپے سے باہر ہونے لگے اور انہوں نے دشمنوں کے ساتھ مل کر صدر پرویز مشرف کو چلتا کرنے کی ٹھانی تو یہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف ہی تھے جنہوں نے اپنے بچپن کی دوستی کا حق یوں نبھایا کہ صدر مشرف کے علم میں لائے بغیر ایمرجنسی لگا دی ۔سرکش ججوں کےمنہ سی دیئےاور دیگر اول فول بکنے والوں کو خاک چٹوادی۔

صدر مشرف کو اگرچہ یہ بات کچھ زیادہ نہیں بھائی کہ جنرل پرویز مشرف نے ان سے پوچھے بغیر ایمرجنسی لگا دی۔لیکن پھر یہ سوچ کر جنرل مشرف کو کچھ نہیں کہا کہ جو کام میں امریکی دباؤ میں دو ماہ پہلےنہ کرسکا وہ کام میرے وفادار دوست چیف آف سٹاف نے پلک جھپکتے میں کر ڈالا۔اگر مجھ سے پوچھ کر کرتا تو شاید میں اجازت نہ دے پاتا۔شکر ہے بات بن بھی گئی اور رہ بھی گئی۔

اور بچو ! وفاداری و دوستی کی اس کہانی میں مزید چار چاند اس طرح لگے جب چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے اپنے دوست اور باس صدر پرویز مشرف کو یہ اختیار منتقل کردیا کہ صدر اپنی مرضی سے ایمرجنسی کے اعلان میں تبدیلی کر سکتے ہیں اور اسے ختم بھی کرسکتے ہیں۔

پیارے بچو یہ بات تو عجیب و غریب نہیں ہے کہ ایک باس اپنے ماتحت کو کوئی اختیار دے دے۔لیکن دنیا کی حکومتی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کوئی ماتحت اپنے باس کو کوئی اختیار منتقل کرڈالے یا باس کے ہوتے ہوئے باس کا اختیار استعمال کرلے۔ایسے معجزے ملک اسلام آباد المعروف سب سے پہلے پاکستان میں ہی ممکن ہیں۔

بچو اگر آپ کو صدر پرویز مشرف اور جنرل پرویز مشرف کی مثالی دوستی کے بارے میں مزید مواد درکار ہے تو اس کے لیےصدر کی خودنوشت ان دی لائن آف فائر پڑھنا بہت ضروری ہے۔اس کتاب میں صدر مشرف نے اپنے دوست جنرل مشرف کے کارنامے تفصیلاً اجاگر کرتے ہوئے زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

پیارے بچو ہماری دعا ہے کہ آپ سب بھی صدر مشرف اور جنرل پرویز مشرف کی طرح ہنسی خوشی مل جل کر کھائیں پئیں، کھیلیں کودیں اور دودھوں نہائیں پوتوں پھلیں۔
آمین۔ ثم آمین۔


 




بشکریہ ۔ وسعت اللہ خان، بی بی سی اردو سروس

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

اک نظر اِدھر بھی

روشن خیال حکومت کا مکروہ چہرہ،  کہتے ہیں کہ ہزاروں لفظوں سے ایک تصویر ذہن پر بہتر نقوش چھوڑتی ہے، اس تصویر کی بھی زبان ملی ہوئی ہے، آپ اسی کی زبانی ساری سرگزشت سن لیجیئے، مجھ میں تو ہمت ہی نہیں کچھ کہنے کی۔


مکمل تحریر اور تبصرے >>>

ڈینگی بخار

سرکار کی ایمیل کے مطابق بروقت حفاظتی اقدامات سے ڈینگی بخار کو روکا جا سکتا ہے۔






ڈینگو بخار کو صرف حفاظتی امور سے روکا جا سکتا ہے اگر حفاظتی اقدامات نہ کئے جائیں تو ڈینگو بخار بچوں اور بڑوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔ڈینگو بخار مادہ مچھر ایڈس اگپتی (AEDES AEGPTI) کے انسان کو کاٹنے سے ہوتاہے یہ مچھر مطلوب آب وہوا رکھنے والے ممالک میں تیزی سے پھیلا اور اس کا دائرہ کار وسیع ہوتا گیا ۔ڈینگو وائرس چار قسم کے ہوتے ہیں جن کے پھیلنے کا ذریعہ ویکٹر (VECTOR) مچھر ہیں ۔ان میں سب سے زیادہ خطرناک اور زہر یلا (AEDES AEGPTI) ہے۔ جب یہ مچھر کاٹتاہے تو وائرس مادہ مچھر میں انفیکشن کے ساتھ زہر لے کر انسانی جسم تک رسائی کرتاہے اس سے جسم میں انسانی جسم میں قوت مڈافعت کم پڑ جاتی ہے اور دو سے سات دنوں میں بخار لازمی ہوتاہے ۔بخار سخت کپکپی کے ساتھ ہوتاہے ناک سے پانی چلتا ہے اور چھوٹے بچوں میں شد ید قسم کا بخار ہوتاہے ۔آنکھوں کے پیچھے درد ،جوڈوں میں درد ،کمزوری ،تھکن ،جسم ٹوٹنا وغیرہ لازمی امر ہیں ۔ڈینگو بخار سے خون بہنے لگے تو بے شمار مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جیسے کہ بخار کے علاوہ نمو نیا ،جگر میں سوزش اور نہایت پیچدہ حالت میں خون کی حرکت بھی رک سکتی ہے ۔ بخار سے منہ کا رنگ سر خ ہو جاتاہے اور بخار دو سے سات روز تک رہتاہے اسی حالت میں غنودگی طاری ہو جاتی ہے اور جسم سے خون رسنا شروع ہو جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ڈینگو وائرس کا مختص علاج نہیں ہے صرف حفاظتی تدابیر امور سے ہی بچا جاسکتاہے ابھی تک کسی بھی قسم کی ویکسین بھی تیار نہیں ہو سکی ۔بخار ہونے کی صورت میں فوری متعلقہ ڈاکٹر سے رابطہ کر نا چاہئے۔ ڈینگو بخار سے بچاؤ کے لئے مچھر کی افزائش کو روکا جائے ۔یہ مچھر صاف پانی پر افزائش پاتا ہے اور اسکی زیادہ تر افزائش گھروں میں ہی ہوتی ہے اس لئے پانی والی ٹینکی ،گلدان لوہے کے ڈرم اور دیگر برتن جن میں صاف پانی رہتاہے ان کو ڈھانپ کو رکھیں تا کہ مادہ مچھر انڈے نہ دیں سکے ۔ صحن اور گھر کے باہر پانی کو زیادہ دیر کھڑا رہنے نہ دیں ۔صفائی اور گند گی کو اٹھا کر ٹھکانے لگانے کے طر یقوں میں تبد یلی لائیں ۔موسم تبدیل ہوتے وقت مزید احتیاط بر تی جائے بروقت مچھر مار سپرے کیا جائے تا کہ (VECTOR) پیدا ہی نہ ہو ۔ یہ تمام حفاظتی تد بیری امور دوسرے لوگوں کو بھی بتا ئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ڈینگو وائرس اور اس سے بچاؤ کے متعلق جانیں یہی چند طر یقے ہیں جن سے ہم اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو ڈینگی بخار سے بچا سکتے ہیں ۔۔




مکمل تحریر اور تبصرے >>>

امریکہ، اسٹیبلشمنٹ، عوام اور دخترِ قائد عوام

قارئین!
غلطی ہو گئی جس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ میں نے عنوان میں امریکہ، اسٹیبلشمنٹ اور قائد عوام بھٹو کی صاحبزادی کے ساتھ فارغ اور فالتو قسم کے عوام کو خوامخواہ بریکٹ کر دیا حالانکہ چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک۔
 کہاں امریکہ جیسی عالمی سپر پاور جس نے پورے عالم کو آگے لگایا ہوا ہے۔
 کہاں ہماری اسٹیبلشمنٹ جس نے عوام کو ٹرک کی بتی پیچھے لگایا ہوا ہے۔
اور کہاں عوام کے ایک مخصوص حصہ کی دیوی، اہل مغرب کی فیورٹ داسی خود ساختہ ”دختر مشرق“ جس نے 8 سالہ محنت شاقہ کے بعد مغرب بالخصوص امریکہ کو قائل کر لیا کہ ان کے سارے مسائل کا حل اس کے پاس ہے یعنی عوام تو اس داستان کا حصہ ہی نہیں اور میں نے انہیں بلاوجہ اس کالم کے عنوان میں گھسیٹ لیا۔ یہ وہی معصوم اور مظلوم عوام ہیں جو اکثر اوقات خود اپنے خلاف ہی صف آراء ہو جاتے ہیں اور جن کی بے وقعتی کا ماتم کرتے ہوئے تنویر جلانی مرحوم نے لکھا تھا۔
گلی گلی میں ہوا میری ہار کا اعلان
یہ کون جانے کہ میں تو بساط پر ہی نہ تھا
ملکی تاریخ کے اس موڑ پر بھی عوام کہیں نہیں اور اگر ہیں تو بظاہر صرف استعمال ہونے کے لئے ۔۔۔۔ اصل تکون امریکہ، اسٹیبلشمنٹ اور محترمہ پر مشتمل ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ باقی عوامی قوتیں اور خود عوام کوئی سرپرائز دے دیں جس کے امکانات بہت کم سہی لیکن انہیں سو فیصد رول آؤٹ نہیں کیا جا سکتا۔
امریکہ اپنے ”اصل اور ہم رنگ اتحادیوں“ سمیت یہ چاہتا ہے کہ ان کی لاڈلی ”دختر مغرب“ مشرق کے ایک حساس اور اہم اسلامی ملک کی گردن پر سوار ہو کر انتہا پسندی کے خاتمہ سمیت ان کے ”باقی ایجنڈے“ پر عملدرآمد کرائے جبکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا یہ المناک تضاد اپنی جگہ کہ ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو انکار بھی نہیں کر سکتی، جزوی طور پر ان کے ایجنڈے سے بھی اتفاق رکھتی ہے (صرف جزوی طور پر) لیکن دوسری بے نظیر پر نہ پوری طرح اعتبار کر سکتی ہے نہ با اختیار کر سکتی ہے اور نہ اس قسم کا اقتدار دے سکتی ہے جس کا ”این او سی“ دختر مشرق نے برادران مغرب سے شدید اور طویل مشقت کے بعد حاصل کیا ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ عوام دوست ہو نہ ہو لیکن بہرحال پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہے جو یہ رسک قطعاً افورڈ نہیں کر سکتی کہ ”چند انچ دیتے دیتے ”کئی گز“ گنوا بیٹھے۔ اس وقت ایک نہیں ۔۔۔۔ ایک سے زیادہ سانپوں کے منہ میں چھپکلیاں پھنسی ہوئی ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں؟ کہاں رکیں؟ کس حد تک جائیں؟ اس وقت حلیفوں اور حریفوں کے درمیان دوستی اور دشمنی، غداری اور وفا داری، محبت اور نفرت، ضرورت اور خود کفالت کا اک ایسا عجیب و غریب کھیل جاری ہے کہ فریقین اور کھلاڑیوں کو خود بھی معلوم نہیں کہ اگلے لمحے انہیں کیا کرنا ہو گا۔
بے نظیر بھٹو کیلئے یہ مرحلہ NOW OR NEVER یعنی ”ابھی نہیں تو کبھی نہیں“ سے بھی آگے کا ہے۔ ان کی فرسٹریشن اور ڈیپریشن اس سطح تک آ پہنچی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں اس عدلیہ کی واپسی کا مطالبہ کرنا پڑا جو نام نہاد ”قومی مفاہمتی آرڈیننس“ کو بھی سرخ آنکھوں سے گھور رہی تھی ۔۔۔ اس سے زیادہ بے چینی بے قراری کیا ہو سکتی ہے کہ پرسوں ”نواز بھائی“ کے ساتھ ”میثاق جمہوریت“ ”سائن ہو رہا تھا “کل تک پرویز مشرف صاحب کے ساتھ کام کرنے کے عزائم کا اظہار تھا اور آج لانگ مارچ کے اعلان ہو رہے ہیں۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے داتا دربار حاضری تک جیسے جیسے محترمہ کی فرسٹریشن بڑھ رہی ہے اور پینترے تبدیل ہو رہے ہیں ۔۔۔۔ اسٹیببلشمنٹ بہت سی باتوں پر نظر ثانی کے لئے مجبور ہو رہی ہو گی۔
”میثاق جمہوریت“  کے بعد نواز بھائی فارغ
امریکی آشیر باد اور معافی آرڈیننس کے بعد روشن خیال، ہم خیال صدر فارغ
اور لانگ مارچ کے بعد عوام کا ”اپریل فول“ شروع یعنی عوام بھی فارغ لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
اسٹیبلشمنٹ اگر ضد چھوڑ کر ایمرجنسی اٹھا لے اور تھوڑی ہمت کا مظاہرہ کرے تو بی بی کو کندھوں پڑ بٹھانا اس کی مجبوری نہیں بن سکتا۔ پوری دنیا عدلیہ اور میڈیا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی بجائے ”مغرب“ کو سمجھایا جائے کہ محترمہ کی موجودگی انتہا پسندی کے خاتمہ کی بجائے اس میں شدت اور اضافہ کا باعث بنے گی ۔۔۔۔ سو میرٹ پر محترمہ کو جو حصہ ملتا ہے، حاضر ہے، اس سے زیادہ نہ ممکن ہے نہ مناسب۔ اپوزیشن بھی بالغ ہو ہی جائے تو بہتر ہے کہ کبھی ”نواز ہٹاؤ ون پوائنٹ ایجنڈا“ لے کر پرویز مشرف کا رستہ ہموار کیا اور اب پرویز مشرف کی مخالفت میں اندھے ہو کر کچھ اور کر بیٹھے تو شاید پچھتانے کی مہلت بھی نہ ملے۔
کھیل تو امریکہ، اسٹیبلشمنٹ اور بنت عوام کے درمیان ہے لیکن اپوزیشن اور عوام اپنی ذمہ داری محسوس کریں تو شاید ”امریکی جمہوریت“ کی بجائے ”پاکستانی جمہوریت“ ان کا مقدر بن سکتی ہے جس میں ”ایجنڈا“ بھی پاکستانی ہو گا اور اس پر عملدرآمد کرنے والے بھی!
پاکستان کے لئے امریکن ایجنڈے میں انتہا پسندی کے خاتمہ کی حد تک تو ٹھیک ۔۔۔۔ اس سے آگے بیان کرتے ہوئے تو قلم کے پر بھی جلنے لگتے ہیں۔


بشکریہ ۔ حسن نثار، روزنامہ جنگ

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

اشتہار

مسلم لیگ ق کی جانب سے تمام پاکستانی اخبارات کو دیئے گئے اشتہار کا عکس ۔۔۔ جس کا عنوان ہے '' یہ تحریر پاکستان کے کسی غیر ملکی دشمن کی نہیں، ان محترمہ کی ہے جو آج پھر پاکستان کی وزارت عظمٰی کے خواب دیکھ رہی ہیں''


اشتہار دیکھئے، سوچیئے، سمجھئے ۔۔ کیسے حکمران ہیں ہمارے جو اپنی حکمرانی اور ذاتی مفاد کے لئے پاکستان کی سالمیت داؤ پر لگانے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے ۔۔۔۔ ہم تو یہی کہے سکتے ہیں کہ خدارا بس کر دو اب بس۔ جیو اور جینے دو 


مکمل تحریر اور تبصرے >>>

Watch Live TV Channel

ایمرجنسی کے طوفان نے جس طرح نجی ٹیلی ویثرن چینلز کے چراغ گل کئے ہیں اس کا اثر پورے ملک کی ذہنی اور سماجی زندگی پر پڑ رہا ہے۔ ہر طرف تشویش، بے یقینی اور افسردگی کا سماں ہے۔ وہی حکمراں جو سینہ پھلا کر میڈیا کو بے مثال آزادی دینے کا دعویٰ  کرتے نہ تھکتے تھے اب عوام کو معلومات حاصل کرنے اور اظہارِ آزادی کے بنیادی، انسانی اور آئینی حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں میڈیا کی آزادی کو کبھی اس طرح سلب نہیں کیا گیا کیوں کہ اس دفعہ غیر ملکی نیوز چینلز کے ساتھ ساتھ پاکستانی چینل حتٰی کہ اسپورٹس چینلز بھی بند کر دیئے گئے ہیں۔
اس پریشان کن اور اضطرابی صورتحال میں، میں نے لائیو ٹی وی چینل کی سائٹ ترتیب دی ہے تاکہ اپنا حصے کا پانی ڈال کر اس بھڑکی آگ کو بجھانے کی کوشش میں شامل ہوا جائے۔
ایڈریس یہ رہا ۔ http://tv.pakiez.com

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

پاکستانی سیاست ۔۔ ایک جائزہ


ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاستدان تو بے شمار ہیں مگر سٹیٹس مین کا قحط ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ایک اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے اور دوسرا اگلی نسل کے بارے میں متفکر رہتا ہے۔ ایک اپنے بینک بیلنس اور رائٹ آف کے متعلق مشوش رہتا ہے اور دوسرا اپنی جائز تنخواہ اعزازی طور پر ایک روپیہ وصول کرتے ہوئے بھی ریاست کا ممنوں رہتا ہے۔ تو پھر ایک کو تاریخ اس کی زندگی میں ہی فراموش کر دیتی ہے اور دوسرے کے مزار پہ زندگی رقصاں رہتی ہے کہ زندہ لوگوں کی یہ بھی ایک نشانی ہے۔


انسانوں کے معیار کی بات کی جائے تو کچھ شخصیات تاریخ بدلتی ہیں اور کچھ جغرافیہ مگر بہت کم شخصیات ایسی ہیں جہنوں نے تاریخ و جغرافیہ دونوں کو بدلا ہے۔ محمد علی جناح ایسی ہی ایک شخصیت ہیں۔ تیس برس کم از کم سولہ گھنٹے روزانہ کام، کام اور کام کرنے والی ہستی کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں۔ ١٩٣٨ء میں پٹنہ سے نعرہ گونجا اور پھر ہر دل کی دھڑکن بن گیا اور دس برس میں قائد اعظم جنوبی ایشیاء کی سب سے بڑی شخصیت بن گئے۔ سٹینلے وال برٹ نے لکھا ہے کہ ‘چھٹی حس ان کا سب سے بڑا وصف تھا‘ لیکن حقیقت میں یہ ان کے کردار کی عظمت تھی کہ وہ ملت کا پاسباں اور ہر دور کے روح رواں ہو گئے۔


پاکستان معرض وجود  بعد میں آیا اس کے خلاف سازشوں نے پہلے جنم لینا شروع کر دیا۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے "شائد"  درست کہا تھا کہ پاکستان نظریاتی طور پر امریکہ کے زیادہ قریب ہے، اسی وجہ سے انہوں نے اپنے دورہ امریکہ میں پاکستان کا تعارف کرایا اور شبہات کے دھبے دور کئے۔ شہیدِ ملت جو مکا لہراتے اغیار کا دل کانپ کانپ جاتا۔ ١٦ اکتوبر ١٩٥١ء کو روالپنڈی کے جلسہ عام سے خطاب شروع ہی کیا تھا کہ ۔۔



He Heard the whine of bullets and tested the courage



 درست ہے کہ بڑوں کی غیر موجودگی میں بچے بگڑ جاتے ہیں۔ سب سے پہلے جمہوریت کی قبا کو تار تار کرنے والے سینئر سول بیوروکریٹ غلام محمد ہیں۔ جنہوں نے اکتوبر ١٩٥٤ء کو اس روایت کی بنیاد رکھی۔ یہ سچ ہے کہ پاور اکثر لوگوں کو کرپٹ کر دیتی ہے اور وہ اختیارات کے نشے میں اترانے لگتے ہیں۔ اپنے ماتحت افسر کا استقبال کبھی کبھار اس کے سر پہ گھنٹی کی ضرب کے گھومڑ سے بھی کرتے ہیں۔ تو جناب!



Who will bell the cat?



سبز انقلاب، صنعتی انقلاب اور معاشی استحکام کی شاہراہ پہ ملک کو گامزن کرنے والے جنرل ایوب خان اگر لوگوں کو مرعوب نہیں کرتے تو اپیل ضرور کرتے ہیں مگر ٥ مئی ١٩٦٠ء کو امریکہ کے فضائی جاسوسی کرنے والے طیارہ یوٹو کو روس کا گرانا اور پھر جنوری ١٩٧٦ء کی اشاعت میں نیو یارک ٹایمز کی سنسنی خیز خبر کہ ‘امریکہ کو خفیہ مراعات کے صلہ میں صدر ایوب اور سی آئی اے کے درمیان خفیہ معاہدے کے تحت انہیں ستر ہزار ڈالر سالانہ تاحیات ملتے رہے‘۔ پڑھ کر ایک محب وطن اچھل پڑتا ہے کہ



Brutus you too!



پھر زمام اقتدار ایک اہم موڑ پہ جنرل یحیٰی خان کے ہاتھ میں آتی ہے۔ ہمارا سنہرا بنگال بنگلہ دیش کے روپ میں طلوع ہوتا ہے تب کوئی قبر اقبال پہ پھول لے کے جاتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے کہ


پھول لیکر گیا، آیا روتا ہوا، بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں


عہد رفتہ کے سب سے کمزور رہنما جس کا شیوہ تھا۔



For God's sake hold your tongue, and let me love



لیکن سوال پیدا ہوتا ہے تب اسٹیبلشمنٹ کیا کر رہی تھی؟


ساٹھ کی دہائی کے وسط کے بعد ابھرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو۔ کمیونزم کا خوف بھٹو کے روپ میں پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے سروں پر ایسا سوار ہوا کہ چار عشرے بھی اس کی شدت کو کم نہ کر سکے۔ انہوں نے دنیا کے سب ایوان اقتدار کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا اس لئے موہوم آزادی (Myth of Independence) کا تصور دیا اور پھر وطن عزیز کے لئے ایٹم بم کے عزم نے بڑوں کو ان کا جانی دشمن بنا دیا اور وہ اپنی آخری تقریر میں منی سکرین پہ اپنے مخصوص انداز میں This white elephant this white elephant کہتے رہے اور وہ گھڑیاں بھی آئیں کہ



Smilingly he went to the gallows & .... said My will shall now be written by history. (Plus Episode)



 کرشمہ ساز قائد عوام کے بعد گیارہ سالوں کی مسافت نے اس بات کو دوبارہ ثابت کیا۔


 



Will not force the basis of state. MIU



مونگ پھلی کی پیشکش کرنے والوں نے جب پاکستان سے اپنی گیم تھیوری کے مطابق Cleansing کر لی اور سفید ریچھ کو نکیل ڈال لی تو پھر آم بھی تحفے میں دیئے۔ بہرحال جنرل ضیاء الحق کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ان کے جسم کا ہر اک انچ وطن عزیز کی خاطر ہی دشمنوں کی دہکائی آگ میں جلا اور امر ہو گیا۔


پاکستانی سیاست کا یہ باب کس قدر کربناک ہے اس بارے میں کوئی پی پی پی کی شریک چیئرپرسن محترمہ نصرت بھٹو سے پوچھتا جو مائیکل اینجلو کی مشہور پینٹنگ ‘Picta‘ کی میری محسوس ہوتی ہے، جس نے اپنے ہاتھوں میں دوسرے بیٹے کی لاش کو آخری چند لمحوں کے لئے تھاما۔



I do not grudge them: Lord, I do not grudge My two strong sons that I have seen go out To break their strength and die .... (The Matter – Padhraic Pearse)



اور مزید برآں یہ کہ بہن کو بھائی کے قتل میں شبہ کی نظر سے دیکھا گیا



That I have shot my arrow o'er the house, And hurt my brother. (Hamlet)



سیاست میں جنرل ضیاء الحق کے وارث میاں نواز شریف قرار پائے اور یوں دختر مشرق کے سب سے بڑے سیاسی حریف شیر پاکستان ہی ٹھہرے۔ دولت مند، صنعتکار، سیاستدانوں پر دولت کی چمک ہی سب سے بڑا الزام ٹھہرا۔ ایٹمی دھماکے اور طاقت کا نشہ انہیں لے ڈوبا، کیونکہ ہر درد کی دوا دولت نہیں ہوتی۔



Gold and iron are good to buy iron and gold. (Politics)



اقتدار کا ہما ایک بار پھر ایک فوجی کے کندھے پر آ بیٹھا اور جنرل پرویز مشرف پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو قرار پائے۔ چیف ایگزیکٹیو سے صدارت تک کا سفر کیا، سب سے پہلے پاکستان اور روشن خیالی کا نعرہ ان کی پہچان بن گیا۔ اتنی جلدی گرگٹ رنگ نہیں بدلتا جتنی جلدی وفاداریاں بدلی گئی۔ مخالفت اور پھر اپنائیت رشتے بدلنا کوئی ان سے سیکھے۔ ذاتی مفادات کی ایسی جنگ چھیڑی کہ ہر کوئی مفادات کے تالاب میں ڈبکیاں لگانا اپنی شان سمجھنے لگا ہے۔ ضیاء الحق نے کہا تھا کہ ‘میں جب بھی پکاروں گا یہ دم ہلاتے ہوئے میرے پاس چلے آئیں گے‘۔


ایمرجنسی، عدلیہ کا حشرنشر، وکلاء کی پٹائی، میڈیا پر پابندی پرویز مشرف نے خود کو ایک آمر کہوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یعنی انا ہی پاکستان کا مفاد ٹھہری۔ کہتے ہیں کہ ‘سیاستدان اپنی روش اور آمر اپنے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آتا‘۔



There are people in the world who take pleasure in teasing others



پاکستانی سیاست میں مادیت کا اس قدر عمل دخل ہو گیا ہے کہ عوام بیچارے سر پیٹ کے رہ گئے ہیں۔ اس وقت ہر طرف شور اور ہوہا برپا ہے لیکن اس شور میں بھی افتخار محمد چوہدری کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔



Where is life we have lost in living?
Where is wisdom we have lost in knowledge?
Where is knowledge we have lost in information?
The circle of heaven in 20 Centuries bring us Farther from God and nearer to dust..



اس بات کا غالب امکان ہے کہ آئندہ الیکشن کے بعد سیاستدان پھر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے پھریں گے کیونکہ حکومت بنانے کے لئے سکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔



Traveler there is no path. Paths are made by walking. (Tolstoy)



قائد اعظم کے پاس کھوٹے سکے تھے تو برملا اظہار کیا کہ ‘میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘ مگر موجودہ سیاستدانوں کی تو جیب ہی پھٹی ہوئی ہے۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

شادی بیاہ کی رسمیں ۔ حصہ دوم



شادی کی رسم میں برات (بارات) سب سے اہم اور دلچسپ مرحلہ ہے۔ پہلے وقتوں میں برات سجے سجائے اونٹوں پر جاتی تھی، اونٹوں پر کچاوے رکھ کر اس پہ بیٹھا جاتا تھا اور اونٹوں کی ایک لمبی قطار ہوتی تھی۔ سب سے آگے والے اونٹ کو مرھی کہا جاتا تھا، جس پر دلہن کو بیٹھا کر لایا جاتا تھا، دوسرے تمام باراتی پیدل چلتے تھے صرف خواتین کو اونٹوں پر سواری کرتی تھی۔ دلہا بھی اپنی دلہن کے کچاوے کو سہارا دیئے سارا راستہ پیدل چلتا رہتا تھا۔ اصل بارات یعنی جنج یہی تھی لیکن اب اونٹوں کا دور ختم ہو گیا ہے۔ اس لئے اب باراتیں پیدل، بیل گاڑیوں، ٹریکٹر ٹرالیوں، بسوں اور کاروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ لیکن برات کا اصل حسن پیدل جانے اور آنے والی برات میں ہے۔ سب سے آگے ڈھول نقارے اور بین والے ہوتے ہیں، دلہا اور سربالا اس کے بعد باراتی ہوتے ہیں۔ دوست اور رشتے دار نوجوان سارا راستہ بھنگڑے ڈالتے جاتے ہیں، جہاں جہاں سے برات گزرتی ہے لوگ گھروں سے باہر آ کر اسے دیکھتے ہیں، بچے اور خواتین تو بڑے شوق سے برات دیکھتے ہیں۔ جونہی یہ برات لڑکی والوں کے گھر کے قریب پہنچتی ہے جوش اور جذبے میں مزید تیزی آ جاتی ہے۔ دلہن کے گھر سے ذرا فاصلے پر برات کچھ دیر کے لئے رک جاتی ہے اور لڑکی کے گھر میں موجود خواتین اور بچے دروازے اور دیواروں کے اوپر سے اس کا نظارہ کرتی ہیں۔ ویلیں دینے، بھنگڑا ڈالنے کے بعد اس برات کا لڑکی والے استقبال کرتے ہیں۔ خواتین گھر اور مرد باہر لگے ٹینٹوں، شامیانوں یا درختوں کے نیچے رکھی چارپائیوں، کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ لڑکی کی ماں اور دیگر خواتین لڑکے کی طرف سے آنے والی خواتین کو دروازے پر روک لیتی ہیں اور اندر سے دروازہ بند کر دیتی ہیں۔ دلہے کی ماں جب تک اندر پھیلائے ہوئے کپڑے جسے جھل کہتے ہیں میں رقم نہ ڈالے دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ بعض دفعہ ہلکی پھلکی مذاق بھی کی جاتی ہے اور اندر داخل ہونے والی خواتین کو درختوں کی ٹہنیاں بھی ماری جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ لڑکے والے خوشی سے برداشت کرتے ہیں۔ دلہا کا برادری کی موجودگی میں نکاح پڑھایا جاتا ہے۔ دلہے کے والد کو سب لوگ مبارک باد دیتے ہیں اور پھر دلہا وہاں موجود سب افراد کے پاس سلام کرتا ہے اور لوگ اسے سلامی میں رقم پیش کرتے ہیں۔ پھر نائی سب لوگوں سے ایک مخصوص رقم جو سو سے لیکر ہزار تک کی ہو سکتی ہے بطور نیندر وصول کرتا ہے اور بلند آواز میں کہتا ہے فلاں شخص نے جس کی قوم فلاں اور فلاں جگہ کا رہنے والا ہے نے اتنے سو نیندر اور اتنے روپے ویل دی ہے۔ ایک آدمی رقم وصول کرتا جاتا ہے اور کاپی میں درج کرتا جاتا ہے۔ دلہا کو اس کے بعد دلہن کے گھر لے جایا جاتا ہے۔ (یہاں سے دلہے کو لوٹنے کا عمل شروع ہوتا ہے) جہاں پر دلہن تیار ہو کر گھونگھٹ میں بیٹھی ہوتی ہے، اندر داخل ہوتے ہی دلہے کی سالی اسے دودھ کا گلاس پیش کرتی ہے اور دودھ پلائی وصول کرتی ہے۔ دلہے کی بہن عموماََ چھوٹی بہن دلہے کی لنگی یا قمیض کا ایک کونہ مضبوطی سے باندھ دیتی ہے، اسے پلو بندھائی کہتے ہیں۔اور یہ خواہش ہر بہن کو ہوتی ہے، پلوبندھائی کے غوض چھوٹی بہن منہ مانگی رقم وصول کرتی ہے۔ جہاں دلہن بیٹھی ہوتی ہے اس کے کچھ فاصلے پہ ایک مضبوط پیندے والا مٹی کا برتن رکھا جاتا ہے، دلہے کو ایڑی کے زور پر اسے پہلی ٹھوکر میں توڑنا ہوتا ہے اگر دلہا اس میں ناکام رہے تو ساری لڑکیاں اس پہ زور زور سے ہنستی ہیں اور دلہے کو شرمساری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد دلہے کو جوتا اتار کر دلہن کے پاس بیٹھنے کو کہا جاتا ہے وہ جونہی جوتا اتارتا ہے، تاک میں بیٹھی ہوئی سالی جوتا چھپا دیتی ہے۔ ننگے پاؤں چلنے کے خوف سے دلہا کچھ دیکر ہی اپنی جان چھڑواتا ہے۔ اس کے بعد رخصتی کا وقت آ جاتا ہے۔ ماں باپ دل پر ہاتھ رکھ کر آنسوؤں اور نیک دعاؤں کے ساتھ لاڈوں سے پلی بیٹی کو رخصت کر دیتے ہیں۔ دلہا والے دلہن کو لیکر ہنسی خوشی ناچتے گاتے ہوئے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔
گھر پہنچنے سے قبل کسی دربار پر پہنچ کر دعا بھی کی جاتی ہے۔ سسرال میں دلہن اپنے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دروازہ پکڑ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ اسے موہاڑی پکڑنا کہتے ہیں۔ اس موقع پر دلہن کا سسر یا خاوند دلہن کو کہتا ہے فلاں گائے یا بھینس تمھاری ہے، نقد رقم دینے کا بھی رواج ہے۔ پھر دلہن کمرے کے اندر داخل ہوتی ہے۔ گھونگھٹ اٹھانے سے قبل دلہن دلہے سے گھنڈ کھلائی لیتی ہے۔
شادی کے ساتوین دن  دلہن کی ماں اپنے رشتے داروں کے ہمراہ اپنی بیٹی کے گھر آتی ہے اور اپنی بیٹی اور داماد کو اپنے ساتھ لے آتی ہے اسے ست واڑہ کہتے ہیں۔ دوسرے دن دلہن اور دلہا واپس اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔ اس طرح آنے جانے اور میل ملاپ   کا سلسلہ پوری زندگی چلتا رہتا ہے۔
 --- ختم شد ---
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

چاچا وردی لاہندا کیوں نہیں

نوٹ۔ سنا یہ گیا ہے کہ یہ نظم چکوال کے کسی وکیل نے لکھی ہے، بہرحال ہم اس گمنام شاعر کی جرات کو سلام پیش کرتے ہیں، پاکستانی بلاگ کے قارئین کے لئے اسے خصوصی طور پر یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔


چاچا وردی لاہندا کیوں نہیں
عزت نال گھر جاندا کیوں نہیں
تیری مدت ہو گئی پوری
ہن تے جانا اے مجبوری
تھکیا نہیں توں کھا کھا چوری
توڑیاں نے حداں دستوری
لے کے پنشن جاندا کیوں نہیں
چاچا وردی لاہندا کیوں نہیں


آیاں این کی چن چڑھاون
یورپ دا ماحول بناون
دھیاں، بہناں نکراں پاون
سڑکاں اتے دوڑاں لاون
ڈب کے تو مر جاندا کیوں نہیں
چاچا وردی لاہندا کیوں نہیں


نس کے واشنگٹن نوں جاویں
بش نوں جا جا مسکے لاویں
پیری ڈگ ڈگ ترلے پاویں
مظلوماں نوں تڑیاں لاویں
ظالم نال ٹکراندا کیوں نہیں
چاچا وردی لاہندا کیوں نہیں


باطل شطرنج وچھائی
مہرہ رکھ کے چال چلائی
ملت نوں توں موت دوائی
یاری دشمن نال نبھائی
کیتی تے شرماندا کیوں نہیں
چاچا وردی لاہندا کیوں نہیں


اپنی قوم نوں ضرباں لائیاں
کوہ چڈھیا اے وانگ قصائیاں
ہلاشیری پان بھلائیاں
دیندا اے کشمیر دئیاں
اوتھے زور وکھاندا کیوں نہیں
چاچا وردی لاہندا کیوں نہیں


قاتل نوں دلدار بنا کے
کی لبھیا اے ظلم کما کے
افغاناں دا خون بہا کے
ساری امت نوں زخما کے
کیتی پچھتاندا کیوں نہیں
چاچا وردی لاہندا کیوں نہیں


اکھیاں کھول کے تک بے دردی
امریکہ دی دہشت گردی
کیڑیاں وانگوں امت مردی
غیرت، طاقت توں نہ ڈردی
غیرت نوں اپناندا کیوں نہیں
چاچا وردی لاہندا کیوں نہیں


چور لیٹرے لٹ لٹ رجن
قوم دے ڈاکو تیرے سجن
کھلے ڈھلے نسن بھجن
مسجداں تے چھاپے وجن
کھسماں نوں تو کھاندا کیوں نہیں
چاچا وردی لاہندا کیوں نہیں
لے کے پنشن جاندا کیوں نہیں
چاچا وردی لاہندا کیوں نہیں

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

شکر ہے اقبال مر گئے

مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے صاحبزادے جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا ہے کہ شکرہے علامہ اقبال مر گئے آج زندہ ہوتے تو جج یا وکیل ہوتے اور ڈنڈے ہی کھا رہے ہوتے ۔جمعرات کو ”جنگ“ کو انٹرویو دیتے ہو ئے ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ فوج نے خود ہی لیڈر بنائے خود ہی مار دیئے قائد اعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صحیح لیڈر آئے تھے مگر انہیں پھانسی دے دی گئی نواز شریف کو فوج نے بنایا اور خود ہی دیس نکالا دے دیا فوج خود ہی لاتی رہی اور خود ہی خاتمہ کرتی رہی۔ علامہ مرحوم اپنے بیٹے کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ملک کا کیا حشر ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج علامہ اقبال اور قائد اعظم کے لئے جو کچھ کہا اور کیا جا رہا ہے وہ زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہیں ہے آج ملک کے جو حالات ہیں ان سے لگتا ہے کہ یا تو علامہ اقبال نے ہمیں چھوڑ دیا ہے یا ہم نے اقبال کو چھوڑ دیا ہے ہم نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کی تصویروں کو دیوار پر لگا رکھا ہے اور ان کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر انہیں بس سلام کر لیتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ علامہ اقبال نے 1910میں نمودار ہونے والے دمدار ستارے کو دیکھ کر لکھا تھا کہ یہ ستارہ دیکھ کر انسان کی اپنی حیثیت ختم ہو جاتی ہے اور اب میں اپنے پوتوں کی آنکھوں سے یہ ستارہ دوبارہ دیکھ سکوں گا کیونکہ یہ ستارہ سو سال بعد نمودار ہوتا ہے ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا دمدار ستارہ تو پتہ نہیں علامہ اپنے پوتوں کی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں یا نہیں البتہ وہ اپنے بیٹے کی آنکھوں سے یہ ضرور دیکھ رہے ہوں گے کہ ان کے ملک کا کیا حشر ہو رہا ہے انہوں نے کہا کہ آج علامہ کا یوم ولادت یا یوم وفات منانا صرف مزار کی پرستش ہی رہ گیا انہوں نے کہا علامہ اقبال قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد جو لوگ اقتدار میں آئے ان کا پاکستان کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ۔انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ 


ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی


مگر مجھے لگتا ہے کہ ہماری مٹی زرخیز ہی نہیں رہی ہم گمراہ ہو چکے ہیں۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

قائدِ قانون

قائد قانون ہی قومِ عقیق کی عمق ہے۔ قانون حکمران ہو تو قوم کی شان ہوتی ہے، جب انسان ایمان کے ساتھ امان بھی رکھے تو یہ ازاں سے اذعان کا ہی اعلان ہے۔ جسکو اِذن ہوتا ہے وُہ ہر حال قانون شکنی سے اعراض کرتا ہے۔ اعتزال میں بھی اعتصام ِ علم”بالادستیءِ قانون“ تھامے رکھتا ہے۔ اسی کو اعتزاز کا اعزاز کہتے ہیں، جو معاشرے کو معاشروں میں معزز بناتا ہے۔ اسی افتخار کے اقبال کو تاریخ ضیافشاں کی ضوفشاں ٹھہراتی ہے۔
قانون ا قدار، اُصول، قاعدہ، ضابطہ اور پابندی ہیں۔ قانون کچھ بھی ہوسکتا ہے، جس میں کچھ حدود مقرر ہو اور انسانیت کی فلاح واضح ہو۔ ہر گھر کا ایک اُصول، رشتہ کی قدر، کھانے کے آداب، بات کرنے کا انداز، لباس پہننے کا سلیقہ، گفتگو کے قواعد، محافل میں شرکت کرنے کے کچھ ضوابط اور مذہبی احکامات کی کچھ پابندیاں لازم ہوتی ہیں۔ یہ وُہ تمام معاملات ہے جو ایک انفرادی انسان کی ذات کا جز ہونا ضروری ہے۔ تبھی وُہ ایک مہذب انسان کہلاتا ہے۔ لائیبریری میں بیٹھنے،  بازار میں خرید و فروخت، سڑک پر چلنا  کے کچھ قاعدے بھی طےشُد ہیں اور قانون بھی مقرر ہیں، جن میں ٹکراؤ بھی نہیں۔ اِسی طرح جب ہم ایک فرد سےگروہ، تنظیم اور قوم کی حد تک چلتے ہیں تو انسان کی مضبوطی سے لے کر معاشرہ کے استحکام اور پھر مملکت کی طاقت اور امّہ کا اتحاد صرف اور صرف اپنے اپنےدائرہ  کے حدود کی مکمل پاسداری میں ہے۔ ہر درجہ کے کچھ اُصول اور قانون ہوتے ہیں۔ قانون احترام  سے ہوتا ہے، احترام قانون  سے نہیں۔
قانون ہمیں حدود سے تجاوز کرنے سے روکتا ہے۔ قانون کی پابندی ہی قانون کی بالادستی  ہے جو پابند نہیں وُہ عہد شکن  ہے جو باغی کہلاتا ہے اور باغی شیطان بھی ہوتا ہے۔ جب کبھی قانون کو توڑا جاتا ہے۔ ادارے، ملک اور قوم کمزور ہو کر انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کسی قوم کی ترقی کا راز قانون کی حکمرانی اور بالادستی میں مضمر ہے۔ مگر آج یہ بات ہمیں شائد سمجھ نہ آئے کیونکہ ہمیں کسی کی عزت اور قدر کا احساس نہیں۔ قانون کی حکمرانی انسان کے اندر سے شروع ہوتی ہے۔ قانون توڑنے والا قانون نافذ نہیں کرسکتا؛ وُہ صرف قانون شکنی کرنا جانتا ہے۔ کیونکہ اُس کا مزاج ہی شکن افروز ہوتا ہے۔ عہد شکن، مزاج شکن، قانون شکن،  روایت شکن، مذہب شکن مگر وُہ بت شکن نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہ بت کدوں سے ہی شکن مزاجیاں بنتی ہیں؛ جو اُسکی شہ سُرخیاں رہتی ہے۔
اسلام نےقانون کی بالادستی کی بنیاد لاالہ الااللہ محمد الرسول اللہ سےسمجھا دی۔ لفظ ’پاکستان‘  کلمہ طیبہ ہی سے ہیں تو پاکستان کا قانون بھی یہی ہوا۔ ذرا سوچیئے! یہ ہمارا اللہ سے وعدہ ہے؟ دین اسلام کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپکو اللہ کی رضا کے تابع کرلینا۔ کیا آج ہم سب اپنے آپکو اللہ کی رضا کے تابع کر چکے ہیں؟ تو پھر قانون کی بالادستی بہت دور ہے۔ کیونکہ قانون کی بالادستی والدین کا احترام اور خدمت کرنے سے شروع ہوتی ہے، اپنےقول کو ہر حال نبھانا، وعدہ کی پاسداری کرنا بھی ہے۔
آج ہمارا قانون اپنی ذات کے لئے نہیں ہوتا دوسروں کی ذات کے لئے ہوتا ہے۔ قانون سزا دینے کے لئے بناتے ہیں معاشرہ کی اصلا ح کے لئے نہیں بناتے بلکہ اصطلاح اپنی جزاء کے لئے کرتے ہیں۔ جبکہ یہ قانون شکنی ہوتی ہے۔ عادل کا انصاف دیانتداری سے ترازو کےدونوں پلڑوؤں کو مساوی کر کے ہم وزن کر دینا ہی قانون کی بالادستی ہے۔ کیا آج ہماری خواہشات قانون کے آگے سرخم کرتی ہیں اگر کر دیں تو قانون کی حکمرانی معاشرہ میں ہوگی۔ جس سے ہمارےگھر، شہر، ملک اور دُنیا بلکہ ہر معاملہ شعبہءزندگی میں امن قائم ہو جائےگا۔ قانون کا احترام well mannered لوگ کیا کرتے ہیں، وُہ افراد اعلٰی ظرف، تہذیب یافتہ عالی خاندانوں کے چشموں چراغ اور مہذب قوم کے نمائندے کہلاتے ہیں۔ جو قانون کا احترام نہ کرسکیں وُہ well mannered  نہیں ہوسکتا۔ جو well-mannered نہیں وُہ نہ تو respected ہو سکتا ہے اور نہ ہی Honoarable ۔
آج ہم قاعدہ کیوں نہیں بناتے کہ ایک کہانی ہے کہ ’چور اپنے اصول کی وجہ سے پکڑا گیا ورنہ چوری تو وُہ کر بیٹھا تھا۔ اصول نے مروا دیا۔ وُہ بے وقوف تھا۔‘حقیقتاً وُہ معاشرہ اور چور نادان نہ تھے نہایت ہی عاقل تھے۔ چوروں کے کچھ لوٹنے کے اُصول بھی ہوتے تھے۔ آج اصول نہیں تبھی اخبارات ڈاکو کے ڈاکے کے ساتھ قتل، ظلم اور زیادتی کی خبر ہیں۔ جہاں قانون کی حکمرانی ہو وہاں چور چوری مجبوری سےکرتا ہے، اور اپنی ضرورت سے بڑھ کر زیادتی نہیں کرتا۔ صرف اپنی ضرورت پوری کرتا ہے، ہوس (دولت، مرتبہ، نگاہ) کی تسکین نہیں کرتا۔
اگر کسی قوم کو کامیاب بننا ہے تو ہرفرد کو اپنے اندر دوسروں کی عزت کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اُصولوں پر ڈٹ جانا؛ چاہے موت واقع ہو جائے مگر ضمیر کا سودا نہ کرے۔ اس کا عملی نمونہ قائد اعظم رول ماڈل کے طور پر ایک مشعلچی کی صورت میں مشعل راہ ہے۔ جب ہم اپنے دل اور مزاج پر اللہ  کی حاکمیت کو تسلیم کریں گے تو قانون کی حکمرانی آہستہ آہستہ ہماری ذات، گھر، خاندان، شہر، معاشرے اور ملک میں نافذ ہو جائےگی۔ ہمیں خود مشعلچی نہیں بننا بلکہ اُس مشعل راہ کو اپنانا ہے جو قائداعظم نےعطاء کی۔
بالادستیءِ قانون انسان کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ہر طرح کا تحفظ جو آپ سوچ سکتے ہیں۔ صحتمند قوم صحتمند سوچ سے ہی ہوتی  ہے اور صحتمند سوچ قانون کی حکمرانی سے ہوتی ہے۔
اے اللہ ہر مسلمان کو اپنے والدین کا احترام کرنے کی توفیق عطاء فرما یہی احترام قانون کی اساس ہے اور ملک پاکستان پر اخلاق کی قدر سے قانون کی بالادستی عطاء فرما دے۔ اسی اغلاق کا اطلاق ہونا باقی ہے۔ یہی اعماق ہیں جنکو عملی طور پر اختیار کر کےسمجھنا اَشد ضروری ہے۔ (فرخ)
عقیق (قیمتی) ، عمق (گہرائی) ، ازاں (آغاز)، اذعان (فرمانبرداری سےاطاعت)، اِذن (اختیار سونپنا)، اعراض (بچنا)، اعتزال (دستبرداری)، اعتصام ِ علم (مضبوطی سےجھنڈا تھامےرکھنا)، اعتزاز (وُہ خوبی جسکا اثر بھی ہو) ، ضیافشاں (روشنی پھیلانا) ، ضوفشاں (روشنی پھیلنا)

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

ایسے قائد کی ضرورت اب بھی ہے

کل بھی برپا شورشیں باطل نے کیں

ذہن کافر میں شرارت اب بھی ہے
غیرتِ اسلام زندہ کل بھی تھی
خونِ مسلم میں حرارت اب بھی ہے
تھے رواں کل بھی جہادی قافلے
جاری یہ خاطرِ مدارت اب بھی ہے
جان کے نظرانے دیئے تھے کل بھی
زندہ یہ شوق شہادت اب بھی ہے
کلمہ توحید کل بھی سچ تھا
موقفِ حق میں صداقت اب بھی ہے
زندگی تیری امانت کل بھی تھی
زندگی تیری امانت اب بھی ہے
بت شکن ماضی میں بھی تھا مسلمان
کافروں کو یہ شکایت اب بھی ہے
منافقوں نے کل بھی دھوکے دیئے
ان سے صلح میں قباحت اب بھی ہے
کل کا فرعون غرق دریا ہو گیا
زندہ موسٰی کی جماعت اب بھی ہے
دنیا بھر کے آئمہ چلتے بنے
اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت اب بھی ہے
کل لکھا تاریخ میں خالد جسے
وہ شجاعت کی علامت اب بھی ہے
ابن قاسم کی ضرورت کل بھی تھی
لاکھوں طارق ہوں، ضرورت اب بھی ہے
پھونک دیں کل بھی ہم نے کشتیاں
زندہ یہ اپنی روایت اب بھی ہے
رحمتیں کل بھی اتریں بدر میں
اور قائم یہ اعانت اب بھی ہے
کل بھی تھے یہ رحمتوں کے سلسلے
قائم اللہ کی سخاوت اب بھی ہے
کل بھی زندہ تھے مگر توحید پر
لب پہ اپنے یہ عبارت اب بھی ہے
سنت نبوی جس کی شان ہو
اسوہ فاروق جس کی شان ہو
ایسے قائد کی ضرورت کل بھی تھی
ایسے قائد کی ضرورت اب بھی ہے


شاعر ۔ نامعلوم

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

قبر اقبال پر

پھول لیکر گیا، آیا روتا ہوا، بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آ رہی تھی صدا، یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
قبر پر قوم ساری تھی نوحہ کناں، آنکھ کے آبگینے تھے پھوٹے ہوئے
چند ہاتھوں میں گلشن کی تصویر تھی، چند ہاتھوں میں آئینے ٹوٹے ہوئے
سب کے دل چُور تھے، سب ہی مجبور تھے، بیکسی وہ کہ تابِ نظارا نہیں
شہرِ ماتم تھا اقبال کا مقبرہ، تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی، روحِ قائد بھی تھی سرجھکائے ہوئے
کہہ رہے تھے سبھی، کیا غضب ہو گیا، یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں
سرنگوں قبر پر تھا منارِ وطن، کہہ رہا تھا کہ اے تاجدارِ وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر، کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن
جس کی خاطر کٹے قوم کے مردوزن، ان کی تصویر ہے یہ منارا نہیں
کچھ اسیرانِ گلشن تھے حاضر وہاں، کچھ سیاسی مہاشے بھی موجود تھے
چاند تارے کے پرچم میں لپٹے ہوئے چاند تاروں کے لاشے بھی موجود تھے
میرا ہنسنا تو پہلے ہی اک جرم تھا، میرا رونا بھی ان کو گوارا نہیں
کیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا، شیر تھا ایک میں ارض بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی، ایک شاہین تھا میں ذہن اقبال کا
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آجکل، دوسرا دشمنوں کو گوارا نہیں
یوں تو ہونے کو گھر ہے، سلامت رہے، کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی، آج دو گئے، ٹکڑے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے
گھر بھی دو ہو گئے، در بھی دو ہو گئے، جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں
کچھ تمھاری نزاکت کی مجبوریاں، کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے، اس طرح ہم میں ہوتی گئیں دُوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر، تیری رسوائیاں بھی گوارا نہیں
اِس چمن کے بلبل بھی ستائے ہوئے، اُس چمن کے بلبل بھی ستائے ہوئے
آج شاخ و شجر، بوئے صحن چمن، باغبانوں سے ہیں خوف کھائے ہوئے
وہ نہ زندوں میں ہیں اور نہ مُردوں میں ہیں، ایسی موجیں ہیں جن کا کنارا نہیں
وہ جو تصویر مجھ کو دکھائی گئی، میرے خون جگر سے نہائی گئی
قوم کی ماؤں بہنوں کی جو آبرو نقشہِ ایشیا میں سجائی گئی
موڑ دو آبرو، یا وہ تصویر دو، ہم کو حصوں میں بٹنا گوارا نہیں

مشیر کاظمی مرحوم
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

پرویز مشرف کی والدہ کے نام

اظہرالحق کا مشرف کی والدہ کے نام کھلا خط پڑھا تو مجھے ١٥ مئی کو مشرف کی والدہ کو لکھا گیا خط یاد آ گیا، جسے سعودیہ عرب سے جناب شوکت محمود علوی صاحب نے تحریر کیا تھا۔ میں اس پوسٹ کو اپڈیٹ کر کے دوبارہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جب کوئی کسی کی نہ سنے اور برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھے تو اس کے بڑوں کو شکایت کی جاتی ہے آج ہم آپ کے پاس آپ کے بیٹے کی شکا یت لے کر آیۓ ہیں آپ کے بیٹے نے اس ملک پر فوج کی مدد سے قبضہ کیا اور تمام سیاستدانوں کو برا کہا سب کو لائن پر لگا کران کے خلاف کیس بنائے آج آپکا بیٹا اپنے اقتدار کو طول دینے کیلیے ان برے سیاستدانوں کے ساتھ مل کر سارے ملک میں پنگے کر رہے ہیں پتہ نہیں کس نے آپ کے بیٹے کو یہ سبق پڑھا دیا روشن خیالی ہونی چاہیے اور آپ کے صاحبزادے نے ٹی وی پر بھنگڑے ڈالے اس کے نتیجے میں ساری قوم بھنگڑے ڈال رہی ہے آپ کا بیٹا اپنی من مانی کیلئے فوجی قوت کا استعمال کر رہا ہے اور فوج کو خوش کرنے کیلئے ان کو نوکریاں دے رہا ہے اور ان کو غنڈہ گردی کے لیے استعمال کر رہا ہے ملتان میں شہزاد گارمنٹس ،اوکاڑہ میں غریب کسان لاہور میں کسانوں کی زمینوں سے بے دخلی کسی سے چپھی ہوئی نہیں جب آپ کے بٹیے اور اس کے خراب دوستوں کو بڑی والی عدالت کے بڑے والے صاحب نے ڈانٹ ڈپٹ کی تو ان سب نے مل کر ان کو نکال باہر کیا تاکہ کوئی ان کو کچھ نہ کہے اور یہ آرام سے سٹیل مل بیچ کے کھا جائیں زمینں اپنے نام کرا لیں لوگوں کو اٹھا لیں گم کر دیں ان کو اور کوئی ان سے پوچھے نہ – اب حالات اور خراب ہو رہے ہیں کھیل کود ، گانے باجے اور جلسے جلسے کھیلتے اب یہ مار دھاڑ پر اتر آئے ہیں کراچی میں اپنی طاقت کا سکہ جمانے کیلئے بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی ساری دنیا نے ٹی وی پر دیکھا کہ ایک طرف لوگ مر رہے ہيں اور اس جگہ سے کچھ دور آپ کے بیٹے کا غیر ملکی دوست ٹیلی فون پر لوگوں سے بات کرہا تھا اور لوگ ڈھول بجا بجا کر ناچ رہے تھے – آپ کے بیٹے کے اور اس کے دوستوں کے حکم کے مطابق کسی پولیس والے نے کسی فوجی نے اس خونریزی کو نہیں روکا – اس دھرتی کی ماؤں نے غلام محمد ، سکندرمرزا،یحیی خان ،ایوب خان ، ضیاالحق ہی دیے اور جو کسر رہ گئی تھی وہ آپ کا بیٹا پوری کر رہا ہے ہم آپ سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتے ہیں آپ کو اللہ اور اس کے رسول کا واسطہ دیتے ہیں اپنے بیٹے کو سمجھا ئیے جس راستے پر یہ چل رہے ہیں اس کا انجام اچھا نہیں اللہ کی غیرت جوش میں آئی تواس چشم فلک نے دیکھا سکندر مرزا لندن میں کمپسری کی حالت میں مرا جس ملک کا بےتاج بادشاہ تھا اس ملک کی زمین بھی نصیب نہ ہوئی جھاز ہوامیں پھٹ گئے اور مرنے والوں کی لاشیں بھی نہ ملی - قوم نوح قوم عاد قوم ثمود اورپچھلے گزرے حکمرانوں کے انجام سے سبق سکھیں – جن کے گھر کے چراخ بجھے جن ماؤں کي گود اجڑی جن بہنوں کے بھائی نہ رہی ان کی آہ کوئی اور سنے نہ سنے اللہ سن رہا ہے وہ انصاف کرے گا – اب بھی وقت ہے آپ ان کو سمجھا ئیے ورنہ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔

ان کی داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں


شوکت محمود علوی، الخبر ، سعودی عرب

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

شادی بیاہ کی رسمیں ۔ حصہ اول



جنرل مشرف کی طرف سے ملک میں لگائی گئی ایمرجنسی کی وجہ سے کنواروں کے مزے ہو گئے ہیں۔ ہر طرف سے بینڈ، باجوں اور شہنائیوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ ماحول اور موسم کے مطابق آجکل شادیوں کی رسمیں زوروں پر ہیں۔ یہاں ڈیرہ غازی خان میں ہر جمعرات، جمعہ اور ہفتے کی راتوں میں آدھے شہر کی سڑکیں ٹینٹوں اور قناعتوں کی وجہ سے بند ہوتی ہیں۔ خود مجھے ایک ماہ سے مسلسل ہر ہفتے دو تین شادیوں میں شرکت کرنی پر رہی ہے، اس وجہ سے میں نے سوچا کہ کیوں نہ آپ کو سرائیکی خطے میں شادی کی خوبصورت رسمیں متعارف کرائی جائیں۔
شادی ایک خوبصورت بندھن اور مقدس فریضہ ہے۔ سرائیکی خطے کے لوگ عرصہ دراز سے اس کی ادائیگی اپنے روایتی طریقے سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سائنس اور کمپیوٹر کے اس تیز رفتار دور میں جہاں خود انسان متاثر ہوا ہے وہاں ان  رسموں میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں مگر ان رسموں کی بنیاد وہی زمانہ قدیم والی ہی ہیں۔
جس گھر میں لڑکی پیدا ہوتی ہے ماں، باپ اسی دن سے اس کی رخصتی کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں۔ ماں ہر وقت بیٹی کے اچھے نصیب کی دعائیں کرتی رہتی ہے۔ سرائیکی خطہ پسماندگی اور غربت کا شکار ہے اس لئے دیہی خواتین اپنی جمع پونجی اور مال مویشی پال کر آہستہ آہستہ ‘ڈاج‘ یعنی جہیز اکٹھا کرتی رہتی ہیں، کیونکہ ایک ہی وقت میں وہ پورا انتظام نہیں کر سکتے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیٹی کی تربیت، اسے ہنرمند بنانے اور کھانے پینے میں مہارت پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ جب لڑکی جوان ہو جاتی ہے تو ماں باپ پہلی فرصت میں مناسب ‘ور‘ یعنی رشتہ ملتے ہی اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کر دیتے ہیں۔ شادی کی رسومات کئی مرحلوں اور دنوں پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن مل جل کر کام کرنے کی وجہ سے بڑی آسانی سے تمام مراحل طے ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے لڑکے کے گھر سے اس کی ماں یا کوئی قریبی رشتے دار عورت لڑکی والوں کے گھر جاتی ہے۔ لڑکی کو ہر لحاظ سے دیکھ کر، گھر اور دیگر چیزوں کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔ اگر لڑکی پسند آ جائے تو اپنے گھر والوں خصوصاََ شوہر کو رضا مند کیا جاتا ہے۔ ادھر لڑکی کی ماں اپنے شوہر سے رشتے کے بارے میں بات کرتی ہے۔ اس کے بعد خواتین کا ایکدسرے کے گھر میں آنا جانا، تحفے تحائف دینا شروع ہو جاتا ہے۔ بالآخر جب دونوں خاندان رشتہ کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں تو ایک رات مخصوص کر دی جاتی ہے، اُس رات لڑکے والے اپنے چند قریبی رشتے داروں کے ہمراہ لڑکی والوں کے گھر آتے ہیں اور اس رات شادی کی تاریخ طے کی جاتی ہے جسے گنڈھیں باندھنا کہتے ہیں۔ اس موقع پر گڑ، بتاشے یا لڈو بانٹتے ہیں۔ تاریخ ایک سے دو ماہ کے اندر رکھی جاتی ہے اور زیادہ تر چاند کی تاریخ پر شادیاں رکھی جاتی ہیں، چاند کی چودھویں کو سب سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔
سردی اور گرمی میں مہمانوں کو ٹھہرانے کے لئے مسئلہ ہوتا ہے اس لئے کوشش کی جاتی ہے کہ شادی ٹھنڈے میٹھے موسم یعنی اکتوبر، نومبر یا فروری، مارچ میں کی جائے۔ تاریخ طے ہوتے ہی دونوں طرف سے شادی کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ مکانوں کو چکنی مٹی یا رنگ روغن سے سجایا جاتا ہے۔ شادی سے چند دن قبل لڑکے کے گھر والے، لڑکی کے گھر والوں کو لیکر بازار جاتے ہیں جہاں سے لڑکی اور لڑکے کے لئے کپڑے، میک اپ کا سامان اور زیور وغیرہ خریدا جاتا ہے۔ اس سامان کو ‘وڑی‘ کہتے ہیں اور یہ لڑکے والوں کے خرچے پر ہوتا ہے۔ لڑکی والے بھی باقی ماندہ جہیز کی چیزیں خریدتے ہیں۔
شادی سے دو روز قبل خواتین کا ایک فنکشن ہوتا جسے مینڈھی کہتے ہیں۔ لڑکے کے گھر سے بہت بڑی تعداد میں خواتین ڈھولک بجاتی ہوئی اور خوشی کا اظہار کرتی ہوئی لڑکی والوں کے گھر آتی ہیں۔ یہاں پر ‘جھمر‘ یعنی جھومر ڈالی جاتی ہے اور ڈھولک پر خوشی کے گیت گائے جاتے ہیں۔ دلہن کو باہر صحن میں لایا جاتا ہے اور ایک بزرگ خاتون دلہن کے بالوں میں گندھی ہوئی مینڈھی یعنی بالوں کے بل کھولتی ہیں۔ شادی سے قبل لڑکیاں اپنے بالوں کو رسی کی طرح بل دے کر باندھے رکھتی ہیں۔ مینڈھی سے لیکر شادی تک دلہن بلاضرورت کمرے سے باہر نہیں نکلتی۔
لڑکے والوں کے گھر شادی سے ایک دن قبل رشتے دار اکھٹے ہو جاتے ہیں جن  کی رہائش کے لئے نزدیکی ہمسائیوں کے گھروں سے چارپائیاں، بستر اور دیگر سامان اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اس خاص موقع پر ہمسائے بہت تعاون کرتے ہیں۔ جن لوگوں کو رات کا بلاوا ہوتا ہے وہ اکثر دور کے رشتے دار ہوتے ہیں، اس لئے وہ سرشام ہی آ جاتے ہیں۔ شادی کے بلاوے کے لئے علاقے کا نائی ہر گھر جا کر دعوت دیتا ہے کہ فلاں دن مینڈھی، فلاں دن جاگا اور فلاں دن رخصتی اور ولیمہ ہے۔
جس دن شادی ہوتی ہے اس رات گھر میں جاگا منعقد کیا جاتا ہے۔ خواتین لڈی، جھومر اور بھنگڑے ڈالتی ہیں اور مراثن گانے گاتی ہے، مرد حضرات باہر چوپال میں ڈھول کی تھاپ پر جھومر اور بھنگڑے ڈالتے ہیں۔
یہ فنکشن رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ شادی والے دن گھر والے برات ‘بارات‘  کے لئے کھانے کے انتظام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اکثر شادیوں میں دلہن کا گھر نزدیک ہونے کی وجہ سے کھانا اور برات ایک ہی دن ہوتے  ہیں۔ سرائیکی خطے میں اکثر شادیاں اسی وسیب میں کی جاتی ہیں، برادری سے باہر یا دور بہت کم شادیاں ہوتی ہیں۔ کھانے کا انتظام حسب توفیق کیا جاتا ہے۔ عام طور پر سالن روٹی یا گوشت چاول پکائے جاتے ہیں۔ جانور ذبح کرنا، دیگیں پکانا اور تقسیم کرنا سب کام مل جل کر کیا جاتا ہے۔ جوں جوں مہمان آتے جاتے ہیں انہیں عزت و احترام سے بیٹھا کر کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ خواتین صحن میں بچھی ہوئی چٹائیوں پر بیٹھ کر کھانا کھاتی ہیں۔ کھانا کھا کر بارات کی روانگی کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک دلہا ‘دولہا‘ پھٹے پرانے کپڑوں میں دلہن کے گھر جا کر وہی نئے کپڑے پہنتا تھا مگر اب رواج بدل گیا ہے۔ دلہا کو پوری برادری سر پر خوشبودار تیل لگاتی ہے۔ دلہا کے ساتھ ایک آدمی مستقل طور پر رہتا ہے جسے سربالا کہتے ہیں۔ دلہا کے ہاتھ میں تلوار، کلہاری، بندوق، چاقو، یا لوہے کی کوئی چیز ضرور ہوتی ہے۔ اس کے بعد کسی مسجد کے سامنے جا کر دلہے کے ہاتھ میں اس  کا دادا، چچا یا قریبی بزرگ رشتے دار گانا پہناتے ہیں، یہ لال رنگ کے دھاگوں سے بنا ہوا ہوتا ہے۔ تمام لوگ دعا مانگتے ہیں۔ دلہا کو پوری برادری کے درمیان کھڑا کیا جاتا ہے اور درود شریف پڑھ کر پگڑی کو پھونک ماری جاتی ہے اور نائی دلہے کو نئے کپڑے پہناتا ہے۔ اس موقع پر ڈھول اور نقارہ پر خاص دھن بجائی جاتی ہے۔ مراثی اور نائی کو ہر شخص ویل دیتا ہے اور باقاعدہ باآواز بلند اعلان کیا جاتا ہے کہ دلہے کے نام پر دلہے کے فلاں رشتےدار یا شخص نے اتنے روپے ویل دی۔ دلہا کے کپڑے سفید،  ساتھ میں پگڑی اور ایک لنگی ضرور ہوتی ہے۔ اس موقع پر دلہے کے دوست اور رشتےدار نوٹوں کے ہار ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد بارات روانہ ہو جاتی ہے۔
حصہ دوم پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجیئے
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

بلاگر حلقہ احباب